• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورپ کے دو ممالک ایک ہی براعظم میں واقع ہیں اور ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں ۔ان کانام انگلستان اور فرانس ہے دونوں کی زبانیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔دونوں کا تہذیب وتمدن ،رہنا سہنا ،کھانا پینا،سیاسی شعور الغرض کوئی چیز ایک دوسرے سے مماثلت نہیں رکھتی دونوں پڑوسی ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جانی دشمن سمجھتے جاتے تھے ۔ایک دوسرے کی زبان بولنا تو کجا پڑھنا بھی پسند نہیں کرتے تھے ۔یہ کوئی صدیوں پرانی بات نہیں ہے صرف25تیس سال پہلے تک کی بات ہے ۔ایک زمانے تک دونوں ملکوں میں بادشاہت تھی ۔فرانس اپنے بادشاہوں سے نجات پاکر جمہوری ملک بن گیا مگر انگلستان میں آج بھی ملکہ راج ہے اور ساتھ ساتھ جمہوریت بھی ہے ۔دونوں نے دیگر ممالک پر حکمرانی کی ۔فرانس کی حکمرانی زیادہ ترعربوں کی خلیجی ریاستوں،افریقہ اور فرانس سے متصل سرحدی ممالک تک محدود رہی ۔اسی وجہ سے اپنے آپ کو عظیم حکمران سمجھتے تھے اور انگریزوں سے نفرت کرتے تھے ۔ان کے اپنے ملک میں اور مفتوحہ ممالک میں ٹریفک کا نظام بھی انگریزوں کے برعکس ہوتا تھا۔ناپ تول کا نظام انگریزوں سے مختلف تھا۔انگریز اونس ،پونڈ ،گیلن ،میل میں حساب کرتے تھے تو وہ کلوگرام ،لیٹر اورکلومیٹر کے نظام سے کام چلاتے تھے یعنی کوئی چیز ان میں مشترک نہیں تھی ۔دونوں ایک دوسرے پر برتری لے جانے کی کوشش کرتے تھے البتہ انگریزوں کا رویہ فرانسیسوں کے مقابلے میں اس قدر جارحانہ نہیں ہوتا تھا ۔ان کی فتوحات فرانسیسوں سے بہت زیادہ تھیں ۔وہ تقریباً ہر براعظم میں اپنی حکومت پھیلا چکے تھے اسی وجہ سے خود کو گریٹ برٹن (Great Britian)کہلواتے تھے ۔اور ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے زیر اقتدار علاقے میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا ۔موسم اور مذہب دونوں کے تقریباً ایک تھے ۔سوائے کیتھولک مذہب یعنی عیسائیت میں کچھ کچھ بادشاہت کا دخل انگریزوں میں آچکا تھا کیونکہ عیسائی مذہب میں طلاق نہیں ہوتی تھی ۔ اسی وجہ سے پروٹیسٹنس وجود میں لائے گئے اور چند ترامیم بادشاہ نے کروالیں باقی تمام چیزیں وہی رہیں ۔آہستہ آہستہ یورپ والوں نے دیکھا کہ ایشیا والے ان سے آگے بڑھ رہے ہیں وہاں تعلیم آچکی ہے۔ان کی تعداد آبادی کے لحاظ سے زیادہ ہے اور وہ خود سر بھی ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے اپنی اپنی مملکت کو سمیٹنا شروع کردیا ۔جس کی وجہ سے قومیں آزاد ہونے لگیں اور نئے نئے ملک دنیا کے نقشے پرا بھرنے لگے ۔انہی ملکوں میں ایک ملک بھارت بھی تھا جو 70سال پہلے آزاد ہوا ۔اس ملک میں کئی قومیں آباد تھیں جو ایک دوسرے سے محبت کرتی تھیں ان میں مسلمان اور ہندوئوں کی بہت بڑی تعداد تھی باقی سکھ ،عیسائی اور یہودی اور پارسی بہت کم تھے اس ہندوستان پر ایک عرصہ تک مسلمان حکمران رہے دونوں کا مذہب اگر چہ الگ تھا مگردونوں ایک دوسرے کے ہمیشہ دوست رہے دونوں ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے آپس میں بھائیوں کی طرح رہتے تھے دونوں ایک دوسرے کی زبان سمجھتے تھے یعنی اُردو زبان ۔پھر کھانا پینا بھی تقریباً ایک جیسا تھا سوائے آپس میں مذہبی ممنوعہ اشیاء کے ۔ایک دوسرے کے مذہبی تہوار وں میں شرکت کرتے تھے الغرض ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں بھی شریک تھے ۔ہمارے بزرگ بتاتے ہیں برس ہا برس ایک دوسرے کے پڑوسی ہونے کے ناطے آپس میں کبھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوتا تھا اگر کسی نے شرانگیزی کی کوشش کی تو بزرگوں نے آپس میں بیٹھ کر بیچ بچائو کراکر معاملہ ہمیشہ کے لئے طے کرادیا ۔
