• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری،حکومت اورحزب اختلاف کےمابین آویزش سنگین

اسلام آباد (محمد صالح ظافرخصوصی تجزیہ نگار) سیاسی میدانوں کے بعد اب پارلیمانی ایوانوں میں حکومت اور حزب اختلاف کے مابین آویزش سنگین شکل اختیار کررہی ہے۔پیرکو پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اسی کشیدگی کے سبب ایک جملے کی قانون سازی نہیں ہوسکی۔ایوان بالا جسے وفاق کی علامتوںمیں سے ایک تصور کیا جاتا ہے اس آئینی ترمیم کومنظور کرنے اور ماقبل ایوان میں پیش کرنے پر متفق نہ ہوسکا جو مردم شماری کے عبوری نتائج کی بنیاد پرآئندہ عام انتخابات کیلئے حلقہ بندیوں کی اجازت دے گی۔اس طرح عام انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنایا جاسکے گا۔اطلاعات سے سراغ ملتا تھا کہ حکومت اور پیپلزپارٹی کے درمیان مفاہمت طے پاگئی ہے کہ پیر کو سینیٹ کا اجلاس شروع ہونے پر آئینی ترمیم جسے قومی اسمبلی پہلے ہی منظور کرچکی ہے ایوان میں پیش کرکے اس کی منظوری حاصل کرلی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق پیپلزپارٹی نے پس پردہ روابط کے ذریعے اپنے مطالبات تسلیم کرالئے ہیں اس کے نتیجے میں آئینی ترمیم کو بلاتردد ایوان بالا سے منظور کرلیا جائےگا۔ پیر کو سینٹ کا اجلاس شروع ہونے سے قبل ہائوس بزنس کمیٹی کے اجلاس میں پیپلزپارٹی باردگر اینٹھ گئی اور یوں آئینی ترمیم منظور کرنے کیلئے مفاہمت غارت ہوگئی۔ حالانکہ ایوان میں حاضر ارکان آئینی ترمیم منظور کرانے کیلئے مطلوبہ تعداد میں موجود تھے۔ پیپلزپارٹی اس آئینی ترمیم کی منظوری کے سلسلے میں رخنہ ڈال کر اپنا ’’رتبہ‘‘ بڑھانے میں مصروف ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ ’’غیر مرئی منتظمین‘‘ عام انتخابات کے بروقت انعقاد میں دلچسپی نہیں رکھتے ان کی خواہش ہے کہ نگراں کی بجائے طویل دورانئے کی قومی حکومت تشکیل پائے جو ’’حسب خواہ‘‘ معاشرتی خرابیوں کا تدارک کرے اور نظام کی مطلوبہ انداز میں جھاڑ پونچھ کرے اور جب بھی نتائج مثبت ہونے کی یقین دہانی حاصل ہوجائے مودبانہ انتخابات کا ڈول ڈال دیا جائے۔ میاں رضا ربانی سینیٹ کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے وہ مزید ایک سو ایک دنوں کیلئے اس ایوان بالا کے چیئرمین ہونگے جس کے بعد عام انتخابات کا اذن ملا تو وہ ملک کے نگراں وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کیلئے موزوں ترین امیدواروں میں شمار ہوتے ہیں اور وہ وزیر اعظم بن بھی جائیں گے بشرطیکہ ’’غیر مرئی منتظمین‘‘ اور ان کے لے پالکوں نے کوئی دوسری طرح کا منظر پیدا نہ کردیا۔ سینیٹ نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے اور اسرائیلی حکومت کا بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت قرار دینے کے خلاف زوردار قرارداد منظور کی جسے قائد ایوان راجہ محمد ظفرالحق نے پیش کیا۔ قبل ازیں اس معاملے پرایوان میں تفصیلی بحث ہوئی جس میں ارکان نے جی بھر کرامریکا اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مذمت کی۔ سابق وفاقی وزیر محترمہ شیری رحمن، سینیٹر جہانزیب جمالدینی، سینیٹر تاج حیدر، سینیٹر نہال ہاشمی اور دیگر ارکان نے اس موضوع پر دھواں دار تقاریر کیں ارکان نے ایوان سے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف کی عدم موجودگی اور بحث میں حصہ لینے سے ان کے گریز کو ہدف تنقید بنایا۔ دوسری طرف قومی اسمبلی میں بھی منظر زیادہ خوش کن نہیں تھاجہاں قبائلی علاقوںمیں اصلاحات کے مسودہ قانون کو عین آخر وقت میں ایوان کے ایجنڈے سے نکال دیا گیا۔ حکومت نے محض دو روز قبل بلند آہنگ اعلان کیاتھاکہ وہ پیر کو قومی اسمبلی میں اصلاحات کے قانون کو منظوری کے لئے پیش کریگی پیر کو اجلاس شروع ہوا تو قبائلی ارکان یہ دیکھ کردم بخود رہ گئے کہ اصلاحات کا معاملہ ایجنڈے سے خارج کردیا گیا ہے اس سے قبائلی علاقوں کے ارکان ہی نہیں حزب اختلاف کے سبھی گروپس نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کا اپنا شوق پورا کیا۔ پھر وہی ہوا جسے دیکھنے کی تمنا حکومت کو رہتی ہے اور جو کرنے کی خو اہش حزب اختلاف نے ان دنوں پال رکھی ہے۔ یہ غنیمت تھا کہ متعلقہ وزیر ایوان میں موجود تھے لیکن وزرا کی بڑی تعداد نے قومی اسمبلی کا رخ ہی نہیں کیا۔ وفاقی وزرا رانا تنویر حسین، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، انجینئر بلیغ الرحمن، جنرل عبدالقادر بلوچ، آفتاب احمد شیخ، ڈاکٹر درشن، انوار جنید چوہدری اور مستعفی وزیر مملکت دو ستین ڈومکی موجودتھے قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے حکومت سے دریافت کیا کہ قبائلی علاقوں کی اصلاحات کے مسودے کو ایجنڈے سے کیوں خارج کیا گیا ہے وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور آفتاب احمد شیخ نے محض اس قدر جواب دیا کہ اس کا مزید مطالعہ کرنے کیلئے وقت حاصل کیا گیاہے حکومت جلد ہی اسے دوبارہ ایوان میں لائے گی جس پر حزب اختلاف کے ارکان مطمئن نہیں ہوئے انہوں نے قبائلی علاقوں میں نافذ کالے قانون ایف سی آر کیخلاف زبردست نعرہ بازی کی ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیں حکومتی رکن شہاب الدین جن کا تعلق قبائلی علاقوں سے ہے وہ بھی احتجاج میں شامل رہے حزب اختلاف کے بعض ارکان نے اسپیکر ڈائس کے سامنے مختصر دورانیئے کا دھرنا دیا وہ نعرے لگاتے کارروائی کا مقاطع کرکے باہر چلے گئے تو تحریک ا نصاف کے امجد علی خان نے کورم کی نشاندہی کردی ارکان کا شمار کیا گیا تو توقع کے عین مطابق کورم پورا نہیں تھا اس طرح اجلاس اگلے روز تک کیلئے اٹھادیا گیا۔ قومی اسمبلی کا پچاسواںاجلاس تین روز سے جاری ہے اور ان تمام دنوںمیں اجلاس کو کورم نہ ہونے کی بنا پر ملتوی کرنا پڑا ہے۔ اجلاس ملتوی ہونے کے بعد پارلیمنٹ ہائوس کے مرکزی دروازے پر قبائلی نوجوانوں کے ایک گروپ نے ایف سی آر کے خلاف زوردار نعرے بازی کی قبائلی علاقوں کی اصلاحات کے بارے میں قانون سازی کے اس سقم سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اس بارے میں قبائلی عوام کی رائے کا تعین کئے بغیر قانون وضع کیا جارہا ہے جو اچھی دانشورانہ کوشش تو ہوسکتی ہے لیکن یہ جمہوری تقاضوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
تازہ ترین