• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند ماہ پیشتر میں نے ’’جنگ‘‘ کے انہی صفحات پر لکھا تھاکہ دنیا تیسری عالمی جنگ کے کنارے پر ہے۔اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اس جنگ کا آغاز کسی وقت بھی ہو سکتا ہے۔ شایداس جنگ سے پہلے اسرائیل اور امریکہ ایک حکمت عملی کے تحت بھارت سے پاکستان پر حملہ کروائیں، مسلمانوں کے ایک اہم ملک کی اعلیٰ ترین تربیت یافتہ فوج کو جنگ میں دھکیل دیا جائے تاکہ یہ فوج عربوں کی مدد نہ کرسکے۔پاکستان اور بھارت کے مابین میچ تو شاید پہلے شروع ہو جائے مگر تیسری عالمی جنگ کے امکانات اگلے تین مہینوں کے اندر ہیں۔خطہ عرب کے سینے میں گھڑا ہوا خنجر اس کیلئے بے چین ہے۔ اس خنجر میں بسنے والوں کے بارے میں ہٹلر نے جو کہا تھا وہ درست ثابت ہوا، آج دنیا سوچ رہی ہے کہ ہٹلر نے تھوڑے سے صہیونی کیوں چھوڑ دیئے تھے۔جس تیسری عالمی جنگ کے امکانات ہیں اس پر بات کرنے سےپہلے ہمیں پچھلی دو عالمی جنگوں کے نتائج پر غور کرنا ہوگا۔پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر ایک سازش کے تحت مسلمان دنیا کے تین ممالک میں اہم تبدیلیاں کی گئیں۔افسوس کہ مسلمان ہی سازشوں کا حصہ بنے۔ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے ذریعے ترکوں سے اسلامی روح نکالنے کی بھرپور کوشش کی گئی،کمال اتاترک کے عہد میں ترکوں کیلئے نماز پڑھنا بھی مشکل ہو گیا تھا، نماز کیلئے جو ٹوپی پہنی جاتی ہے وہ پہننا جرم بن گیا تھا، عورتوں کیلئے مغربی ملبوسات کی تو اجازت تھی مگر حجاب کی ممانعت تھی۔ ایران میں رضا شاہ پہلوی کے والد رضا خان کے ذریعے یہ کام کروائے گئے۔ خطہ حجاز مقدس کو اور علاقوں کے ساتھ آل ِ سعود کے نام پر سعودی عرب بنا دیا گیا، یہاں بھی بادشاہت قائم کر دی گئی یہ تو پہلی جنگ عظیم کے نتائج تھے پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد سازشوں کو پروان چڑھانے کیلئے اقوام متحدہ نام کی تنظیم بنائی گئی، اس تنظیم کے ذریعے چار ملکوں کی زبان پوری دنیا پر مسلط کر دی گئی، انگلستان، امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے علاوہ باقی ملکوں کی زبانیں انگریزی کی بجائے اور ہیں،دنیا کو اپنی زبان کی قید میں رکھنا بھی ایک سازش سے کم نہیں۔اقوام متحدہ کا سارا کھیل اسلامی دنیا کے خلاف رہا۔
1947ء میں جب برصغیر کی تقسیم ہوئی جب دریائوں کا پانی مسلمانوں کے خون سے سرخ ہوا تو اقوام متحدہ چپ رہی۔جب کشمیر پر ناجائز قبضہ ہوا تو یہ عالمی ادارہ خاموش رہا بلکہ اس کی بے ثمر قراردادوں کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک کشمیر میں ظلم و جبر جاری ہے، یہاں بھی مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے ۔مظلوم کشمیریوں کی آنکھیں ترس رہی ہیں کہ کب اقوام عا لم کا ضمیر جاگے گا، کب اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل ہوگا؟
65ءکی جنگ میں بھارت سے جو علاقے پاکستان نے چھینے تھے ان علاقوں کو تو واپس کروا دیا جاتا ہے مگر جب مکتی باہنی کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں کارروائی ہوتی ہے تو عالمی ادارہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتا ہے۔یہ کیسی اقوام متحدہ ہے جہاں ویٹو پاورز رکھنے والوں میں کوئی بھی مسلمان ملک شامل نہیں۔ساٹھ کی دہائی کے آخری سالوں میں جب ناجائز صہیونی ریاست کیخلاف عرب جدوجہد کر رہے تھے تو عالمی ادارہ ایک ناجائز صہیونی ریاست کے حق میں تھا، امن مشن کے نام پر جنگی لحاظ سے ایک اہم پہاڑی اسرائیل کے حوالے کر دی گئی، لبنان، اردن اور فلسطین کے مسلمانوں کا خون دھرتی کو سیراب کرتا رہا، یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، آج بھی فلسطینی بچے اپنے ہی وطن میں ظلم کا شکار ہیں، آج بھی فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔
