• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے آقا ومولا نبی رحمت سروردوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما بن کر تشریف لائے آپ کی تشریف آوری عالمین کے لئے رحمت کا باعث ہے۔ مسلمانان عالم جہاں جہاں بھی ہوں وہ اپنے آقا و مولا کی آمد کی خوشی میں میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں بجا طور پر محافل کا انعقاد کرتے ہیں اور اس سے قلبی راحت و سکون حاصل کرتے ہیں۔ ربیع الاول ہی میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا لیکن اسلام میں سوگواری کی کیفیت محدود عرصے کے لئے ہے لیکن میرے آقاﷺ کی اس جہان میں جلوہ گری کی خوشیاں ہمیشہ جاری رہیں گی، ایک محدود اقلیت مسلمانوں میں ایسی بھی ہے جو کہتے ہیں کہ ان تقریبات کو میلادالنبیﷺ کا نام نہ دیں لیکن وہ لوگ بھی ’’سیرت النبیﷺ‘‘ کے عنوان سے اجتماعات کرتے ہیں اصل مقصد تو میرے آقا و مولاﷺ کا پیغام محبت عام کرنا ہے، خواہ اس کے لئے عنوان کوئی بھی ہو ذکر سرکاردوعالمﷺ ہونا چاہئے یہ کہنا ہی فضول بات ہے کہ صحابہ کرامؓ نے میلادالنبیﷺ منایا تھا تو کیا صحابہ کرامؓ نے دارالعلوم کا صد سالہ جشن منایا تھا؟ کیا حضرت عمر ؓنے خلافت سنبھالنے کے بعد ’’حضرت ابوبکرؓ کانفرنس‘‘منعقد کی تھی۔ وہ قربانیاں دینے کا دور تھا، وہ عملی جدوجہد کے لوگ تھے، وہ صاحبان ’’حال‘‘ تھے، اب ’’قال‘‘ والے لوگ ہیںاوربھی ’’خال خال‘‘ ہیں،لوگ اسلام سے دن بدن دور ہورہے ہیں تو بھی کسی طرح، کسی بہانے، کسی بھی طریقے ،کسی بھی حکمت عملی سےانہیں اسلام کے قریب لائو اور میلادالنبیﷺ کے عنوان سے خوبصورت دل آفریں اور باعث راحت قلب و نظر اور کوئی عنوان کیا ہوسکتا ہے؟؟ ’’تکفیری‘‘ نکتہ نظر تو ہم نے دیکھ لیا، یعنی دوسروں کو ’’کافر کافر‘‘ کہنا اپنے علاوہ باقی تمام مسلمانوں پر کفروشرک لگانے والوں کو آج دنیا دہشت گرد کہتی ہے، پہلےدوسرے کہتے تھے، اب یہ پودا جہاں پروان چڑھا تھا اور جس انتہا پسندانہ اور گستاخانہ نظریے نے اس کی آبیاری کی تھی اس نظرئیے کی محافظ مملکت بھی اب انہیں دہشت گرد قرار دے رہی ہے، ایک موزی جانور کے متعلق کہتے ہیں کہ جب اس کے پائوں تپتی ہوئی سنگلاخ زمین کی تپش سے جلنے لگتے ہیں تو وہ اپنے بچے بھی اپنے پائوں کے نیچے ڈال دیتا ہے۔ یہی کچھ ’’تکفیری‘‘لوگوں کے ساتھ ’’تکفیری‘‘ اور ’’خارجی‘‘ سرپرستوں کی طرف سے ہورہا ہے۔ آپ کبھی ایسے لوگوں کے اجتماعات میں ان کی نفرت آمیز گفتگو سنیں تو زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتے یا تو نفرت آمیز لہجے میں بولنے والے کی زبان روکنے کو جی چاہتا ہے یا جو اس مقرر کے خیالات سے ہم آہنگ ہوتے ہیں ان کا دل اپنے مخالفین کا گلا دبانے کے لئے بے قرار رہتا ہے لیکن اس کے برعکس آپ کسی محفل میلاد شریف میں چلے جائیں تو ہر طرف درودوسلام کی سہانی صدائیں سنائی دیتی ہیں، واعظین اور مقررین سید الوجود صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت باسعادت کے تذکرےاس حسین اور دلکش انداز میں کرتے ہیں کہ ہماری روح سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہ کے نورانی حجرہ کے اردگرد تصورات کی دنیامیں چکر لگاتی رہتی ہے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر کی دہلیز پر نورانی پھوار محسوس کرتی ہے، جسم اور روح کا تعلق سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی طور پر قائم ہوجاتا ہے اگر کوئی چشم بینا رکھتا ہو تو وہ دیکھے گا کہ میلاد النبیﷺ کی ان بابرکت محافل میں نور کی برسات ہورہی ہوتی ہے۔ اقبال نے کہا تھا
دل بینا بھی کرخدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
