• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے سابق فوجی حکمرانوں کے انتخاب ، ان ہی کی غیر معمولی اور خلاف آئین معاونت اور پھر عوام الناس میں بکثرت پائے جانے والی سماجی پسماندگی کی منفی طاقت اور اب ناجائز دولت کے زور سے ملک کی سب سے بڑی مقبول سیاسی جماعت ن لیگ مسلم لیگ کے نظریے سے تو کبھی بھی قریب نہیںرہی، اور اب تو یہ کوسوں دور ہو کر فقط ن لیگ ہی ہے۔ ن لیگی بھی زیادہ تر اپنے سیاسی ابلاغ میں اپنی جماعت کو ن لیگ ہی کہتے ہیں، اب تو شریف فیملی بھی یہ ہی چاہتی ہے کہ اسے ن لیگ ہی لکھا و پکارا جائے ۔ برا وقت آنے پر معزول وزیر اعظم اور ن والے جناب نواز شریف ببانگ دہل اعلان کر چکے ہیں کہ میں ’’اب نظریاتی ہو گیا ہوں‘‘۔ گویا وہ اب تک نہیں تھے، جبکہ مسلم لیگ سدا سے نظریاتی سیاسی جماعت رہی، اور ان گنت کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود یہ اپنے نظریے کی بنیاد پر ہی پاکستان میں بے پناہ اہم اور ایٹ لارج محترم رہی، عام پاکستانی اس تاریخی و قومی جماعت کو بڑی سے بڑی کوتاہیوں کا الائونس دیتے رہے، کہ اس جماعت نے اپنے بنیادی نظریے کے مطابق انڈیا کی پارٹیشن کر کے مسلمانان ہند (یونائیٹڈ) کے لئے ایک نظریاتی مملکت کے قیام کو ممکن کر کے دکھایا۔اب تک عام پاکستانی اس دھوکے میں رہے کہ میاں نواز شریف ایک اوسط پاکستانی کی طرح مسلم لیگی نظریے کے پیروکار ہیں، اور ان کی جماعت میں ن فقط عملی سیاسی دھڑےبندی کے باعث جڑ گیا ہے۔
ن لیگ کو پاکستانیوں نے یہ ہی دھوکا کھاتے ہوئے تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب کیا، جبکہ میاں صاحب نے پکے سچے سندھی مسلم لیگی سیاسی رہنما محمد خان جونیجو جو جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاءکو ہٹا کر نیم جمہوری سول سیٹ اپ اب قائم کرنےمیں کامیاب ہوئےسے سیاسی دغا کرتے اور جنرل صاحب کا دم چھلا بنتے ہوئے وسیع تر اقتدار و اختیار کا سیاسی سفر شروع کیا تھا۔ ان کے تینوں ادوار کے اقدامات، پالیسیاں اور انداز حکمرانی نے خاصا واضح کیا اور بار بار کہا کہ جناب میاں نواز شریف کوئی سچے مسلم لیگی ویگی نہیں ہیں، تاہم پھر بھی قیام پاکستان کے بعد لیگ اوراسٹیبلشمنٹ کے جائز و ناجائز رشتے کو پکا اور سچا سمجھنے والوں نے یہ ہی دھوکا کھایا ۔
اسٹیبلشمنٹ کی اشیر باد سے میاں صاحب اور ان کی شریف فیملی پر آنے والے ناقابل حد تک ’’اچھے وقت ‘‘ نے ثابت کیا کہ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یہ وقت آیا اور گیا، اور پھر آیا۔ ہر بار یہ ہی ثابت ہوا کہ خود میاں صاحب اور شریف فیملی اقبال اور قائد کے تصور پاکستان سے کوسوں دور ہی نہیں بلکہ ان کا انداز حکمرانی اور سیاسی سوچ اور اپنے آپ کو لیڈر بنانے کا دولت پر انحصار نظریاتی پاکستان سے متصادم ہے۔
