• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ایک بار پھر ہم یعنی آپ اور میں وہی کام کرنے جارہے ہیں جس کام کو کرنے کی ہمارے بڑے بوڑھوں، ہمارے بزرگوں، ہمارے دانشمندوں اور ہمارے عقلمندوں نے سختی سے ممانعت کی ہوئی ہے۔ احترام سے ان کی تنبیہہ کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ہم یعنی آپ ، میں اور سوچیں گے ۔ باز نہیں آئیں گے ۔ ان کی بات نہیں مانیں گے ۔
صرف ہم انسانوں کے نہیں، بلکہ ہر شے کے دو وجود ہوتے ہیں۔ ایک ظاہر اور ایک باطن ۔ کپڑے لتے ، جوتے ، کراکری،کاسمیٹک، چاکلیٹ، ٹافیاں، بسکٹ، بجلی سے چلنے والی اشیا، کھانے پینے کی چیزیں اور مسالاجات بنانے والے بڑے بڑے ادارے اپنی تمام تر توجہ پیکنگ پر دیتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ خریدار اشیا کی پیکنگ سے متاثر ہوتے ہیں۔ اور یہ بات زیادہ غلط بھی نہیں ہے۔ اشیا کی پیکنگ سے متاثر ہوکر ہم ملاوٹی مسالحے اور دونمبر چیزیں خریدتے اور استعمال کرتے ہیں۔ پیکنگ کی چمک دمک سے متاثر ہوکر عام طور پر باطن یعنی اشیا کی طرف توجہ نہیں دیتے ۔ گھٹیا اور دونمبر چیزیں استعمال کرتے ہوئے ، ہم جب بیمار پڑ جاتے ہیں تب جاکر پتہ چلتا ہے کہ ظاہر یعنی پیکنگ سے متاثر ہوکر پیکنگ کے اندر اشیا کو اعلیٰ کوالٹی کاجان کر ہم اس وقت تک استعمال کرتے ہیں جب تک ہم بیمار نہیں پڑتے۔
کنسٹرکشن کاکاروبار تیزی سے پاکستان میں پھیلتا جارہا ہے Real Estateاملاک کا کاروبار کرنے والے عام طور پر دوطرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو مکان اور فلیٹ بناکر بیچتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو پلاٹ بیچتے ہیں۔ دونوں طرح کے کاروباری ادارے خریداروں کو متوجہ کرنے کے لئے ٹیلی وژن چینلز پر گرافک ڈیزائنرز سے دیدہ زیب فلیٹ اور مکانوں کی ویڈیوز بناکر، پروگراموں کے درمیان صبح سے رات گئے تک بار بار دکھاتے ہیں۔ پلاٹ بیچنے والے کمپیوٹر کی مدد سے کالونیاں بناکر دکھاتے ہیں جن میں بڑی چہل پہل ہوتی ہے۔ دنیا بھر کی رونقیں ہوتی ہیں۔ اصل جائے وقوع پر جاکر دیکھیں تو ویرانی اور جنگل کے سوا، وہاں کچھ نہیں ہوتا ۔ ٹیلی وژن اشتہار ایسے اداروں کا ظاہر ہوتا ہے جس سے آپ متاثر ہوتے ہیں۔ اور جائے وقوعLocationان اداروں کا باطن ہوتا ہے۔ بنے بنائے فلیٹ اور مکانوں کی ویڈیو فلمیں آپ کو بہت متاثر کرتی ہیں۔ فرنشڈبیڈ رومز، ٹوائلٹ ، کچن وغیرہ کی آرائش دیکھ کر آپ دنگ رہ جاتے ہیں۔ لوکیشن پر جاکر دیکھتے ہیں تو وہاں پر بھی آپ کو دلفریب فلیٹ اور مکان دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے ادارے اپنے ظاہر کو دلکش بنانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ مگر ایسے اداروں کا باطن آپ سے اوجھل رہتا ہے۔ آپ نہیں جانتے کہ مکان اور فلیٹ بنانے کے لئے کس کوالٹی کا میٹریل استعمال کیاگیا ہے آپ ظاہر ی دلکشی سے متاثر ہوکر مکان یا فلیٹ خرید لیتے ہیں۔ باطن کی کمتری اور نقائص کا پتہ آپ کو تب چلتا ہے جب آپ ایسے مکان میں رہنے لگتے ہیں۔ بیرونی اور اندرونی رنگ مدہم پڑ جاتے ہیں۔ دیواروں کا پلستر چٹخنے لگتا ہے۔ باتھ روم ٹپکنے لگتے ہیں۔ درودیوار کو دیمک چاٹنے لگتی ہے۔ فرش کے ٹائل اکھڑجاتے ہیں۔
