• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مشرق وسطیٰ کے امن کیلئے نیا خطرہ رابطہ…مریم فیصل

شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کے ٹھیک سو سال قبل برطانیہ کے جنرل ایلن بی نے عثمانی ترک فوجوں کو شکست دے کر القدس پر قبضہ کیا تھا۔1917دسمبر 11 ۔اس سے قبل683 سال سے مسلسل بیت المقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔اس کے بعد جب اسرائیل قائم ہوا تو اقوام متحدہ نے اس کے دو حصے کردیے تھے ۔مشرقی حصہ اردن کے پاس اور مغربی حصہ ذور و جبر سے قائم ہونے والی ریاست اسرائیل کے پاس پھر 1967 میں مسلمانوں کو ایک اور صدمہ برداشت کرنا پڑا جب اس سال جون میں ہونے والی عرب اسرائیل تیسری جنگ میں عرب افواج کو شکست ہوئی اور القدس پر اسرائیل کا مکمل قبضہ ہوگیا۔مصر ،اردن اورشام کی مشترکہ فوجوں کو اس میں شکست ہوئی تھی۔اس کے بعد ایک اور جنگ ہوئی ،کیمپ ڈیوڈ مذاکرات ہوئے جس کے بعد فلسطین اسٹیٹ کا قیام عمل میں آیا جسے آج 136 ملک تسلیم کرتے ہیں۔یہ ان اوسلو مذاکرات کے نتیجے میں ہوا جو فلسطینیو ں اور اسرائیل کے درمیان اب تک جاری ہیں۔اس کا سرپرست امریکہ ہے دوسرے الفاظ میں ضامن ۔صدر ٹرمپ نے چھ دسمبر کو جو انتہائی تکلیف دہ فیصلہ کیا اس نے اس مذاکرات کے عمل بلکہ مشرق وسطی میں امن عمل کو شدید خطرے سے دوچار کردیا ہے ۔یہ بھی طے تھا کہ مشرقی حصہ فلسطین اسٹیٹ کا دارالحکومت ہوگا ۔اب جب امریکہ نے وہاں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا صدارتی اعلان کر دیا ہے تو اسرائیل کو کیا ضرورت ہے کہ وہ امن مذاکرات کی اس شق کا بھی خیال کرے ۔یہ تو تھے وہ سیاسی و سفارتی مضمرات جو کہ صدر ٹرمپ کے بلاضرورت فیصلے کے اثرات میں آتے ہیں ۔مشرق وسطی اس وقت اپنے بدترین بحران سے گزر رہا ہے ۔عرب مسلمان ،علاقے میں ہر جگہ زخمی اور ہلاک ہیں ۔شام میں پانچ لاکھ ہلاک اور کڑوڑ سے اوپر بے گھر ۔عراق غیر مستحکم اور بدترین ہلاکتوں کاشکار ۔لبیا خون خون ۔یمن میں سعودی عرب اور حوثی باغیوں کی جنگ ۔شاید ہی تاریخ میں مسلمان ایک یا دو دفع اتنی تکلیف اور کمزوری سے گزرے ہوں جتنے کے آج ہیں۔اس میں جہاں یورپی طاقتوں کا ہاتھ ہے وہیں پر امریکا اور روس بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔مسلم خون اتنا ارزاں یہاں شاید کبھی نہ تھا۔ابھی اس تکلیف سے گزر رہے تھے کہ یہ صدر ٹرمپ کا یہ تکلیف دہ فیصلہ سامنے آیا جس کی نہ صرف ساری مسلم دنیا بلکہ اہم یورپی ممالک جن میں برطانیہ فرانس جرمنی شامل ہیں کی طرف سے بھی اختلاف کیا جا رہاہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا فوری اجلاس طلب کیا گیا جس میں یقینا امریکہ کو اس فیض سے باز رہنے کے لئے کہا جائے گا ۔ اندیشہ یہ ہے کہ جس امن عمل کو فلسطین کے لئے بڑی مشکل اور صبر آزما مرحلوں کے بعد شروع کیا تھا کہیں وہ بھک سے نہ اڑ جائے اور پھر سے تشدد کی کوئی نئی لہر نہ شروع ہوجائے۔لیکن اس میں مسلم حکمرانوں خاص کر مشرق وسطی کے حکمرانوں کے لئے بہت زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ایران اور عرب کشمکش بلکہ ان کی جنگوں نے مسلم دنیا کو بری طرح تقسیم کردیا ہے ۔ شام ،عراق میں ہر جگہ عربوں۔اور ایران میں فوجی مقابلہ ہو رہے ہیں اور اس میں ہلاکتیں کس کی ہوئیں۔ لاکھوں کی تعداد میں مسلمانوں کی ۔اس کے علاوہ سارا علاقہ غیر مستحکم ہوکر رہ گیا ہے ۔شدت پسندی ،دہشت گردی اور فرقہ واریت نے اسے لپیٹ میں لیا ہواہے۔اس کا نشانہ کون ہیں وہاں کے عام مسلم شہری ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سارے مسلم و عرب ملکوں نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور اس فیصلے کے خلاف شدیداحتجاج کیا ہے ۔یورپ بھی ان کے ساتھ ہے۔لیکن کیا یہ کافی ہے ۔اگر واقعی مسلمان ملک اتحاد کا عملی مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں ۔اسرائیل اورامریکہ سے اپنے مطالبات منوانا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں زبانی کلامی داعووں کی جگہ اس کا عملی ثبوت دینا ہوگا۔اپنے اختلافات بھلا کر ان جنگوں کو خیر آباد کہنا پڑے گا جو وہ مشرق وسطی میں علاقائی برتری کے لئے لڑ رہے ہیں اور جس میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر مسلمان ہیں۔اگر واقعی فلسطین کے لئے کچھ کرنا ہے تو پہلے یہ عرب عجم کی خون ریزی کو ختم کرکے ایک ساتھ کھڑے ہونا ہوگا۔یہی وہ عملی شکل ہے جس سے نہ صرف فلسطین کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے بلکہ مشرق وسطی کے تمام زخموں پر مرحم رکھاجاسکتاہے ۔

تازہ ترین