جب لاہور کے نواح رائے ونڈ میں شریف فیملی جیسے تیسے خریدے زرعی قطعات کو واہگہ سے اس پار اپنے بزرگوں کے گائوں سے منسوب کرتے ہوئے اپنی اس جاگیر کا نام ’’جاتی امرا‘‘ رکھ کر یہ اپنے محلات کی بنیاد رکھ رہے تھے تو فقیر نے ن لیگ کا حامی اور ووٹر ہونے کے باوجود اس پر ہونے والی عوامی تنقید میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے اپنے اس وقت کے کالم ’’زور قلم‘‘ (جنگ) بعنوان ’’ایک نئے لائف سٹائل کی تشکیل‘‘ میں انتباہ کیا تھا کہ یہ پاکستانی حکمرانوں کے مطلوب انداز زندگی سے متصادم ہے جو نا صرف حکام اور عوام میں خلیج پیدا کریگا اور حکمران طبقے میں یہ انداز اور کلچر اختیار کرنے کی حرص پیدا کرے گا۔ جس سے کرپشن کلچر بڑھے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا ملک میں شہروں کے نواح میں بڑی قومی اورعوامی ضرورت اور ہمارے قدرتی ماحول کا حسین و جمیل اثاثہ شہروں کو گھیرے سرسبز زرعی قطعات میں فارم ہائوسز کی وبا پھوٹ پڑی جس میں والڈ ہائوسنگ سوسائیٹز امڈ آئیں اور وزارت ہائوسنگ بے معنی ہو کر رہ گئی، جبکہ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفے کے ڈیڑھ دو سال بعد بڑی عوامی جماعت پی پی کی بنیاد رکھتے ہوئے روٹی اور کپڑے کے ساتھ گھر کا نعرہ بھی لگایا تھا۔ اور عوام بھٹو کے ایسے قریب ہوئے ان کے گلے کا تعویز بن گئے، قطع نظر اس کے کہ بھٹو مرحوم نے اقتدار میں آ کراس منشور کو ترجیح میں کیا جگہ دی۔
پی پی کے اقتدار میں آ کر انتہا کا غیر جمہوری انداز حکمرانی ، اپوزیشن کو کچلنے کے لئے ہر حربہ کااستعمال اور قومی معیشت کو ڈیزاسٹر میں تبدیل اب پی پی کے کئی قابل رشک اسباق کے ساتھ اس کی تاریخ کا حصہ ہے، کروڑوں عوام کی دھڑکن ذوالفقار علی بھٹو کا آخری سیاسی انجام، ان کی مقبولیت ، عوامی انداز اور اعلیٰ سیاسی صلاحیتوں سے متصادم ہوا، جو بے شک ہمارا تاریخی قومی المیہ ہے کہ جو لیڈر ملک کو بہت کچھ دے سکتا تھا (دیا بھی) وہ اپنے ذاتی مسائل کے باعث الٹ سمت میں چلتا چلتا تختہ دار پر پہنچ گیا۔
اپنی ذات میں خاندان کے گنبد میں بند ہو کر تین مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے والے جناب نواز شریف بھی اتنا بڑا اور بار بار یہ رتبہ حاصل کر کے بالآخر ایک حد تک مقبول عوامی رہنما بننے میں کامیاب ہو بھی گئے لیکن وہ یہ سب کچھ ہو کر نہ نظریاتی ہوئے نہ عوامی، ان کا عوامی ہونا عوام کی حمایت تک ہوا خود میاں صاحب ، بہت سازگار حالات کے باوجود عوام کی حالت زار پر کوئی توجہ نہ دے سکے۔ ان کا ترقیاتی ایجنڈا اور بینی فشریز کا دائرہ ان کی اپنی سیاسی اور متنازعہ ذاتی مفادات تک ہی محدود رہا، پھر وہ اپنے ہر اقتدار میں عوام سے تو کیا، اپنے مکمل وفاشعار منتخب عوامی نمائندوں سے بھی دور ہو جاتے۔
