• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رحمت اللعالمینﷺ کے ساتھ ’’قریش مکہ‘‘ کی بدسلوکیاں تحریر: قاری عبدالرشید، اولڈہم

سورۃ مدثر پارہ 29کی ابتدائی آیات پر غور کریں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے مقاصد اور رسالت کی ذمے داریاں یہ معلوم ہوتی ہیں (1) نافرمانوں کو ان کی خطرناک حالت سے آ گاہ کرنا اور انجام سے ڈرانا (2) اللہ کی ربوبیت اور کبریائی اور عظمت کو آشکار کرنا (3) لوگوں کو اعتقاد اور اعمال اور اخلاق کی ظاہری و باطنی نجاستوں سے پاک رہنے کی تعلیم دینا (4) پاکیزگی، صفائی اور پاکدامنی سکھانا (5) الٰہی تعلیم مفت دینا، نہ ان پر احسان جتانا، نہ ان سے اپنے کسی فائدے کی توقع رکھنا (6)اس کام میں جس قدر بھی مصائب اور تکالیف آئیں سب کو برداشت کرنا۔ جو شخص بھی سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر غور کرے گا اسے معلوم ہوگا کہ آپﷺ نے کس خوبی سے ان سب مقاصد کو پورا کیا، لیکن کیسے پورا کیا؟ یہ ہے اہم سوال، جس پر آج کے کالم میں روشنی ڈالی جائے گی اور حضورﷺ کے ساتھ نبوت و رسالت کی ذمے داریاں ادا کرنے پر ’قریش مکہ‘ کا سلوک کیا تھا؟ قریش مکہ کے عقائد و اعمال اور اخلاق پر جب تک ایک نظر نہ ڈال لی جائے تب تک ان کے ’برے سلوک‘ کی وجہ بھی سمجھ میں جلدی نہیں آتی تو آئیں کچھ ’قریش مکہ‘ کے حالات بھی پڑھ لیں تاکہ بات سمجھ میں بآسانی آجائے۔ مغرور قریش کو جو عرب میں اپنے آپ کو سب سے بڑا سمجھتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پروگرام اور پیغام پسند نہ آیا اس کی وجوہات یہ تھیں۔ (1) وہ نبوت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر تھے اور بعید سمجھتے تھے کہ خدا کے حکم سے کوئی (بشر) انسان (بشروں) انسانوں کو سمجھانے کے لئے آئے۔ (2)وہ جزاء و سزائے اعمال کے قائل نہ تھے، اسلئے یہ تعلیم کہ موت کے بعد اعمال کا جواب بھی ہوگا ان کے نزدیک قابل تمسخر تھی۔ (3) وہ خاندان اور شرافت بزرگان پر نہایت مغرور تھےاور انہیں اسلامی مساوات اور اسلامی اخوت کا قبول کرنا ایک قسم کی حقارت اور ذلت محسوس ہوتی تھی۔ (4) ان میں اکثر قبائل بنو ہاشم سے مخالفت رکھتے تھے اور دشمن قبیلے کے ایک شخص کی تعلیم پر چلنا انہیں عار محسوس ہوتا تھا۔ (5) وہ بت پرستی پر بالکل قانع تھے اور اس سے برتر کسی مذہب میں کسی خوبی کا امکان بھی ان کے تصور میں نہ آتا تھا۔ (6) وہ زنا، جوا، راہ زنی، قتل، عہد شکنی، آوارگی، ہر ایک قانون و وعدہ کی بندش وقیود سے آزاد رہنے، بے شمار عورتوں کو گھروں میں ڈال رکھنے کے عادی تھے، اور تعلیمات محمدیہؐ اور قوانین اسلامیہ ان کو اپنی پیاری عادات کے دشمن معلوم ہونے لگے۔ اس لئے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت پر کمر باندھ لی اور اسلام کا نام و نشان مٹا دینے کا فیصلہ کرلیا۔کیا ہی اچھا ہوکہ آج ہر اسلام کا نام لیوا مسلمان مذکورہ بالا چھ عادتوں کو بغور پڑھ لے اور اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس کی زندگی میں موجود ہے تو اس سے پہلی ہی فرصت میں توبہ کرکے خود کو مومنین صالحین میں شامل کرلے۔ حضورﷺ کی بعثت ایسے ملک میں ہوئی کہ جہاں صدیوں سے نہ کسی بادشاہ کا تسلط تھا نہ کوئی اثر قانون نے ڈالا تھا، نہ کوئی ہادی ان کی ہدایت کے لئے پہنچا تھا، اس حیوانی آزادی (انسانی آزادی وہ ہے جو مذہب و قانون کی پابندی کے تحت ہر شخص کو حاصل ہے اور حیوانی آزادی وہ ہے جو مذہب و قانون کے اثر کو باطل ٹھہرا کر حاصل ہوئی ہو) پر بے علمی، جہالت اور اقوام متمدنہ سے علیحدگی اور اجنبیت نے ان کی حالت کو اور بھی زیادہ تباہ کردیا تھا۔ اس بدترین حالت ہی نے ان کو اور زیادہ قابل رحم ٹھہرایا اور رب العالمین نے اصلاح عالم کا آغاز اسی جگہ سے ہونا پسند فرمایا۔ حضورؐ نے حکم ربانی کے مطابق قریبی رشتے داروں سے تبلیغ دین کا کام شروع فرمایا۔ کنبہ میں تقریر، پہاڑی کا وعظ، منڈیوں اور میلوں میں وعظ و نصیحت، طائف کے بازاروں میں اعلان توحید، پر قریش کا سلوک اور حضورﷺ کا صبرو ثابت قدمی، ’شعب ابی طالب‘ میں بند رہنا۔ بائیکاٹ کی تکالیف اور وہ کچھ سیرت النبیﷺ کے اوراق پلٹنے سے سامنے آتا ہے کہ انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ واقعی یہ کام ماسوائے اللہ تعالیٰ کے سچے نبیﷺ و رسولؐ کے کسی اور انسان کے بس کی بات ہی نہیں۔ حضورﷺ کی دعوت پر اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ ظلم و تشدد کے ایسے واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں کہ جسم کانپ کر اور روح لرز کر رہ جاتی ہے۔ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف قریش مکہ کی تدبیروں میں ایک یہ تھی کہ اسلام قبول کرنے والوں کو سخت اذیت دی جائے تاکہ جو مسلمان ہوچکے ہیں وہ واپس آجائیں اور نئے لوگ اسلام قبول نہ کریں، قریش مکہ نے اسلام قبول کرنے والوں کو جو تکالیف دیں ان کا مفصل بیان تو کئی سارے کالموں کا تقاضا کرتا ہے۔ تاہم ان میں سیدنا بلالؓ، سیدنا عمارؓ، سیدنا ابوفکیہہؓ جن کا نام افلح تھا، سیدنا خباب بن ارتؓ، سیدہ یعینہؓ ، سیدہ زنیدہؓ، سیدہ نہدیہؓ اور سیدہ ام علبیسؓ غلام اور لونڈیاں تھیں۔ قریش کا ظالمانہ سلوک صرف غلاموں اور ضعیفوں کے ساتھ ہی نہ تھا اپنے فرزندوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی وہ ایسی ہی سنگدلی کا برتائو کیا کرتے تھے۔ سیدنا عثمانؓ بن عفان پر چچا کے مظالم، سیدنا مصعب بن عمیرؓ کو ماں نے گھر سے نکال دیا۔ بعض صحابہؓ کو قریش گائے اور اونٹ کے کچے چمڑے میں لپیٹ کر دھوپ میں پھینک دیتے تھے۔ بعض کو لوہے کی زرہ پہنا کر جلتے جلتے پتھروں پر گرادیا کرتے تھے۔ (کنٹینروں میں ڈال کر دھوپ میں رکھنا آج کی نئی سزا ہے)۔ غرض ایسی وحشیانہ سزائیں دیتے تھے کہ صرف اسلام کی صداقت ہی ان کا مقابلہ کرسکتی تھی۔ پہلی امتوں نے تو کھوٹے روپے لے کر انبیاء کو گرفتار اور قتل کرادیا تھا۔ یہ حضورﷺ کے صحابہؓ ہی تھے جو موت کو گلے لگاتے تھے لیکن نہ اسلام چھوڑا نہ ہی پیغمبرؐ کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ ہوئے۔ آج بھی دنیا کے کسی کنارے یا ملک میں اسلام کے نام لیوائوں پر مظالم کی جو آگ برسائی جارہی ہے تو یہ اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو ہر دور میں دہراتی ہے۔ کھرے کھوٹےالگ الگ ہوتے رہتے ہیں۔ اسلام اور پیغمبر اسلامﷺ کے نام پر مار کس نے کھائی اور آج بھی کھا رہے ہیں اور ان مقدس ناموں پر مال کون بنا رہا ہے۔ مسلمانوں کو اس کا فیصلہ تاریخ اسلام کی روشنی میں خود کرنا چاہئے۔

تازہ ترین