• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست ہماری دیو بے زنجیر ہو گئی خصوصی مراسلہ…سلیم یزدانی

پاکستانی سیاست کا یہ المیہ ہے کہ جو شخص بھی اقتدار کی سیڑھی پر چڑھ جاتا ہے وہ اترنے کا نام نہیں لیتا حتّیٰ کہ قدرت اس سے نجات کا کوئی راستہ نہ نکال دے۔ کبھی کوئی بیرونی سازش اپنے مفاد میں اسے نکال باہر کرتی ہے کبھی اداروں کی مخاصمت اس کے آڑے آ جاتی ہے۔ حکمراں اقتدار کو امانت نہیں سمجھتے طرح طرح کے جتن کرتے ہیں کہ اقتدار ہاتھ سے جانے نہ پائے۔ خود نہیں بدلتے آئین بدل دیتے ہیں۔ ملک کی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ جو حکومتیں خواہ وہ کسی ملک کی ہوں، آئین کے مطابق حکمرانی کا حق استعمال کرتی ہیں وہ کامیاب و کامران ہوتی ہیں اور جب آئین و قانون سے روگردانی کرتی ہیں تو اس کے نتائج کبھی اچھے نہیں ہوتے۔ اب بات بگڑی ہے ایسی کہ بنائے نہ بنے۔ 70سال ہو گئے خواب لکھتے ہوئے، اب کوئی تو تعبیر لکھنے والا ہو، کوئی تو حساب لینے والا ہو۔ سراغ منزل مقصود بھی کوئی پائے۔ ہمارے سیاستدان چاہتے کیا ہیں، ان کی سوچ کیا ہے، یہ ملک و قوم کو کس طرف لے جا رہے ہیں۔ ملک میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے، کیا یہ سوچتے نہیں، کیا ان کو نظر نہیں آرہا کہ بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، اندرون ملک خطرات بڑھ رہے ہیں، باہر سے دشمنوں کی سازشیں زور پکڑ رہی ہیں، اندر کے دوست نما دشمن ہر طرف متحرک ہو رہے ہیں۔ یہ حالت دیکھ کر بیرون ملک جو دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سیاسی زبان میں دھمکیاں دے رہے ہیں کہ فلاں دہشت گرد کو کیوں رہا کیا گیا، اسے فوراً گرفتار کرو۔ سیاستدان آپس میں الجھ رہے ہیں۔ پاکستان میں طاقتورکے ہاتھوں میں غریب کی عزت پارہ پارہ کرنے کا لائسنس ہے۔ مساوات صرف آئین کا حصّہ ہے۔ انسانی حقوق آئین میں ہماری سیاست دیو بے زنجیر ہو گئی، نہ کوئی اخلاقیات ہے نہ کوئی نظم و ضبط ہے۔ اب کہا جا رہا ہے الیکشن وقت سے پہلے کرائے جائیں۔ دنیا میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بر سر اقتدار پارٹی ایک ووٹ کی اکثریت سے اپنی معیاد حکمرانی پوری کر لیتی ہے۔ اس پورے عرصے میں اپوزیشن نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ الیکشن وقت سے پہلے کرائے جائیں۔ انہوں نے جوڑ توڑ کر کے حکومت ختم نہیں کرائی۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی حکومت وزیراعظم ولسن کی سربراہی میں صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے چار سال قائم رہی ، قوم و ملک اور اعلیٰ جمہوری اقدار کیلئے یہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے بہ بشرطیکہ پاکستان کے مفاد کو ذاتی مفاد اور پارٹی مفادات سے بلند رکھا جائے لیکن اب حکومت کے دن پورے ہوتے نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ غلطیاں پر غلطیاں کر رہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان نفرت کی سیاست، علاقائی تعصب، کرپشن کی آگ میں جل رہا ہے۔ ہمارے سیاستدان جمہوریت کا راگ الاپتے ہوئے نہیں تھکتے لیکن جمہوری اصولوں اور جمہوریت کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہیں۔ اب آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ پارلیمانی نظام ناکام ہو گیا ہے، صدارتی نظام لایا جائے۔ یہ بات لوگ کیوں نہیں سمجھتے کہ پارلیمانی نظام فیل نہیں ہوا ہے، سیاستدان اور سیاسی جماعتیں ناکام ہوئی ہیں۔ انہوں نے حکومت، آئین و قانون کے مطابق نہیں چلائی۔ جمہوری اصولوں کو بروئے کار نہیں لائے۔ یاد رکھیں جب تک قانون کی بالادستی نہیں ہو گی کوئی بھی نظام اور کوئی بھی حکومت کامیاب نہیں ہو گی۔ پاکستان میں حکمرانوں نے نہ صدارتی نظام کامیاب ہونے دیا اور نہ پارلیمانی نظام کو انہوں نے اختیارات کے غلط استعمال سے پورے نظام حکومت کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا اور مالی بدعنوانیوں اور کرپشن کے ذریعے ملک کو معاشی، مالی اور اقتصادی طور پر کمزور کر دیا۔ سیاسی حکومتوں نے معیار کو پس پشت ڈال کر نااہل افراد کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جس سے پورا نظام حکومت ناکارہ ہو گیا۔ اب ایک امید کی کرن یہ ہے کہ عدالتیں ملک میں آزاد ہیں، وہ اگر آزادی سے انصاف کرتی رہیں تو ملک عدم استحکام سے نکل جائے گا۔ جس ملک میں عدل ہونے لگے اس ملک کا بال بیکا نہیں ہو سکتا۔ یہ آپ نے پہلی دفعہ دیکھا ہو گا کہ عدالتوں کی توہین کی جا رہی ہے، اداروں پر الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ تین بار نواز شریف وزیراعظم بنے، تینوں بار انہوں نے اور ان کے مشیروں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ وہ سب کے سب حکوت کرنے کے قابل نہیں ہیں ۔ اب یہ لگتا ہے قبل از وقت الیکشن ہی ملک کے انتشار کو ختم کر سکتا ہے ، اس وقت ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو امریکہ، اسرائیل، افغانستان اور بھارت کو ایک ساتھ Faceکر سکے۔

تازہ ترین