• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم ) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کرکے دنیا کو اس جانب دھکیل دیا ہے ، جہاں امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سازگار حالات پیدا ہو سکتے ہیں ۔ یہ وہ ایجنڈا ہو گا ، جو کئی عشرے قبل مرتب کیا گیا ہو گا ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں عام تاثریہ ہے کہ وہ امریکہ کی ری پبلکن پارٹی کی دائیں بازو کی سوچ رکھنے والے ایسے شخص ہیں ، جو اپنے نظریات میں انتہا پسند ہیں ۔ پرلے درجے کے جذباتی ہیں ۔ وہ اپنے بیانات اور اقدامات میں سوچ سمجھ سے کام نہیں لیتے ۔ امریکی قوم پرستی کے ان کے نظریات پر یہودی مفادات کا رنگ چڑھا ہوا ہے ۔ وہ اپنے سارے فیصلے مذہبی قوم پرستی کی بنیاد پر جذباتی انداز میں کرتے ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ نہ صرف ان کے بیانات اور اقدامات سے پریشان ہے بلکہ مجبور بھی ہے ۔ میرے خیال میں یہ تاثر درست نہیں ہے ۔ جو لوگ امریکیوں کی تاریخ سے واقف ہیں اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کی کیمسٹری کو سمجھتے ہیں ، وہ حقیقت اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا تاثر بالکل بھی درست نہیں ہے ۔ امریکہ میں جو کچھ بھی ہوتا ہے ، وہ پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کے تحت ہوتا ہے ۔
یروشلم ( جسے دنیائے عرب میں ’’ القدس ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ) کو مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کرنے کا امریکی ایجنڈا بہت پرانا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بظاہر غیر متوازن رویوں کے حامل شخص کا امریکی صدر منتخب ہونا اور ان کے انتہا پسندانہ بیانات اور اقدامات اسی ایجنڈے کا حصہ ہیں ۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ وہ شمالی کوریا کو مکمل طور پر تباہ کر دیں گے اور اس اعلان سے بھی پہلے ایران کے ساتھ امریکہ کے جوہری معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ۔ ظاہرہ واقعات کی ہم جس طرح توضیح کر رہے ہوتے ہیں ، وہ قرین از حقیقت نہیں ہوتی ۔ امریکیوں نے یروشلم کو مکمل طور پر اسرائیل کے حوالے کرنے کے اپنے پہلے سے طے شدہ ایجنڈے کی تکمیل کے لئے موجودہ وقت کا انتخاب کیوں کیا ؟ یہ خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی حلقے بہتر طور پر جانتے ہوں گے یا وہ لوگ اس کا تھوڑا بہت ادراک رکھتے ہوں گے ، جو امریکی پالیسیوں کو تاریخ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں ۔ عام تاثر یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کرکے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے لیکن دنیا میں بدامنی کی آگ مزید بھڑکنے سے امریکہ کو فائدہ ہو گا یا نقصان ؟ ہم نے اس سوال پر کبھی غور نہیں کیا ہو گا لیکن امریکہ کے حقیقی مقتدر حلقے اس سوال کا جواب حاصل کرکے آگے بڑھے ہوں گے ۔ عالم اسلام میں امریکی صدر کے اس اعلان پر جو ردعمل سامنے آیا ہے یا جس غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے ، امریکیوں کو نہ صرف اس کا پہلے سے اندازہ ہو گا بلکہ شاید یہ سب کچھ امریکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ضروری ہو گا ۔
مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کے سپرد کرنے کے امریکی اعلان سے نہ صرف فلسطینی علاقوں پر صہیونی قبضے کو جائز قرار دید یا گیا ہے بلکہ آزاد فلسطینی ریاست کا حصول انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے ۔ اس اعلان کے لئے موجودہ وقت کا انتخاب مختلف اسباب کی بنیاد پر کیا گیا ہے ۔ ایک سبب تو یہ ہے کہ دنیائے عرب میں وہ سیاسی قیادت ختم ہو گئی ہے ، جو اس امریکی ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ تھی ۔ وہ عرب ریاستیں بھی تباہی کا شکار ہیں ، جو امریکہ کو مزاحمت دے سکتی تھیں ۔ معمر قذافی کا لیبیا ، بشار الاسد کا شام ، صدام حسین کا عراق اور دیگر عرب ریاستیں خانہ جنگی اور خونریزی کے باعث علاقائی اور عالمی سیاست میں اپنا کردار اور اثرورسوخ ختم کر چکی ہیں ۔ یاسر عرفات کے بعد فلسطین میں بھی سیاسی تقسیم بہت گہری ہو چکی ہے ۔ زیادہ تر عرب ریاستیں بشمول سعودی عرب اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم کے بارے میں اعلان کو مسترد کر رہی ہیں اور اسے عالمی اور علاقائی امن کے لئے خطرہ قرار دے رہی ہیں لیکن وہ اس امریکی ایجنڈے کی تکمیل کو روک نہیں سکتی ہیں ۔ ان میں سے کئی ریاستوں نے اسرائیل کے ساتھ بیک ڈور تعلقات استوار کیے ہوئے ہیں ۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے فوجی اتحاد کو ایران اور خطے کے دیگر امریکہ مخالف ممالک اور سیاسی و مذہبی گروہوں کو سبق سکھانے کے کام پر لگا دیا گیا ہے ۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ امریکہ کے اس اعلان سے عالم اسلام میں زبردست احتجاج ہونے کی توقع ہے ۔ یہ احتجاج اسلامی ملکوں میں مذہبی قوتوں کی سیاسی طاقت میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اعتدال پسند ، روشن خیال اور ترقی پسند سیاسی قوتیں نتیجتاً کمزور ہوں گی ۔ اس پر محترمہ بے نظیر بھٹو کی کتاب ’’ مفاہمت ‘‘ میں لکھی گئی ایک بات یاد آ رہی ہے ۔
انہوں نے لکھا تھا کہ امریکی ورلڈ آرڈر کا بنیادی ایجنڈا یہ ہے کہ امریکہ اور مغرب کے مقابلے میں مسلم بلاک قائم ہونے کا تاثر پیدا کیا جائے ۔ ’’ مسلم بلاک ‘‘ کے تمام ممالک میں یا تو بنیاد پرست اور انتہا پسند حکمران ہوں یا وہ سیاسی طور پر مضبوط ہوں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ اعلان اس ایجنڈے کی تکمیل میں بھی مددگار ثابت ہو گا ۔ اب تک کا تجربہ یہ ہے کہ مسلم ممالک میں القاعدہ ، طالبان ، داعش ، بوکو حرام اور دیگر انتہا پسند تنظیموں اور غیر عسکری مذہبی تنظیموں کا حقیقی ہدف امریکہ اور سامراج مخالف سیاسی قوتیں رہی ہیں اور ان کی وجہ سے عالم اسلام کے حکمران امریکی ایجنڈے پر چلنے کے لئے مجبور ہوئے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے ۔ اگر فلسطین میں صیہونی قبضے اور مظالم کے خلاف فلسطینی عوام تیسری ’’ انتفادہ ‘‘ ( مزاحمتی تحریک ‘ شروع کرتے ہیں تو وہ پہلے سے زیادہ تنہا ہوں گے اور ان کا کوئی ساتھ نہیں دے گا ۔ البتہ امریکہ کے خلاف ’’ احتجاج ‘‘ بھرپور طور پر جاری رہے گا۔
تیسرا سبب یہ ہے کہ چین ، بھارت ، ایران ، پاکستان ، قطر اور دیگر غیر مغربی معاشی طاقتوں کے ابھار سے امریکہ کے مسلط کردہ ورلڈ آرڈر کو خطرہ ہے ۔ دنیا میں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور نئے بلاکس بن رہے ہیں ۔ یہ آوازیں بھی آ رہی ہیں کہ ’’ امریکہ کے علاوہ بھی دنیا ہے ۔ ‘‘ امریکہامریکہ عالمی سیاست پر اپنی گرفت ڈھیلی پڑتے ہوئے محسوس کر رہا ہے ۔ اس لئے وہ دنیا کو اپنی نئی مہم جوئی کا شکار بنا سکتا ہے ۔ یروشلم سے متعلق اعلان دنیا کو اس جانب دھکیلنے کا اقدام ہے ۔ غیر امریکی عالمی قیادت خصوصاً عالم اسلام کی سیاسی اور مذہبی قیادت کو ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’ پاگل پن ‘‘ کا تدبر سے مقابلہ کرنا ہو گا ۔ پاکستان بدلتے ہوئے عالمی حالات میں انتہائی مشکل صورت حال سے دوچار ہے ۔ پاکستانی قیادت کو اس اعلان کے مضمرات اور اثرات کا گہرائی سے جائزہ لے کر فیصلہ کرنا ہو گا ۔

تازہ ترین