• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تصویر کا یہ رخ بھی کم ڈسٹربنگ نہیں......؟ خیال تازہ… شہزاز علی

برطانیہ کے مسلمانوں کی صورت حال پر نظر رکھنے والا کوئی بھی مبصر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ کئی دہائیوں تک دور جدید کی ایک ویلفیئر سٹیٹ میں رہنے کے باوجود مسلمانان برطانیہ کا قابل ذکر حصہ تعلیمی، اقتصادی اور معاشی اعتبار سے عدم استحکام کی گرفت میں دکھائی دیتا ہے۔برٹش مسلمز کی پسماندگی کی کئی جہتیں ہیں اس حالت تک پہنچانے میں جہاں ان کی اپنی لیڈر شپ کی کئی غلط ترجیہات اور بعض پسماندہ سوچوں کا ہاتھ ہے اورپچھلے چند کالموں میں تصویر کے اس رخ پر سے پردہ اٹھانے کی سعی کی گئی تھی کہ یہ ایک ستم ظریفی ہے کہ برٹش مسلمانوں کی اکثریت نے اپنے سیاسی، سماجی اور مذہبی معاملات بدقسمتی سے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں سونپ دیئے ہیں جنہیں نرم سے نرم الفاظ میں بھی bunch of ideats ہی قراردیا جاسکتا ہے۔ یعنی جو لوگ آپ کو اس صورت حال تک لے جانے کے ذمہ دار ہیں آپ بار بار انہی کو پھر اپنے نمائندوں کے طور پر منتخب کرتے ہیں ۔تصویر کا یہ رخ کوئی کم ڈسٹربنگ disturbing نہیں کہ جو مسلم کمیونٹی کی اپنی کوتاہیوں سے لبریز ہے۔ لیکن اس صورتحال کا دوسرا رخ بھی ہے کہ اس معاشرے میں برتا جانے والا تعصب اور ڈسکریمینیشن کا بھی ایک بڑا رول ہے۔آئیے آج تصویر کے اس رخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی نوجوان نسل کو بڑے پیمانے پر سوشل موبیلٹی چیلنج کا سامنا ہے اور وہ ہر شعبہ زندگی میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس امر کا علم سوشل موبیلٹی کمیشن کی ایک رپورٹ سے ہوا ہے۔ ان کے لیے اپنی مسلمان شناخت برقرار رکھتے ہوئے ترقی کی منازل طے کرنا آسان نہیں۔ جس کے باعث بعض اب یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ وہ اپنی مسلمان شناخت کو اگر چھپا کر رکھیں تو شاید ان کے ساتھ اس طرح کا تعصب نہ برتا جائے۔ رپورٹ یہ پردہ فاش کرتی ہے کہ سکول سے لے کر یونیورسٹی تک اور پھر کام اور ملازمتوں کی جگہ پر ینگ مسلمز کے لیے آگے بڑھنے میں قابل ذکر رکاوٹیں حائل ہیں۔ بہت سے اس کی وجہ اسلام فوبیا، ڈسکری مینیشن اور ریس ازم رپورٹ کرتے ہیں۔ پھر میڈیاکے بعض حصے مسلمانوں کو جس منفی انداز میں پورٹریٹ کرتے ہیں، ان کو کام پر ورک کولیگز کے سامنے ایک طرح دفاعی انداز اپنانا پڑتا ہے۔سوشل موبیلٹی کمیشن جو ایک انڈی پنڈنٹ مشاورتی باڈی ہے نے اپنے پچھلے مشاہدات میں یہ معلوم کیا ہے کہ باالخصوص پاکستانی اور بنگلہ دیشی ینگ پیپلز کا زیادہ امکان ہے کہ وہ دیگر کی نسبت تعلیم میں کم کامیاب ہو سکیں اور دوسرے گروپوں کی نسبت یونیورسٹیوں میں جا سکیںخاص طور پر لڑکیاں اور جو پڑھی لکھی مسلمان خواتین ہیں بھی ان کی تعلیم بھی کئی صورتوں میں جاب مارکیٹ میں ان کی مدد نہیں کر رہی۔ جیسا کہ مذکورہ بالا رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ یوکے سوسائٹی کی لیبر مارکیٹ میں کسی بھی دوسرے فیتھ گروپ کی نسبت مسلمانوں کو بہت بڑے معاشی عدم استحکام کا سامنا ہے جبکہ مسلم گرلز کا خصوصی ذکر!اس پر کمیشن کے چیئرمین کا یہ برمحل تبصرہ ہے کہ یہ رپورٹ چیلنجزکے حوالے ایک ڈسٹربنگ پکچرکی نشاندہی کرتی ہے جن کا ینگ مسلمز کو ایک گریٹ سوشل پراگریس کے لیے سامنا ہے۔ شیفیلڈ ہہلام یونیورسٹی کے اکیڈمکس کی ایک ٹیم کی نئی تحقیق برطانیہ میں پروان چڑھنے اور کام کی تلاش میں بروکن سوشل موبیلٹی پرامس کے دوران رویوں اور تہہ در تہہ اسباب کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ چشم کشا انکشاف کیا گیا ہے کہ 16 سے 74 سال کی عمر کے آبادی کے متحرک حصہ میں مسلمان آبادی کا 5 میں سے صرف 1 (19.8%) کل وقتی ملازمت میں ہے اس کا موازنہ انگلینڈ اور ویلز کی مجموعی آبادی سے کیا گیا ہے جو 3 میں سے 1 (34.9%) پایا گیا۔ کتنا المیہ ہے کہ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ برطانیہ میں مسلمان عورتیں معاشی طور پر ان ایکٹیو ہیں ان کی( 18 فیصد تعداد 16 سے 74 سال ( ہوم اور فیملی کی دیکھ بھال کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ قومی سطح پر یہ تعداد صرف 6 پرسنٹ ہے۔ جبکہ تعصب کی وجہ سے مسلمان عورتین جو ہیڈ سکارف پہنتی ہیں ان کو مزید اضافی طور پر ملازمتوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔سٹڈی عورتوں کے لیے صورتحال کو مزید بدتر قرار دیتی ہے والدین کی توقعات اگرچہ ہائی ہیں مگر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے ایجوکیشن اورایمپلائمنٹ کے حوالے مختلف توقعات، لڑکوں کو زیادہ آزادی دی جاتی ہے۔ عورتوں سے زیادہ یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ جلد از جلد شادی بیاہ کےبندھن میں پرو کر امور خانہ داری نبھائیں۔ تقریباً نصف مسلمان آبادی 46%) )برطانیہ کے 10 فیصد انتہائی پسماندہ ترین لوکل اتھارٹی ڈسٹرکٹس میں رہائش پذیر ہے۔ جس کے اثرات ان کے لیے وسائل کے حصول، اچھے اور معیاری سکولوں میں تعلیمی استعداد کارکردگی، ہائر ایجوکیشن میں داخلہ اور ملازمتوں پر مرتب ہوتے ہیں۔ اس صورتحال سے وہ بھی متاثر ہو رہے ہیں جو پوسٹ گریجویٹ ہیں یا منجیریل لیول کی جابز میں ہیں۔ یہ صورتحال ہر ریجن میں مختلف ہے۔ مڈلینڈ زیادہ متاثر ہے اور ساوتھ نسبتاً کم۔سٹڈی میں حصہ لینے والے کا یہ امپریشن ہے کہ کلچرل تفاوت اور مختلف قسم کے ڈس کری مینیشنز یعنی عدم مساوات اور تعصب کی وجہ سے ان کو یکساں مواقع کے لیے دس گنا زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ ڈس کری مینیشن کی شدت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض آجر eployers تو انٹرویوز کے عمل کے دوران ہی مسلمان ناموں کے باعث ہی انہیں پراسیس سے آئوٹ کر دیتے ہیں۔ جن مسلمان نوجوانوں کے انٹرویوز کیےگئے ان کے یہ احساسات تھے کہ اساتذہ ان کے حوالے کم توقعات کا اظہار کرتے ہیں یعنی جب وہ ورک سیٹ کرتے ہیں تو انہیں لو ایبلیٹی low ability کا کام دیا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ مختلف سڈیز اور آفسٹیڈ کے معائنے کے وقت یہ واچ ڈاگ ادارہ بھی ٹیچرز کے مسلمان بچوں کو ان کی صلاحیتوں سے کم درجے کے ورک سیٹ کرنے کی نشاندہی کرتا رہتا ہے مگر ہم میں سے آخر کتنے ہیں جو ان سٹڈیز یا آفسٹیڈ کی رپورٹس کے مطالعہ کا تکلف کرتے ہیں؟ بچوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکولوں میں مسلمان اساتذہ کی کمی ہے۔ رول ماڈل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہیں سکولوں میں مضامین کے انتخاب کی مناسب ایڈوائس اور چوائس نہیں ملتی اور اگر والدین کسی اور تعلیمی نظام میں پڑھے ہیں تو ان کے بچوں کو درکار مدد مہیا نہیں۔ بعض نے یہ بھی بتایا کہ وہ بلی انگ bullying اور ہراساں کیے جانے کے خدشات کے باعث بھی مدد نہیں مانگتے جس کا بالآخر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بچے خوداعتمامی کھو بیٹھتے ہیں اور جس وجہ سے بعض اعلیٰ تعلیم کے حصول کو خیر باد کہہ دیتے ہیں۔ جو ہائر ایجوکیشن میں جاتے ہیں ان کا زیادہ امکان ڈراپ آئوٹ کا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہم عصر سفید فام طلبہ کی نسبت درجہ اول یا دوم کی ڈگری حاصل نہیں کر پاتے۔باشعور اور فہمیدہ حلقوں کے لیے یہ بات بھی یقیناً باعث تشویش ہو گی کہ صرف 6 فیصد مسلمان اعلی منجیریل انتظامی اور پروفیشنل ملازمتوں میں ہیں۔ مجموعی آبادی میں یہ شرح 10 فیصد ہے۔ان کی کوالیفکیشنز کے معیار اور درجہ بندی بھی قدرے کم نوعیت کی ہیں۔ تصویر کا یہ رخ بھی کم ڈسٹربنگ نہیں!۔

تازہ ترین