80ء کی دہائی میں امریکیوں نے روس کو شکست دینے کی محبت میں افغانستان کو میدان جنگ بنایا۔شہید ہوئے تو مسلمان، ہجرت کی تو مسلمانوں نے، امریکہ بہادر خوش رہا، افغان جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوئے۔یہ جنگ جب لڑی جا ررہی تھی تو پاکستان پر اس شخص کی حکومت تھی جو ساٹھ کی دہائی کے آخر میں امن مشن کے تحت خطہ عرب میں فرائض انجام دے چکا تھا، اس کی پرانی ’’خدمات‘‘ یاد گار تھیں، نئی خدمات بھی کمال تھیں اس دوران ایران میں اسلامی انقلاب آ گیا، ایران امریکی غلامی سے نکل گیا، امریکہ کا غلام شاہ ایران رضا شاہ پہلوی بھاگ گیا، تہران میں اسرائیلی سفارتخانے کو فلسطین کے حوالے کر دیا گیا، امریکی سفارتکار پہلے قید کئے گئے پھر چھوڑ دیئے گئے۔اسلامی انقلاب کی یہ باتیں صہیونی طاقتوں کو پسند نہ آئیں تو امریکیوں نے عراق، ایران جنگ شروع کروا دی، ایران پر جنگ مسلط کر دی گئی ایران پر اقتصادی پابندیاں بھی لگا دی گئیں۔ان تمام تر سختیوں کے باوجود ایران امریکی غلامی سے باہر رہا، اب بھی باہر ہے اور باہر ہی رہے گا۔
بوسنیا میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی، عالمی برادری تماشا دیکھتی رہی،مسلمان عورتوں ، بچوں، بزرگوں پر ظلم ہوتا رہا ۔بقول انور مسعود
اتنے بھی سفاک منافق کب دنیا نے دیکھے تھے
کتوں کا منہ چومنے والے قتل کریں انسانوں کو
حال ہی میں برما میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی مگر اقوام متحدہ ایک مرتبہ پھر خاموش تماشائی بنی رہی ۔آپ کے سامنے ہے کہ عراق اور کویت کی جنگ کس نے اپنے مفادات کیلئے شروع کروائی،آج عراق کس کی وجہ سے تباہ ہوا ہے، لبنان، شام، یمن، اردن، فلسطین قصہ مختصر سوائے ایک دو کے تمام عرب مسلمان ملک تباہ ہو چکے ہیں۔مسلمان ملکوں میں ایک مسلمان ملک کی مدد سے دہشت گردی کا جال بچھایا گیا ان دہشت گردوں کے باعث مسلمان ملکوں کا امن تباہ ہوا، مسلمان ملکوں کی عمارتیں تباہ ہوئیں، مسلمانوں کی نسل کشی ہوئی، سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی یہ لہر یورپ میں کیوں نہیں چلتی، کسی غیر مسلم ملک میں کیوں نہیں چلتی؟ اقوام متحدہ اس دہشت گردی پر کیوں خاموش ہے ؟مغربی ملکوں کو جمہوریت بہت یاد آتی ہے مگر امریکہ کے حامی ملکوں میں بادشاہتوں پر مغربی دنیا خاموش رہتی ہے۔
اس وقت سعودی عرب میں بادشاہت ہچکولے کھا رہی ہے، ترکی سازشیں بے نقاب ہونے کے بعد امریکیوں سے دور ہو چکا ہے، پاکستان کے دشمن بھارت کو امریکی اشیرباد مل چکی ہے لہٰذا پاکستان کے بھی دوسرے بلاک سے روابط زیادہ ہو چکے ہیں، حالات امریکیوں کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں، اس کا آخری سہارا صہیونی اسرائیل ہے، ناجائز ریاست کے بعد اب اس کے ناجائز دارالحکومت کو امریکہ نے تسلیم کر لیا ہے، جسے عرب لیگ نے مسترد کر دیا ہے، اسلامی دنیا اسے مسترد کرے گی، یہیں سے تیسری عالمی جنگ کی ابتدا ہو گی، یروشلم کو دارالحکومت بنا کر صہیونی قوتوں نے اعلان جنگ کر دیا ہے، اب چنگاری کسی وقت بھی آگ پھیلا سکتی ہے، اقوام متحدہ اب بھی خاموش ہے، اقوام متحدہ نے آج تک ایسا ہی کردار ادا کیا ہے، اس کا تمام تر کردار امریکی پالیسیوں کو جاری رکھنے کیلئے رہا ہے، تیسری عالمی جنگ مسلمانوں کی سمت بھی درست کر دے گی اور مسلمانوں کی قیادت ایران یا پاکستان کریں گے ،زیادہ امکان پاکستان کا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس طاقتور فوج کے علاوہ ایٹمی صلاحیت بھی ہے ۔سعید واثق کا شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎
خیال و خواب کی دنیا کو چھوڑ کر واثق
اب اپنے آپ کو یکسر بدل کے دیکھنا ہے

تازہ ترین