• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا قادری کیساتھ اسٹیج پر عمران اور زرداری کاساتھ کھڑے ہونا ممکن ؟

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کیا قادری کے ساتھ اسٹیج پر عمران اور زرداری کا ساتھ کھڑے ہونا ممکن ہے ،کچھ دنوں کے بیانات سے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ،طاہرالقادری کی نظریں بھی الیکشن پر ہیں ،طاہرالقادر کو پی ٹی آئی یا پی پی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ چار دنوں تک لاہور میں اہم ملاقاتیں ہوئیں، ان ملاقاتوں کے بعد امکان ظاہر کیا گیا کہ حکومت کیخلاف مضبوط اپوزیشن جلد ہی سڑکوں پر ہوگی اور حکومت کیلئے نئی مشکلات کھڑی کرے گی، لیکن کیا حکومت کو مشکل وقت ملے گا،نجفی رپورٹ سامنے آنے کے بعد طاہر القادری سے حکومت مخالف تمام چھوٹی بڑی جما عتو ں نے رابطہ کیا ، ان کے مطالبہ کی حمایت کی اور مل کر جدوجہد کرنے کا یقین دلایا، عمران خان نے کہا کہ طاہر القادری سڑکوں پر نکلیں تو ہم ساتھ ہوں گے، آصف زرداری نے بھی پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار کیا، لیکن طاہر القادری تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی میں سے کس کا انتخاب کریں گے کیونکہ یہ دونوں جماعتیں ساتھ کام نہیں کریں گی، اس کی وجہ عمران خان کا پیپلز پارٹی کے ساتھ آگے بڑھنے سے انکار ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی طاہر القادری کو استعمال کر کے سڑکوں پر لانا چاہتی ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ طاہر القادری کے ساتھ اسٹیج پر عمران خان اور آصف زرداری ساتھ ساتھ کھڑے ہوں، کچھ دنوں سے سامنے آنے والے بیانات کے بعد ایسا ہوتا نظر نہیں آتا ہے، عمران خان نے واضح کردیا ہے کہ جب تک آصف زرداری پیپلز پارٹی کے سربراہ ہیں اس کے ساتھ کوئی اتحاد نہیں ہوسکتا، دوسری طرف پیپلز پارٹی عمران خان کے بیان پر سخت تنقید کررہی ہے، ایسا نہیں ہے کہ پہلی بار پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے مشترکہ جدوجہد کی کوشش کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں ایک دفعہ بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف قریب نہ آئے ہوں، اس وقت بھی آصف زرداری پارٹی کی سربراہی کررہے تھے، اس سے پہلے پاناما کے معاملہ پر مئی 2016ء میں دونوں جماعتوں نے پارلیمنٹ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا، ایک ساتھ سڑکوں پر نکلنے کی بات بھی ہوتی رہی، عمران خان نے خورشید شاہ کے ساتھ مل کر مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی جس میں خورشید شاہ کے ساتھ شاہ محمود قریشی جبکہ عمران خان پیچھے کھڑے تھے،اس کوشش کے بعد ایسا محسوس ہوا کہ پاناما کے معاملہ پر دونوں جماعتیں مل کر جدوجہد کریں گی مگر چند ہی دنوں بعد دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر تنقید کرنے لگیں یوں ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرنے کی کوششیں ابتدائی مرحلے میں ہی ناکام ہوتی دکھائی دیں۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ طاہر القادری کو تحریک انصاف یا پیپلز پارٹی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا، پاکستان عوامی تحریک کی الیکشن میں کارکردگی مایوس کن رہی ہے، کیا پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی طرح طاہر القادری کی نظریں بھی الیکشن پر ہیں۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ جہاں طاہر القادری نے ابھی تک سڑکوں پر آنے کا فیصلہ نہیں کیاوہیں ن لیگ کی بڑی خواہش نظر آتی ہے کہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور چوہدری برادران سب طاہر القادری کے ساتھ ایک کنٹینر پر ہوں، کل رانا ثناء اللہ نے بھی کہا کہ اس سے ان کی سیاست دفن ہوجائے