قدرت کا اپنا نظام ہے اور آج کے حکمرانوں کا عوام کو انصاف اور ان کی دیانت دارانہ خدمت سے ماوراء اور سب سے بڑھ کر ریاستی آئین سے متصادم، لیکن ایسے حکمرانوں سے چھٹکارے کا قدرت یوں اہتمام کرتی ہے کہ یہ اپنے اقتدار واختیار کے عروج پر آ بیل مجھے مار کے مصداق، پے درپے ایسے اقدامات کئے جاتے ہیں، تکبر میں ایسا ابلاغ کرتے ہیں کہ انکے مخالفین اپنے کئےکے مقابل ہیچ ہوجاتے اور ان کا اپنا ہی کیا ان کا باعث زوال بن جاتا ہے۔ یوں ہماری سیاسی تاریخ کے دونوں اہم چیپٹرز ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف میں شخصی اور انداز حکمرانی کے حوالے سے بھی کوئی مماثلت نہیں، لیکن دوران سیاسی عروج، آ بیل مجھے مار ان کی مشترکہ قدر بن گئی۔ فقیر ، سیاست و صحافت کے طالب علم اور تازہ باتازہ اخباری رپورٹر کے طور بھٹو عہد کا عینی شاہد ان کے دسیوں حکومتی اقدامات اور ابلاغ آ بیل مجھے مار کے زمرے میں آتے ہیں ، جنہوں نے بھٹو کے خلاف منظم اور سخت گیراپوزیشن سے زیادہ بھٹو صاحب کو بطور لیڈر اور ان کی جماعت کو بطور عوامی جماعت زمین سے لگا دیا۔ ایسے اقدامات کی طویل فہرست ہے، لیکن شیڈول سے قبل ان کے چند ماہ پہلے انتخابات کا اعلان کرنے پر اپوزیشن کے متحدہ انتخابی اتحاد سے خائف ہو کر ملک گیر سطح پر انتخابی دھاندلیوں کا منصوبہ اور اس پر مکمل عملدرآمد
یقیناً بیل کوخود کو ٹکر مارنے کی ایسی دعوت تھی کہ ووٹ بینک بیل کی طاقت سے زیادہ ہونے کے باوجود وہ لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے مارشل لاء کے نفاذ کا سبب بنتے ایک المناک جانب انجام میں دو چار ہو گئے، حالانکہ اگر وہ یہ فسطائی اقدام نہ کرتے تب بھی وہ( محتاط اندازے کے مطابق) مختلف نظریات کی حامل اپوزیشن جماعتوں کے غیر فطری اتحاد سے فیئر الیکشن میں بھی سادہ اکثریت سے جیت جاتے انتقال سے کوئی دو اڑھائی سال قبل پی پی کے پر زور حامی منجھے ہوئے جناب عباس اطہر نے ایک مرتبہ مجھے اپنے اخبار کے دفتر میں خصوصاً بٹھا کر اپنے انداز میں کہا ۔ یار منصوری یہ تو مجھے معلوم ہے کہ تم ہمارے بڑے مہربان ہو لیکن یہ ہو کر بھی ایک بات بڑے یقین سے کبھی کبھی لکھتے ہوکہ اگر پی پی 77میں انتخابی دھاندلی نہ کرتی تو بھی وہ پاکستان نیشنل الائینس کی ہائی ٹمپو انتخابی مہم کے باوجود اکثریت سے انتخاب جیت جاتی، تمہارے پاس اس کی کیا شہادت ہے۔ میں نے بتایا کہ مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد جب بھٹو صاحب مری کی نظر بندی سے رہا ہو کر لاہور پہنچے تو میں نے شہر کی سڑکوں پر کچی اور دوسری غریب آبادیوں سے جیالے ووٹروں کے جو ہجوم لاہور کی سڑکوں پر امڈتے دیکھے میرے ذہن میں سمائے یہ مناظر میری سب سے بڑی شہادت ہے۔ شاہ صاحب نے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر چند لمحے خاموشی اختیار کر کے چائے منگائی پھر اس موضوع پر طویل بات ہوئی۔ آج نواز حکومت نے ختم نبوتؐ سے متعلق حلف کی آئینی شق سے چونکا دینے والی چھیڑ چھاڑ کرکے پورے ملک خصوصاً جی ٹی روڈ کے اپنے جس سانڈ کو خود ہی ٹکر مارنے پر مجبور کیا ہے، وہ نظریے سے عاری ہوتی ن لیگ کو آنے والی سیاست میں بہت مہنگا پڑیگا۔

تازہ ترین