البتہ ایسی محافل کی اصلاح کی بے حد ضرورت ہے جہاں اس مقدس عنوان کی نزاکتوں اور آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا حالانکہ یہ اس قدر ضروری اور اہم ہے کہ اگر اس کو نظرانداز کردیا جائے تو ان پاکیزہ اور مقدس محافل کا بنیادی مقصد ہی فوت ہوجائے، بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے کہ ادب و احترام کے تمام تقاضے پورے کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے ورنہ زندگی بھر کے تمام اعمال حبط اور ضبط ہونے کا احتمال رہتا ہے کیونکہ یہ معاملہ بہت ہی سنجیدہ اور نازک تر ہے۔
ادب گاہیست زیرآسماں ازعرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزیدایں جا
محافل میلاد میں پہلے مسجد کے امام و خطیب صاحب ہی اپنے مہمان نعت خوانوں اور مقررین حضرات کو دعوت کلام و خطاب دیتے تھے لیکن اب اس کام کے لئے امامت و خطابت اور علمی وجاہت سے کوسوں دور ایسے ایسے پیشہ ور لوگوں کو فیس ادا کرکے ان کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جو محافل میلاد میں اپنے مخصوص سٹائل میں نعت خوانوں اور مقررین کو بلاتے ہیں، ایسے لوگ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اس کام کے لئے چُنے جاتےہیں ان کی گفتگو میں الفاظ کی روانی تو ہوتی ہے لیکن روح کی تازگی کا کوئی سامان نہیں ہوتا جب سٹیج سیکرٹری اپنے حلیے سے ہی سنت نبویﷺ کا تارک ہوگا اور نہ ہی وہ سنت نبویﷺ پر عمل پیرا ہونے کا درس دے گا تو وہ کون سے عشق کا درس دے رہا ہوگا؟ ایسے لوگ الفاظ سے تو کھیل سکتے ہیں لیکن قلوب و اذہان کو بالیدگی اور تازگی، حلاوت اور ایمان نہیں دے سکتے۔ایک اور فتنہ جو ہمارے دور میں کینسر کی طرح پھیل رہا ہے وہ تصوف کے نام پر جعلی لوگوں کا گروہ ہے جو مسلمانوں کو صحیح عقائد اور اعمال سے روگردانی کا پیغام دے رہا ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر خودرو پودوں کی طرح اُگنے والے یہ جھوٹے لوگ جو اپنے آپ کو نجانے کن کن القابات سے مزین کرتے رہتے ہیں جو نہ صرف شہرت اور جاہ طلبی کی ہوس رکھتے ہیں بلکہ اپنے چاہنے والوں یا صحیح الفاظ میں اپنے دام تزویر میں پھنسنے والوں سے یہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ صبح و شام ان کے قصیدے پڑھے اور ان کی تعریف کریں جو واعظین اور سٹیج سیکرٹری حضرات ایسے پیشہ ور لوگوں کی کرامات اور ان کے روحانی مقامات کی ’’مارکیٹنگ‘‘ کرتے رہتے ہیں ان کو کافی وزنی ’’لفافے‘‘ دیئے جاتے ہیں۔ یہ تو حشر کے دن ہی معلوم ہوگا کہ ان بھاری لفافوں کو میزان کے کس پلڑے میں رکھا جائے گا۔
اب تو آرام سے گزرتی ہے
آخرت کی خبر خدا جانے
آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد پاک کے نام پر محافل کو امت کی اصلاح کا ذریعہ بنائو! اےوارثان منبرومحراب، اے میرے آقا کے نام پر میلاد منانے والو! جشن آمد رسول کے خوبصورت عنوان سے محافل سجانے والو،کیاآپ نےکبھی یہ سوچا کہ چند ٹکوں کے مفادات کی خاطر آپ امت کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ ایک شخص کو تخت شاہی کی طرح بلند مسند پر بٹھا کر اس کو محفل کا مرکز بنالیتے ہو اور اسے محفل میلاد کا پاکیزہ نام دیتے ہو؟ گانوں کی طرز پر نعتیں پڑھ کر لوگوں کو جھومنے کے لئے کہتے ہو اور سمجھتے ہو کہ عشق رسول کا پیغام پہنچا رہے ہو۔ زیادہ دولت نچھاور کرنے والوں کو سٹیج پر اپنے ساتھ بٹھاتے ہو اور عوام الناس کو نعرے لگانے کی ذمہ داری دی ہوئی ہے اور سمجھتے ہو کہ محمد عربیﷺ کا پیغام عدل و مساوات دے رہے ہو؟ علماء کو دس منٹ بھی مشکل سے دیتے ہو اور فلمی طرز پر پڑھنے والوں کے لئے بے حساب وقت ہے! یہ کیا ہے؟ کب تک ایسا چلے گا! اور وہ بھی میلاد پاک کے پاکیزہ عنوان پر؟؟۔

تازہ ترین