گی۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ داعش کیخلاف عراق اور شام میں آپریشن کے بعد دعویٰ کیا گیا کہ داعش کا خاتمہ ہوگیا ہے، لیکن کیا واقعی داعش ختم ہوگئی یا سمٹ کر کسی اور محفوظ مقام پر منتقل ہوگئی ہے، اس حوالے سے چونکا دینے والے حقائق سامنے آرہے ہیں، روسی صدر نے شام میں اپنا فوجی مشن سمیٹنے کا اعلان کردیا ہے، گزشتہ چھ سال تک شام عالمی طاقتوں کی زورآزمائی کا مرکز بنا رہا، عالمی قوتوں کا مفاد پورا ہوا یا نہیں مگر اس پراکسی کا شکار شامی عوام ہوئے، لاکھوں افراد اس جنگ کا ایندھن بنے اور اپنے گھر چھوڑ کر مختلف ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، اب دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شام پر مقامی سیکیورٹی کونسل کا کنٹرول مضبوط ہوگیا ہے، عالمی طاقتوں کی رسہ کشی کے دوران شام میں داعش کے خطرے نے سر اٹھایا، یہ وہی باغی تھے جنہیں امریکا اور سعودی عرب نے سپورٹ کیا، 2014ء میں داعش نے شام اور عراق میں خودساختہ خلافت قائم کرنے کا اعلان کردیا، مغربی ممالک کی پراکسی داعش کو مضبوط کرنے کا باعث بنی۔ شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ ایک ماہ پہلے امریکا کی اتحادی فورسز نے رقہ سے داعش کے خاتمے کا اعلان کیا، اس خاتمے کو بڑی کامیابی سمجھا گیا اور جشن منایا گیا مگر اب پتا چل رہا ہے کہ داعش کے جنگجوئوں کا خاتمہ نہیں کیا گیا بلکہ انہیں فرار کروایا گیا، خطرہ ختم نہیں ہوا پھیل گیا ہے، گزشتہ ماہ برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک حیران کن رپورٹ شائع کی جس کے مطابق شام میں داعش کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ ایک ڈیل کے ذریعے شام سے داعش کے جنگجوئوں کو نکالا گیا، برطانوی نشریاتی ادارے نے اس ڈیل کو رقہ کا شرمناک راز قرار دیا اور لکھا کہ اس ڈیل کی شروعات میڈیا بلیک آئوٹ سے ہوئی تاکہ میڈیا اس ڈیل کے حوالے سے تفصیلات لوگوں تک پہنچا نہ سکے کہ داعش کو شکست نہیں دی گئی بلکہ فرار کا راستہ دیا گیا ہے، مگر موبائل سے بنائی گئی ویڈیوز نے اس ڈیل سے پردہ اٹھایا، برطانوی نشریاتی ادارے کے پاس موجود ویڈیوز کے مطابق دہشتگردوں کا قافلہ اتنا چھوٹا نہیں تھا کہ چھپایا جاسکے، ایسا نہیں کہ دنیا سے مکمل سچ چھپایا گیا، دنیا کو بتایا گیا کہ صرف درجن بھر مقامی جنگجوئوں کو جانے کی اجازت دی گئی، یہ نہ غیرملکی ہیں نہ ان کے پاس کوئی ہتھیار ہے، یہ سچ ہے مگر مکمل سچ نہیں ہے، سچ یہ ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں داعش کے جنگجو ٹرکوں پر سوار ہو کر فرار ہوگئے، دہشتگردوں کو ترکی کے قریب چھوڑنے والے ٹرک ڈرائیورز نے برطانوی نشریاتی ادارے کو بتایا کہ یہ ان کی زندگی کا سب سے طویل سفر تھا، ٹرکوں پر داعش کے دہشتگردوں نے بم نصب کیے تھے جنہیں معاہدہ ناکام ہونے کی صورت میں پھاڑ دیا جانا تھا، ڈرائیورز نے بتایا کہ انہیں مقامی انتظامیہ نے دھوکا دیا اور کہا کہ چند گھنٹے کا کام ہے انہیں کچھ شہریوں کو لے کر جانا ہے لیکن انہیں تین دن تک مسلسل ٹرک چلانا پڑا، ان ڈرائیورز کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس سفر کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے، ٹرک ڈرائیورز نے اتحادی افواج کے اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیا کہ صرف درجنوں دہشتگر دوں کو رقہ سے جانے کی اجازت دی گئی ہے، ایک ڈرائیور نے بتایا کہ ان کے قافلے میں سینتالیس ٹرک اور تیرہ بسیں تھیں جبکہ داعش کے دہشتگردوں کی اپنی گاڑیاں بھی تھیں، ان کا قافلہ چھ سات کلومیٹر لمبا تھا، ایک اندازے کے مطابق چار ہزار دہشتگردوں کو نکالا گیا جن میں غیرملکی بھی تھے، ڈرائیورز کے مطابق قافلے میں فرانس، ترکی، آذربائیجان، پاکستان، یمن، سعودی عرب، چین ، تیونس او ر مصر کے دہشتگرد شامل تھے۔

تازہ ترین