• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے قارئین اور دوستو! بہت دنوں کی چھٹی کے بعد واپس پلٹا ہوں، وطن عزیز اور ہمسایہ ملک میں چار ہفتوں کی خاک چھاننے کی تھکن سے جو سب کا حال ہوتا ہے میرا اس سے کچھ سوا ہی ہوا ہے سوچاتھا ان چار ہفتوں کا آنکھوں دیکھا حال اور کانوں سنی حکایتیں آئندہ کیلئے اٹھا رکھتے ہیں سوچا تھا آج میں آپ سے ہلکی پھلکی باتیں کرونگا تاکہ میں پھر سے اپنی جون میں آسکوں لیکن کشور حسین شادباد کی سیاسی، سماجی، ثقافتی، آئینی اور ادبی صورت حال اتنی دگرگوں ہوچکی ہے کہ وہاں ہر گام مسائل اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک عزیز میں چاروں طرف مسائل ہی مسائل ہیں۔ ہر مسئلہ سوفیصد معاشی مسئلہ سے جڑا ہوا ہے، تمام سیاسی وسماجی مسائل کی جڑیں معاشی بدحالی اور پریشانی کی تہہ میں گڑی ہوئی ہیں، مسائل حل نہ ہورہے ہوں یا حل ہونے کی رفتار عوامی توقع اور صورت حال کے تقاضوں سے کہیں کم اور دھیمی ہوتو پریشان حال عوام کا پریشان ترین ہوجانا فطری بات ہے صاف نظر آتا ہے کہ وہ رفتہ رفتہ حکومت انتظامیہ، عدلیہ، منتخب اداروں اور معاشرے سے مایوس اور بدظن ہوتے جارہے ہیں جمہوری ادارے مضبوط نہیں ہوپارہے ایسے میں مایوس عوام کا منفی سمتوں کی طرف چل نکلنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں علاقائی اور مذہبی فرقہ پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ مسلکی فرقہ وارانہ بنیادوں پر گروہ اور جتھے تشکیل دے دیئے گئے ہیں اور ہنوز یہ عمل جاری وساری ہے۔ نفرت اور عصبیت بڑی محنت اور ’’خلوص دل‘‘ سے بھلائی جارہی معاشرہ میں رواداری اور برادشت کا مادہ ختم ہوچکا، معاشرہ جس طرح بے لگام ہورہا ہے بہت جلد وہ اس سے بھی سوا ہوجائے گا اور یہ بات ہر کس وناکس جانتا ہے کہ جمہوریت صرف جمہوری عمل جاری وساری رہنے اور بڑھاوا دینے، ترقی کرنے اور نشوونما کے فروغ سے ہی مضبوط ومستحکم ہوسکتی ہے اس کے علاوہ کوئی چھومنتر، کوئی ٹونا، ٹوٹکا، کوئی دوا دارو، کوئی اکسیری نسخہ، کوئی دعا وعبادت، کوئی الہ دین کا چراغ، کوئی گیڈرسنگی، کوئی اوتارھارا کوئی جادو کی چھڑی یا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے لاہور میں میرے ساتھ ایک ملاقات میں عابد منٹو نے نہایت اہم اور پتے کی بات کہی ہے کہ سیا ستدانوں نے موجودہ نظام کو تبدیل نہ کیا تو ملک کو معاشی تباہی کا زبردست سامنا کرنا پڑے گا۔ میں یہاں اسحاق ڈار کی بات نہیں کرونگا بلکہ عابد منٹو کی بات کی تائید کرتے ہوئے ملک عزیز کی معاشی تباہی کے حل کیلئے اپنے حساب سے عرض کرونگا۔
پاکستان جاکر ایک بات کا احساس پھر تازہ ہوا اور یقین کی تصدیق بھی کہ ہر عہد کی ایک مخصوص فکر ہوتی ہے اور طرز اظہار بھی اور ماہ وسال کے آئینے میں عہد کو دیکھنا اور آواز کو سننا آسان نہیں لیکن دانا اور عارف ایک صورت حال ایسی بتاتے ہیں کہ جب رہنے سننے کو کچھ بھی نہیں رہ جاتا۔
بات پھیلتی جارہی ہے میں اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ کشور حسین شاد باد کی معاشی تباہی کے حل کیلئے میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔
عام مفہوم میں ہم ایسا کہیں گے کہ جس طرح کوئی گھر یاخاندان چلا ہے قومی معیشت کو چلانے کیلئے بھی وہی اصول ہیں۔ وہی بجٹ، وہی آمدن، وہی اخراجات، وہی سیونگ اور وہی انویسٹمنٹ، قومیں بھی اس طرح چلتی ہیں جیسے گھرانے چلتے ہیں جب کسی گھرانے کے حالات ناگفتہ اور تنگ ہوجائیں تو وہ دوسرے سے قرض لیکر کام چلانے کی کوشش کرتا ہے اور وہ وقت بھی آجاتا ہے یا آسکتا ہے جب دوسرے فردقرض دینے سے انکار کردیتے ہیں کہ پہلے قرضوں کی واپسی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اب اس گھرانے کیلئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ ایک تو وہ اپنے افراد کا معیار زندگی کم کرے (میں یہاں غریب لوگوں کی بات نہیں کررہا) اور دوسرے اپنے اثاثے(Assets)کو فروخت یا رہن رکھ کر روپیہ حاصل کرے، عام لفظوں میں اس وقت پاکستانی معیشت ایساہی ایک گھرانہ ہے جس کا بال بال (یہاں مراد بچے بھی ہیں) قرضوںمیں جکڑا ہوا ہے اور وہ وقت آگیا ہے جب قوم سال بھر میں جو کماتی ہے سب کا سب پرانے قرض اتارنے اور سالانہ سود اتارنے یا ادا کرنے پر لگ رہا ہے چنانچہ ہمارے پاس واحد اور میری نظر میں یہی ایک راستہ ہے کہ ہم اپنی قومی معیشت کی ازسرنو تشکیل کیلئے خود اپنے وسائل پیدا کرنے کی غرض سے قومی اثاثے کو(liquidate) کریں، آج تک کسی بھی سیاستدان یا معاشیات دان نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ ہماری وفاقی حکومت کے کل کتنے اثاثے ہیں اور کہاں کہاں ہیں؟ عام فہم پاکستانی معیشت کے بارے میں تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھنے والے ایک شخص کے طور پر میرا اندازہ ہے کہ وفاقی حکومت کے اثاثوں کی مالیت کسی طور بھی125ہزار کروڑ سے کم نہیں۔ سر فہرست 22 کارپوریشنر اور پاکستان ریلوے کے20 بیس بڑے انڈسٹریل پلانٹس اور ورکشاپ آتے ہیں جن کی مجموعی مالیت اربوں ڈالرزہے۔ ان کے بعد پی آئی اے ،پاکستان شپنگ، سول ایوی ایشن ٹی اینڈ ٹی، واپڈا، پورٹس اور کئی دوسرے اثاثے آتے ہیں جن کی مالیت بے پناہ ہے یہ تمام کے تمام وفاقی حکومت کے اثاثے ہیں جن کی مجموعی مالیت پاکستان کو ڈوبنے سے بچا سکتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک المیہ نہیں ہے کہ ملک کی بیمار معیشت کو جوں کا توں قائم رکھنے اور چلانے کیلئے زبوں حال قوم کو بیرونی قرضوں کے بوجھ تلے دبایا جارہا ہے اور وفاقی حکومت کے یہ بے پناہ اثاثے اپنی جگہ محفوظ اور منجمد پڑے ہوئے ہیں اتنا ہی المناک پہلو یہ ہے کہ حکومت کواپنے اثاثوں کی محض دیکھ بھال اور انتظام پر ہر سال لگ بھگ 7ہزار کروڑ سے زیادہ صرف کرنے پڑتے ہیں، ایک طرف سفید ہاتھی پالے جا رہے ہیں تو دوسری طرف عوام کی بودوباش، روزگار، صحت، تعلیم وتربیت اور ترقی وبہبود پر صرف کرنے کیلئے حکومت کے پاس بڑے بڑے قرضے لینے کے باوجود کوئی پیسہ نہیں ہے میں مانتا ہوں کہ اس سلسلے میں معمولی کارروائیاں شروع ہوچکی ہیں مگر ان معمولی کارروائیوں سے ہماری معیشت یا ملک پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اگر یہ خیال ہےکہ اس جزوی کارروائی کے نتیجے میں ہمارے صنعت کار اور تاجر حضرات میں اعتماد پیدا ہوگا تو یہ سراسر خام خیالی ہے اعتماد صرف اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے کہ پوری کی پوری معاشی پالیسی ایک پیکیج(PACKAGE)کی شکل میں آئے لیکن مجھے ڈر ہے کہ وفاقی حکومت کے یہ اثاثے دراصل وفاقی بیوروکریسی کے اثاثے بن چکے ہیں عوام کے اثاثے یہ ہرگز ہرگز نہیں ہیں۔ اب ایک آخری بات
ایک کروڑ پتی ایم پی اے اپنے علاج کیلئے شہر کے ایک خیراتی اسپتال میں داخل ہوا انتظامیہ نے بتایا کہ یہ خیراتی اسپتال ہے یہاں صرف غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے کروڑ پتی نے کہا’’ میں غریبوں کا نمائندہ ہوں اس لئے اس اسپتال میں علاج کروانا میرا استحقاق ہے‘‘۔

تازہ ترین