• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سقوط ڈھاکہ کا سبق تحریر:صادق کھوکھر۔۔۔۔ لیسٹر

آج سے چھیالیس سال قبل جب مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا واقعہ پیش آیا تو ہر کوئی دکھی اور افسردہ تھا۔ کوئی بھی محبِ وطن اپنے وطن کا بٹوارا ہوتے نہیں دیکھ سکتا تھا، سولہ دسمبر سے قبل سب اچھا کی خبریں آرہی تھیں۔ لیکن جب اچانک پاکستانی افواج نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تو ہر کوئی بلک بلک کر رو رہا تھا۔ عوام میں غم و غصہ تھا وہ صدمے سے نڈھال تھے لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ آج بھی اس دن کو یاد کرتا ہوں تو افسردہ ہو جاتا ہوں۔ لیکن ہم تاریخ کو بدل نہیں سکتے۔ البتہ سبق ضرور سیکھ سکتے ہیں۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو اس سانحہ کا سبب بنیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ ہمارے حکمرانوں نے اس بنیاد کی بنیادیں کھودنا شروع کر دیں تھیں جو حصولِ پاکستان کی بنیاد تھی۔ یہ بنیاد وہ نظریہ تھا۔ جس کی اساس پر یہ مملکتِ خدا داد معرضِ وجود میں آئی تھی۔ ہمارے بڑے بڑے رہنماؤں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ وطن مذہب کی بنیاد پر قائم نہیں ہوا تھا۔ ظاہر ہے پھر مفاد پرست اور شر پسند عناصر ان بنیادوں کو تلاش کرتے ہیں جو ملک کو کمزور کرتی ہیں۔ پھر رنگ نسل زبان اور علاقے کے نعرے بلند ہوتے ہیں، عصبیت سر اٹھاتی ہے، اور چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں بھی احساسِ محرومی پیدا کر دیتی ہیں۔ دوسری بڑی کوتاہی آمرانہ نظام تھا، ایوب خان نے آتے ہی عام شہریوں کے بنیادی حقوق معطل کر دیئے تھے، دوسری طرف فوج میں مغربی پاکستان کی بالادستی تھی، جس سے احساسِ محرومی مزید بڑھا، حکومتی نظام میں بھی زیادہ حصہ مغربی پاکستان کا تھا یہ سرا سر ناانصافی تھی۔ جو طویل عرصہ تک برقرار رہی، تیسری خرابی مشرقی پاکستان کے عوام کے مسائل سے پہلو تہی تھی۔ عوام غربت کی چکی میں پس رہے تھے۔ بار بار سیلاب کے باعث ان کے مکانات بہہ جاتے تھے لیکن حکومت نے ان کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا جو کچھ بھی ترقیاتی کام ہوا صرف مغربی پاکستان میں ہی ہوا۔ سارے ڈیم وغیرہ اسی حصے میں بنے۔ پھر زبان کے مسئلے پر بھی غیر ضروری اصرار کیا گیا کہ سرکاری زبان صرف اردو ہی ہو۔ حالانکہ آج تک ہم عملاً انگریزی زبان کو خود پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اگر بنگالی زبان کو بھی تسلیم کر لیا جاتا تو فتنہ کھڑا نہ ہوتا۔ ایک بڑی غلطی یہ ہوئی کہ عصبیتوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا یہ جانتے ہوئے کہ عصبیت کی آگ بڑی تیزی سے بھڑکتی ہے اور اس کا ایندھن عام انسان بنتے ہیں۔ جس سے اس آگ کی بھٹی مزید دہکتی ہے۔ اسے فروغ نہیں ملنا چاہئے تھا۔ عصبیت کے علمبردار عوام کو محرومیوں اور رسوائیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکتے آپ غور کریں کہ بنگلہ دیش کی حکمران حسینہ واجد آج بھی اسی حربے کو استعمال کر رہی ہے وہ جماعتِ اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں دے رہی ہے لیکن اس کے پاس اس کے سوا عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں۔ بنگلہ دیش آج بھی مذہب کی بنیاد پر الگ ملک ہے۔ ورنہ مغربی بنگال بھی اس کا حصہ ہوتا۔ قصہ مختصر اس عظیم سانحہ کی راہ ہموار کرنے میں ہمارے حکمرانوں کے منفی کردار کا بڑا حصہ ہے۔ انہوں نے بڑی بڑی حماقتیں کیں جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا باعث بنیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود اور صدیق سالک نے اپنی کتب میں بڑی خوبی سے ان کا احاطہ کیا ہے۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم دل و جان سے اس نظریے کی قدر کریں اور اسے فروغ دیں۔ جو اس ملک کی اساس بنا۔ فرقہ پرستی، قوم پرستی اور علاقائیت کو پنپنے نہ دیں۔ سیکولرازم، لبرل ازم جیسے بدیسی نعروں سے متاثر ہوئے بغیر اسلام کی اصل تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ عدل و انصاف کا حقیقی نظام قائم ہو۔ جو عوام کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔ وسائل کی تقسیم اس طرح ہو کہ سارے وسائل مخصوص شہروں یا علاقوں پر ہی نہ صرف ہو جائیں بلکہ پسماندہ علاقوں پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے ایسے اقدامات کریں جن سے نہ صرف اس کا خاتمہ ہو بلکہ ان عناصر کی بھی حوصلہ شکنی بھی ہو جو اسے فروغ دیتے ہیں۔ ان اقدامات سے ایک طرف ہمارا وطن بھی مضبوط ہوگا دوسری طرف خوشحالی بھی آئے گی۔ کاش ہمارے اربابِ اختیار بیدار ہو جائیں اور وہ غلطیاں نہ دہرائیں جو ہماری رسوائی کا سبب بنیں۔

تازہ ترین