• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ کے جس جوش و خروش سے ہنگامی اجلاس بلائے گئے تھے اس سے لگتا تھاکہ یہ دونوں ادارے عالم اسلام کے خلاف صدر ٹرمپ کا انتہا پسندانہ اور متعصبانہ فیصلہ رکوانے کے لئے کوئی جامع حکمت عملی وضع کریں گے لیکن دونوں اجلاس محض مذمتی قرار دادیں منظور کرکے ختم ہو گئے تاہم اس سے امریکہ کویہ اندازہ ہو گیا ہو گا کہ دنیا نے مسلمانوں کے قبلہ اول پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کو دوام دینے کی سازش کو حقارت سے مسترد کردیا ہے۔ سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد میں کہا ہےکہ ٹرمپ منصوبے سے اسرائیل اور فلسطینیوں میں خونیں تصادم کی راہ ہموار ہو گئی جس سے مشرق وسطیٰ کا امن تباہ ہو گا اور اس کے اثرات عالمی امن پر بھی مرتب ہوں گے۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس قاہرہ میں ہوا جس میں22 عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔ اجلاس میں جو قرار داد منظور کی گئی، اس میں امریکی اقدام کے خلاف کسی خاص حکمت عملی کا کوئی ذکرنہیں۔ البتہ صدر ٹرمپ سے اپنا اعلان واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہےکہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کر کے امریکہ کی اپنی حیثیت ارض فلسطین پر ایک قابض جیسی ہو گئی ہے اور وہ خود اس تنازع کا ایک فریق بن گیا ہے جس کے بعد اس کا ثالث کا کردار ختم ہو گیا ہے۔ لبنان نے تجویز پیش کی کہ عرب ممالک امریکہ پر معاشی پابندیاں عائد کریں مگر خود بدترین دہشت گردی اور خانہ جنگی کے شکار اور آپس میں دست و گریباں ممالک ایسا کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اس لئے اس تجویز کو پذیرائی نہ ملی۔ کل انقرہ میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کا طلب کردہ اسلامی ممالک کی تنظیم کا اجلاس ہوگا توقع کی جانی چاہئے کہ اس میں ایسے اقدامات تجویزکئے جائیں گے جن سے امریکہ پر دبائو بڑھا کر بیت المقدس پر فلسطینی ریاست کی حاکمیت بحال کرنے کی راہ ہموار ہو سکے۔ اسی دوران یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ نے بیت المقدس پر اپنا فیصلہ عام کرنے سے پہلے فلسطین کے صدر محمود عباس کو ٹیلی فون کرکے ایک ایسے امن منصوبے پر بات کی تھی جو اسرائیل اور فلطینیوں کے درمیان مذاکرات کی بنیاد بن سکتا ہے۔ یہ منصوبہ وائٹ ہائوس کے مشیر تیار کر رہے ہیں جو2018کی پہلی ششماہی میں پیش کیا جائے گا لیکن زمینی حقائق سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ منصوبہ بھی فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کی ایک اور کوشش کے سوا کچھ نہیں ہو گا کیونکہ امریکہ اسرائیل کی غیرقانونی اور غیر اخلاقی ریاست قائم کرنے سے لے کر اب تک صرف یہودیوں کی سرپرستی اور فلسطینیوں کے حقوق سلب کرتا رہا ہے۔ ٹرمپ نے بیت المقدس کے بارے میں جس فلسطین دشمن اقدام کا اعلان کیا یہ امریکہ کی اسی مسلم مخالف پالیسی کا تسلسل ہے جس پر ماضی قریب میں جارج بش، بل کلنٹن اور بارک اوباما بھی عمل پیرا رہے۔ تاہم ٹرمپ نے ان پرسبقت حاصل کی اور بیٹھے بٹھائے دنیاکو آتش فشاں کی طرف دھکیل دیا۔ امریکی صدر کے اس غیر معقول عمل کے خلاف اسلامی دنیا کے علاوہ امن پسند یورپی، افریقی اور ایشیائی ممالک حتیٰ کہ خود امریکہ کے صلح جو حلقوں اور تھنک ٹینکس نے بھی شدید مخالفت کی ہے اور اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے انتہا پسند تنظیموں کو آکسیجن ملے گی اور مہلک ترین ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی سے پیدا ہونے والے خطرات کے باوجود دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے جو خواب دیکھے جا رہے تھے وہ منتشر ہو کر رہ جائیں گے۔ کرہ ٔارض کو ایک نئی عالمی اور وہ بھی ایٹمی جنگ سے بچانے کے لئے فرانس۔ روس اور دوسرے ممالک امریکہ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہے ہیں، اسلامی ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ سب مل کر قبلہ اول کو صیہونی و امریکی یلغار سے بچانے کے لئے مشترکہ اصولی موقف اختیارکریں اور اسے عملی جامہ پہنائیں۔ اس حوالے سے سعودی عرب اور ایران کو اپنے اختلافات ختم کرکے عالم اسلام کو اتحاد اور اتفاق کی راہ دکھانی چاہئے۔

تازہ ترین