• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حدیبیہ کیس، لایئو شوز پر پابندی، اسحٰق ڈار اشتہاری قرار، 3 دن میں پیش نہ ہونے پر ضمانت ضبط ہوگی، احتساب عدالت

Todays Print

اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر کیس سے متعلق لائیو شوزپرپابندی عائد کرتے ہوئے پیمرا کو عدالتی حکم پر عملدرآمد یقینی بنانےکی ہدایت کردی اورکہاکہ کیس کی صرف رپورٹنگ کی اجازت ہوگی تبصروں کی نہیں، عدالت نے کیس التوا میں ڈالنے کی نیب کی درخواست خارج کردی، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نےکہاکہ لاہور ہائیکورٹ نے ریفرنس بحالی پرکوئی حکم امتناعی نہیں دیا، نیب نے اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، اگر ہائیکورٹ کاحکم کالعدم بھی کردیں پھربھی ملزمان کے خلاف ریفرنس توبحال نہیں ہوگا،ہائیکورٹ نے ریفرنس پرکارروائی سے روکا تھا بحالی سے نہیں، کیاحکم امتناعی دینے پرایک جج پرالزام لگارہے ہیں، اصل ریفرنس کیا تھا؟، یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایاگیا کچھ وجوہات ہونگی، اس وقت پاکستان کوکون سی حکومت چلارہی تھی؟کیاجلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے؟ مفرورکاتوسنا تھاجلا وطنی کا حکم کیسا ہے؟ نواز شریف کی جلاوطنی کاحکم کس نےدیا؟ اگرنوازشریف خود گئے ہوتے توواپسی کیلئے درخواست نہ دیناپڑتی، ملزمان کووطن واپسی پرگرفتارکیوں نہیں کیاگیا؟ جبکہ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ کیا کل حکومت کسی دوسرےملزم کومعاہدہ کرکے باہر جانے دیگی‘؟ ملزم اٹک میں تھاتو طیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا؟ دریں اثناءپیمرا نے سپریم کورٹ کے احکامات پر نجی ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا وہ حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالہ سے براہ راست کوریج سے گریز کریں۔پیر کو سپریم کورٹ میں حدیبیہ ملزکیس کھولنے سےمتعلق نیب کی اپیل پرسماعت جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کےتین رکنی بنچ نےکی۔ دوران سماعت ڈپٹی چیئرمین نیب امتیاز تاجور بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ نیب پراسیکیوٹرنےعدالت کوبتایاکہ حکم کے مطابق دستاویزات عدالت میں جمع کرادی ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے استفسار پر وکیل نےبتایاکہ 27مارچ 2000 کو ریفرنس دائر کیا گیا، 25 نومبر 2007 کو ملزمان ملک واپس آئے اس پر جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ نیب کا موقف ہے ملزمان ریفرنس پراثراندازہوئے، ہمارا سوال ہے کہ معاملہ سردخانے میں کیوں رکھاگیا؟ یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایاگیا کچھ وجوہات ہونگی اس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ وجوہات میرےعلم میں نہیں‘ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کوئی حکم نامہ ہوگاجس کے تحت کیس جیل میں چلایا گیا، ہارون پاشا کو 265kکے تحت بری کیاگیالیکن وجوہات نہیں لکھی، اس وقت پاکستان کوکون سی حکومت چلارہی تھی، اس وقت ایگزیکٹوپرویزمشرف تھے۔ جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ملزم اٹک میں تھاتوطیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا؟نیب پراسکیوٹرنے بتایا کہ معاہدےکےتحت نوازشریف کو باہر بھیجا گیا‘اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ خود باہرگئےتھےتومفرورکی کارروائی ہونی چاہئے تھی، کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگرنوازشریف خود گئے ہوتےتوواپسی کیلئے درخواست نہ دیناپڑتی۔ جسٹس قاضی فائزکاکہناتھاکہ لاہورہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پرکوئی حکم امتناعی نہیں دیا، نیب نے اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا، اگرہائی کورٹ کاحکم کالعدم بھی کردیں پھربھی ملزمان کے خلاف ریفرنس توبحال نہیں ہوگا، اس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ریفرنس بحالی کی درخواست پر احتساب عدالت سماعت کرے گی، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےکہا کہ ہائی کورٹ نےریفرنس پر کارروائی سے روکا تھا بحالی سے نہیں۔ جسٹس قاضی فائز نے استفسارکیاکہ اصل ریفرنس کیا تھا،جس پر نیب کے وکیل نے کہاکہ کچھ جعلی بینک اکاونٹس بنائےگئےتھے‘ جسٹس قاضی نے کہا کہ شکایت کس کی تھی ملزمان کی جانب سے دبائوکیسے ہوا اس پر دلائل دیں، پہلے کیس کو دوبارہ کھولنے پردلائل دیں۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ نے پاناما اور حدیبیہ کاتعلق کہا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ کیا پاناما نہ ہوتا توپھرآپ نے کچھ نہیں کرناتھا، پاناما فیصلے کا آپریٹوحصہ پڑھیں، فیصلے میں حدیبیہ بارے کچھ نہیں کہا گیا، لکھا گیا ہے جب نیب اپیل دائر کریگی تو دیکھا جائیگا، آپ اقلیتی فیصلے کا حوالہ دےرہےہیں۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اقلیتی رائےہم پرلازمی نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھاکہ ہم آپ سےکہہ چکےہیں اقلیتی فیصلہ نہ پڑھیں، اتنا وقت ضائع کیا بات آخر میں وہی آ گئی، اگراقلیتی فیصلےکااب حوالہ دیاتوآپکونوٹس جاری کرینگے۔ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ نیب کی عبوری ریفرنس دائر کرنے کی وجوہات کیا تھیں، نیب کے وکیل کا کہنا تھا حدیبیہ تحقیقات میں آنے والی درخواست پرکسی کےدستخط نہیں تھے،شکایات ذرائع سےموصول ہوئی،عدالت نےکہاکہ کرپشن،کرپشن کرپشن لفظ نہیں، شواہد دکھائیں، غیرقانونی عمل بتائیں کرپشن بتائیں، کرپشن کرپشن کہنے سےکرپشن ثابت نہیں ہوتی، نئے شواہد کیا ہیں؟ نیب انکم ٹیکس کے کیس نہیں اٹھاسکتی، مجرمانہ عمل دکھانا ہو گا، جعلی اکاؤنٹس کیسے کھولے گئے، کیا بینک انکا تھا؟ اس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ اسحاق ڈارنےبینک افسران کوپاس بلاکرکام لئے۔ جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کاکہناتھاکہ جعلی اکاؤنٹ کیا ہوتا ہے؟ بینک عملہ بھی ملوث ہو گا‘جسٹس مشیرعالم نے استفسارکیاکہ کیا جے آئی ٹی نے کوئی نئی چیزدریافت کی؟ اس پرنیب پراسیکیوٹرکاکہناتھاکہ جے آئی ٹی رپورٹ میں نئی چیزیں بھی سامنے آئی ہیں، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے لائیوٹی وی شو میں حدیبیہ کیس پربات کرنےپرپابندی عائد کردی اور پیمرا کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیدیا ہے، سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو الفاظ کامجموعہ قرار دیتے ہوئےکہاہےکہ نیب ریفرنس میں لفاظی ہے، کرپشن، کرپشن لفظ نہیں شواہد دکھائےجائیں، کرپشن کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی۔دریں اثناء اے پی پی کے مطابق پیمرا نے سپریم کورٹ کے احکامات پر نجی ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کر دی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ تمام نجی ٹی وی چینلز حدیبیہ پیپرز ملز کیس کے حوالہ سے براہ راست کوریج سے گریز کریں، کسی قسم کی خلاف ورزی پر ٹی وی چینلز اور پروگرامات پر پیمرا آرڈیننس 2002ءکے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

تازہ ترین