ہمارے بلوچستان کے پہاڑوں کے بھدے ظاہر نے صدیوں تک کسی کو مالا مال باطن کا پتہ چلنے نہیں دیا ۔ خشک ، بدرنگ، سبزہ پوشی سے محروم ایسے سیاہی مائل پہاڑ کسی کو اپنی طرف نہیں کھینچتے ۔ اس صدی کے اوائل میں جب مہم جو ممالک کو بلوچستان کے ظاہری طور پر بے رونق اوردلکشی سے محروم پہاڑوں کے باطنی حسن یعنی خزانوں کا علم ہو،ا تب ان کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ نیتیں چکا چوند ہوگئیں۔ اس وقت بلوچستان میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ سب کچھ ڈرائونے ظاہر کے خوبصورت باطن میں پوشیدہ خزانوں کے حصول کے لئے ہورہا ہے۔
ہم انسانوں کے بھی دووجود ہوتے ہیں۔ ایک ظاہر اور دوسرا باطن ۔ شناسائی،پہچان، دوستی، دشمنی،نفرت ، محبت ظاہر سے ہوتی ہے۔ ہم خود بھی اپنے ظاہر کے مفتون ہوجاتے ہیں۔ اگر خاتون ہیں تو ہماری زندگی کا اچھا خاصا عرصہ بیوٹی پارلروں میں آتے جاتے گزر جاتا ہے۔وجیہہ نظر آنے کے لئےمرد کیا کچھ نہیں کرتے ۔ اپنی اپنی بساط کے مطابق اچھے سے اچھا لباس پہنتے ہیں۔ اچھے اور نفیس جوتے خریدتے ہیں۔ چہرے پر وقفے وقفے سے نت نئے فیشن کی داڑھی سجاتے ہیں۔ کبھی کلین شیو ہوجاتے ہیں۔ اگر گنجے ہیں تو پھر سر پر بالوں کی پیوندکاری کروادیتے ہیں۔ مرد ہوں یا خواتین سب اپنے آپ پر فریفتہ ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ اپنے ظاہر کوبنانے سنوارنے میں گزرتا ہے۔ مرد اور خواتین کا یہ عمل بلاوجہ نہیں ہے۔ ہم جس ملک اور معاشرے میں رہتے ہیں، اس ملک اور معاشرے کے لوگ ہمارے ظاہر کو دیکھتے ہیں۔ ہمارے باطن کونہیں دیکھتے ۔ اس روئیے کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ دوسرے لوگ نہیں۔ ہمارے دو وجود، ایک ظاہری اور دوسرے باطنی وجود کے درمیاں، ہم اپنے ظاہری وجود کو اہمیت دیتے ہیں۔ ہم اپنے باطنی وجود کوبھلا دیتے ہیں۔ ہم یہ تک بھلا دیتے ہیں کہ ہمارا ظاہری وجود سراسر فنا ہے۔ ہماری موت اصل میں ہمارے ظاہری وجود کا فنا ہونا ہوتا ہے۔ مگر ہمارا باطن فنا ہونے سے مستثنیٰ ہوتا ہے۔ ہمارا باطن ہماری روح کا جزو ہوتا ہے۔ ہماری موت واقع ہونے کے بعد ہمارا باطن ہماری روح کے ہمراہ ہمارے ظاہری وجود سے نکل جاتا ہے۔ باطن کے الگ ہوجانے کے بعد ہمارے ظاہری وجود کی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ ہمارے اپنے پیارے اپنی اپنی روایتوں کے مطابق ہمارے ظاہر کو لیجا کر قبرستان میں سپرد خاک کردیتے ہیں۔ یا پھر شمشان گھاٹ لے جاتے ہیں اور جلا دیتے ہیں۔ یا پھر خاموشی کے کنوئیںTower of silenceپر چھوڑ آتے ہیں۔ ظاہر کے مقابلے میں ہم جب باطن کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں تب ہم مرنے کے بعد ایک مطمئن باطن اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ اور جب ہم تمام تر توجہ ظاہر کودیتےہیں،وجیہہ خوبصورت، طاقتور، دولتمند، برسراقتدار آنے کی خواہشوں کے اسیر بن جاتے ہیں تب ہم اپنے باطن کو بھلا دیتے ہیں۔ ہمیں پتہ تک نہیں چلتا کہ کب ہمارا اپنا باطن ٹوٹتا ہے، بکھرتا ہے اور ایک وشال ویرانے میں بدل جاتا ہے۔ میں آپ کو دنیا چھوڑ چھاڑ کر ویرانے بسانے کا درس نہیں دے رہا۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں۔ بظاہر آپ کتنا ہی نفیس لباس زیب تن کریں، اگر آپ کے Under garments موزے، بنیان، وغیرہ میلے کچیلے اور بدبودار ہیں، آپ کبھی بھی اپنے آپ کو مطمئن محسوس نہیں کرسکتے۔

تازہ ترین