پھر ہندوستا ن آزاد ہوگیا تو دونوں قومیں آزاد ہوگئیں مگر افسوس شرپسندوں اور مفاد پرستوں کو موقع مل گیا ۔نسلوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے والے راتوں رات ایک دوسرے کے نہ صرف دشمن بلکہ خون کے پیاسے ہوگئے ۔ایک دوسرے کو قتل کرکے ان کے مال پر قابض ہوگئے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ۔دونوں ایک دوسرے کو دشمن سمجھ کر لڑرہے ہیں حالانکہ غربت آج بھی دونوں کا عام مسئلہ \ہے ،انگریز جاتے جاتے کشمیر کی صورت میں دونوں کے درمیان دانستہ ایسا ناسور چھوڑ گیا جو دونوں کو کبھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دے گا ۔بھارت چونکہ طاقتور تھا اور پاکستان بحیثیت نوزائیدہ ملک بے حد کمزور اس نے کشمیر پر جھگڑا کرنے کے بجائے یواین او اور اس وقت کے بھارتی حکمرانوں کے وعدوں پر اعتبار کرکے دوبارہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر افسوس مغربی ممالک نے ہمیں ایک دوسرے سے کھنچائو اور تنائو میں رکھ کر ہماری ساری اقتصادی ترقی کو جنگ اور دشمنی کی آگ میں جھونک رکھا ہے اور خود دور بیٹھے ہوا دے رہے ہیں ۔اب دونوں ممالک ایٹمی قوت بن چکے ہیں۔ گزشتہ 70برسوں میں دونوں طرف کے مالی اورجانی نقصانات کا اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوگا کہ کھربوں ڈالر دشمنی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
دوسری طرف وہی ازلی دشمن انگلستان اور فرانس ایک دوسرے کے اتنے قریب آچکے ہیں کہ ان کی کرنسی ،پارلیمنٹ،ایکسپورٹ ایک ہوچکی ہے ،فرانس میں اب انگریزی بولنا فخر سمجھاجاتا ہے دونوں ایک دوسرے سے کھل کر تجارت کررہے ہیں اور یورپ پھر سے ایشیا کو من مانے داموں پر ٹیکنالوجی بیچ رہا ہے۔اور ہم اپنے ازلی دشمن کو آج بھی نہیں پہچان سکے ہیں ۔انہوں نے اپنی مفتوحہ مملکتیں آہستہ آہستہ آزاد کردی ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج کسی بھی ملک پر زبردستی اجارہ داری قائم نہیں رکھی جاسکتی ،انگلستان ایک گھنٹہ فرانس سے آگے ہے ۔میں بھارتی حکمرانوں سے سوال کرتا ہوں کہ آپ نے 70سال کشمیر پر بالجبر حکومت کرکے کیا حاصل کیا ؟ اور آئندہ یہ ہٹ دھرمی جاری رکھی تو بھی آپ کیاحاصل کرسکیں گے ؟کشمیر فطری طور پر بھارت سے الگ ہے ،اسے بزورطاقت بھارت کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا لہٰذا بھارتی حکمرانوں کو حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے اور کشمیریوں کو ان کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہیے اسی میں بھارت سمیت سب کا بھلا ہے ۔روس جیسا ملک افغانستان پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکا وہ عاقبت اندیش تھا اس نے جلد ہی سمجھ لیا کہ اب کوئی ملک دوسرے ملک پر زبردستی حکومت نہیں کرسکتا وہ اس محاذ آرائی میں اربوں روبل اور ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر افغانستان سے دستبردار ہوگیا ۔جبکہ بھارت کھربوں ڈالر خرچ کرکے اور لاکھوں جانوں کی بھینٹ دے کر وہیں کا وہیں ہے ۔امریکہ اور یورپی برادری صرف رسماً بھار ت سے کہتے ہیں کہ وہ کشمیر کا فیصلہ کرے درحقیقت وہ کبھی نہ چاہیں گے کہ بھارت اور پاکستان آپس میں اچھے پڑوسی کی حیثیت سے رہیں اگر یہ دوست ہوگئے تو ان کا اسلحہ کون خریدے گا ان کا بنایا ہوا سامان کہاں کھپے گا کیونکہ 150کروڑ انسانوں کی منڈی صرف ہندوستان اور پاکستان کے عوام کی ہے جس میں 50یورپی ممالک بن سکتے ہیں وہ کیسے انہیں دوست دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے انڈونیشیا میں کارروائی کرکے راتوں رات مشرقی تیمور کو ایک آزاد ملک بنوادیااگر وہ پاکستان بھارت اور کشمیر سے مخلص ہیں تو کشمیرمیں 70برس سے کھیلی جانے والی خون کی ہولی پر خاموش کیوں ہیں ۔افغانستان میں روس کی فوج کشی کے خلاف کیوں پاکستان کی مدد کی اور افغانستان کو آزاد کروایا؟کیوں عراق سے کویت کا دوبارہ آزاد کرایا ؟ کیا وہ ہندوستان کی جارحیت کے خلاف خود میدان میں نہیں آسکتے تھے ۔ یقیناً یہ ان کے مفادات کی جنگ ہے ہندوستانی حکمرانوں نے اگر آج کشمیر کو آزاد نہیں کیا تو کل وہ مزید قیمت ادا کرکے بھی اس پر مسلط نہیں رہ سکتے اور ایک دن ان کو کشمیر کو آزاد کرنا ہوگا بہتر یہی ہے کہ مذاکرات کے ذریعے عزت کے ساتھ کشمیر کو آزاد کرکے ہندوستانی عوام کی خوشحالی کے کام کریں ۔اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرکے ایشیا کے دو اچھے پڑوسیوں کی طرح شیر وشکر ہوجائیں۔

تازہ ترین