• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لگتا نہیں حکومت مدت پوری کرے، اسپیکر، جو ہورہا ہے 2002 اور 2008 میں بھی نہیں ہوا

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ لگتا نہیں کہ حکومت مدت پوری کرے‘چاروں طرف سے کھینچا تانی ہورہی ہے‘ایک کے سواتمام چاہتی ہیں حکومت مدت پوری کرے‘جو ہورہا ہے 2002اور 2008میں بھی نہیں ہوا‘پہلی بار مایوس ہواہوں‘استعفے آسکتے ہیں‘گریٹر پلان بنتا نظر آرہا ہے‘باخبر ہوں‘حکومت مضبوط بھی ہوتی ہے اور مصلحتاً کمزور بھی ہوجاتی ہے‘ہمیں ذاتی کی بجائے پاکستان کا مفادیکھناچاہئے‘میری دعا اور خواہش ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری کریں ‘دعا کریں پاکستان مستحکم رہے‘ہر بات پوچھی نہیں جاتی ‘ کچھ باتیں سمجھی جاتی ہیں‘ سیاسی جماعتوں کو کہتا رہتاہوں بہتری کے لئے ضروری ہےنظام کو مستحکم کریں‘چھٹی حس کہہ رہی ہے کچھ ہونے والا ہے لیکن سمجھ نہیں آرہا کہ کیا ہونیوالا ہے‘آج کل جو صورتحال ہے وہ بہت غیر یقینی ہے‘ہمارے اندرونی خطرات بیرونی خطرات سے کہیں زیادہ سنگین ہیں ، پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے‘آپ نے دیکھا نہیں کہ پچھلے تین مہینوں میں پاکستان میں کیا ہوا‘ہمیں انتخابی عمل سے گزرنے کے لئے وقت درکار ہے‘جو کچھ ہورہا ہے وہ کسی ادارے نہیں پورے ملک کے لیے اچھا نہیں ‘ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے‘ہمیں بھی اس ملک میں رہنا ہے اور ہماری نسلوں کو بھی‘مارشل لاء لگنے کا کوئی امکان نہیں ہے، نہ کوئی مارشل لاء کو قبول کرے گا نہ ہی اداروں کا مارشل لاء کی طرف جانے کا ارادہ ہے‘ آرمی چیف نے بھی جمہوریت کے تسلسل کیلئے بیانات دیئے ہیں‘ ضروری نہیں ہوتا کہ نظام کو مارشل لاء سے ہی ڈی ریل کیا جائے اور ضروری نہیں کہ ادارے کریں لیکن بیرونی قوتیں بھی یہ گیم کھیلتی ہیں۔ اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھاکہ ناامیدی اور مایوسی گناہ ہے لیکن میں پہلی دفعہ سیاست میں ناامید ہوا ہوں، انسان جتنا زیادہ جانتا ہو اتنا ہی اس کیلئے برا بھی ہوتا ہے، کسی چیز کا علم نہ ہو تو انسان نہ خوفزدہ ہو نہ پریشان ہو، انسان جتنا زیادہ چیزوں کو جانتا ہے اتنا ہی زیادہ سوچتا ہے کہ کیا یہ ملکی مفاد میں ہورہا ہے، کیا یہ ملک کے لئے بہتر ہورہا ہے، کیا اس میں پاکستان کا فائدہ ہے یا نقصان ہے، یہ چیزیں جب میں دیکھتا اور سوچتا ہوں تو مجھے تکلیف اور دکھ ہوتا ہے‘ہم اپنی نسلوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی بجائے مشکلات پیدا کررہے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے، اس میں کسی ادارے کا نہیں پورے پاکستان کا نقصان ہے۔ انہوں نے کہاکہ فیصلہ عوام کو کرنا چاہئے کہ کس نے اچھی کارکردگی دکھائی اور کون پاکستان کو بہتر سے بہتر ملک بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے، نئی حلقہ بندیوں کا بل سینیٹ سے منظورنہیں ہوا اور مردم شماری کے عبوری نتائج پر حلقہ بندیاں نہیں ہوئیں تو چھوٹے صوبے عدالت میں جاکر اپنا حق مانگیں گے، چھوٹے صوبوں کی نشستوں میں جو اضافہ ہوگا کیا ہمیں ان کا یہ حق نہیں دینا چاہئے، پنجاب اپنی نشستوں کا نقصان کرنے کیلئے تیار ہے تو دوسرے صوبوں کا حق کیوں مارا جائے، الیکشن کمیشن نے بارہا بتایا ہے کہ الیکشن پراسس مکمل کرنے کیلئے اسے کم از کم پانچ مہینے درکار ہیں۔ ایاز صادق نے کہا کہ اسمبلیاں خطرے میں اس لئے لگ رہی ہیں کہ ایک گریٹر پلان بنتا نظر آرہا ہے، ہوسکتا ہے کچھ لوگ استعفوں کی طرف بھی جائیں، کیا وہ نہیں چاہتے کہ مارچ میں سینیٹ الیکشن ہو یا کوئی گریٹر پلان ہے جو مجھے نہیں پتا، مجھ سے ہر سیاسی جماعت سے ان کی سوچ اور خواہش پتا چلتی ہے، مجھے نہیں پتا یہ سب کچھ کون کروارہا ہے لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ کوئی پلان بن رہا ہے، اسلام آباد، لاہور اور کراچی میں پچھلے تین ماہ کے دوران جو کچھ ہوا یہ سب کیا ہے، حکومت کی تاریخ میں ایسی سرگرمیاں اتنی جلدی نہیں ہوتی ہیں، یہ سب نارمل نہیں ہے بلکہ مصنوعی ہے، اگر نظام کو دھچکا لگا تو پاکستان کو دھچکا لگے گا، پاکستان اس وقت دشمنوں سے گھرا ہوا ہے، امریکا بھی پاکستان سے متعلق آج چپ ہے کل چپ نہیں رہے گا،ہمیں متحد ہو کر اندرونی و بیرونی خطرات سے نمٹنا ہوگا۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ کراچی میں پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کے اتحاد والا معاملہ نارمل چیز نہیں تھی، 2002ء کی پارلیمنٹ میں ہم صرف اٹھارہ انیس ارکان تھے لیکن اتنی مایوسی نہیں تھی جتنی آج ہے، اس وقت ہمیں پتا تھا کہ ایک ڈکٹیٹر بیٹھا ہے لیکن اب چاروں طرف سے کھینچا تانی ہورہی ہے، مجھے تو کچھ بھی نیچرل ہوتا نظر نہیں آرہا ہے‘ ممکن ہے ایم کیو ایم پاکستان اور پی ایس پی کو کسی بیرونی قوت نے ساتھ بٹھایا ہو، مجھے جتنا زیادہ پتا ہے وہی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے، اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس کے پیچھے بیرونی قوتوں کے ساتھ اندرونی قوتیں اور سیاسی و غیر سیاسی مقاصد بھی ہوسکتے ہیں۔ایاز صادق کا کہنا تھا کہ 2002ء میں مشرف حکومت میں اتنا مایوس نہیں تھا جتنا آج ہوں، ہمیں پتا تھا لڑ جھگڑ کر سسٹم چلالیں گے لیکن اب کئی دفعہ بے بسی نظر آتی ہے، اسلام آباد کے دھرنے میں حکومت بھی بے بس نظر آئی، حکومت شاید سانحہ ماڈل ٹاؤن کی وجہ سے فورس کے استعمال سے خوفزدہ تھی، جو چیزیں چاروں طرف ہورہی ہیں وہ اطمینان بخش نہیں ہیں‘پیپلز پارٹی کا نظام ڈی ریل نہ ہونے دینے میں اہم کردار ہے، پیپلز پارٹی حکومت کی جتنی مخالفت کرے لیکن نظام ڈی ریل ہو اس کیلئے تیار نہیں ہے۔ شاہزیب خانزادہ کے سوال آپ کس بنیاد پر اتنے مایوس ہیں؟ پر ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ہر بات نہیں پوچھی جاتی کئی باتیں قیاس کی جاتی ہیں، ہمیں پاکستان مستحکم ہونے اور ملک میں ادارے اور نظام مضبوط ہونے کی دعا کرنی چاہئے، پاکستان سے ہماری عزت ہے پاکستان کے بغیر ہماری عزت نہیں ہے، اسمبلیوں کی مدت کوئی اور نہیں پارلیمنٹ میں بیٹھے کچھ دوست پوری نہیں کرنے دیں گے، وقت سے پہلے نظام کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش غیرفطری ہوگی۔ ایاز صادق نے کہا کہ میری دعا اور خواہش ہے اسمبلیاں اپنی مدت پوری کریں او رنظام ڈسٹرب نہ ہو لیکن مجھے خدشات ہیں، سازش کا عنصر صرف ن لیگ کے نہیں پورے نظام کے خلاف دیکھتا ہوں، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بھی نظام کا حصہ ہیں، جب کوئی سوچے کہ نظام نہ رہنا اس کے مفاد میں ہے تو اسے غلط فہمی ہوتی ہے کہ اس کا مفاد رہے گا حالانکہ کسی کا مفاد نہیں رہتا‘اسپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت مضبوط بھی ہوتی ہے لیکن کئی دفعہ مصلحتاً کمزور ہوجاتی ہے، حکومت فیصلہ کرے گی کہ آئندہ کسی احتجاج کو کس طرح ہینڈل کرنا ہے ، صرف دھرنے نہیں باقی چیزوں سے بھی پہلی دفعہ ناامید ہوا ہوں، لیکن پھر خود سے کہتا ہوں کہ ابھی بھی بہتری آئے گی ہمیں ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہئے، اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو ہمت کرتے ہیں۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ حکومت پر کیا تنقید کروں یا اسے کیا کریڈٹ دوں، ہمیں چیزیں وقت پر ہینڈل کرنی چاہئیں، ہر چیز کا وقت ہوتا ہے وقت گزرنے کے بعد معاملہ ہینڈل کریں تو نقصان ہوجاتا ہے، حکومت اور اپوزیشن کو وقت پر فیصلے کرنے چاہئیں، نہ میں اپوزیشن اور نہ ہی حکومت کی تنقید کرتا ہوں، جب کوئی بات ہوتی ہے تو حکومت کو بتادیتا ہوں کہ اس پر جو مناسب ہو کریں، میرا یہی تعلق اپوزیشن کے ساتھ ہے ان سے بھی ایسے ہی بات کرتا ہوں، اپنے اوپر وقتی ذمہ داری کو نبھانے کی خوش اسلوبی سے کوشش کررہا ہوں۔ ماہر مشرق وسطیٰ امور کامران بخاری نے کہا کہ او آئی سی کا اجلاس صرف بیان بازی اور شور شرابا ہے ، اس اجلاس میں سعودی عرب، مصر اور متحدہ عرب امارات نے شرکت نہیں کی، او آئی سی عملی طور پر کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ مسلمان ملکوں میں صلاحیت ہی نہیں ہے، او آئی سی ایک زمانے سے غیرفعال قسم کا ادارہ ہے، امریکا نے القدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان فلسطینی او ر عرب ممالک کو اسرائیل کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کرنے کیلئے کیا ہے تاکہ مسئلہ فلسطین کو کسی سمت لے کر جایا جاسکے، مسلمان ممالک مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں،فی الحال مسلمان ممالک کا اختلافات بھلا کر متحد ہونے کا امکان نظر نہیں آتا ہے۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نے پروگرام میں تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں؟ اسمبلیاں مدت پوری کریں گی یا نہیں؟ حکومت سینیٹ انتخابات سے پہلے گھر چلی جائے گی یا نہیں؟ یہ سوالات آج کل ملکی سیاست میں گونج رہے ہیں، حکومت کو یقین ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے، کم از کم دعوے یہی کیے گئے مگر اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو لگتا ہے کہ اسمبلی مدت پوری نہیں کرے گی، ایک انٹرویو میں انہوں نے اس ساری صورتحال کو مایوس کن بھی قرار دیا اور یہ تک کہہ دیا کہ ایسے معاملات 2002ء میں بھی نہیں دیکھے تھے، ایسا کیا ہورہا ہے جو 2002ء اور 2008ء میں نہیں ہوا، ایسا کیا ہورہا ہے جو ملکی مفاد میں نہیں ہے، گزشتہ دو تین ماہ میں دھرنا بھی ہوا، اس سے پہلے نواز شریف کی نااہلی بھی ہوئی، اب کیا ایسی بات ہے جس سے ایاز صادق کو لگ رہا ہے کہ اسمبلیاں مدت پوری نہیں کریں گی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ القدس کو اسرائیلی دارالحکومت قرار دینے کے امریکی اعلان کے بعد پوری مسلم دنیا میں بے چینی ہے، کہیں احتجاج ہورہا ہے تو کہیں محض مذمتی بیانات ہیں، عرب لیگ کا اجلاس ہوا مذمتی بیان آیا ، پھر سب نے توقعات باندھیں کہ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی سے کوئی سخت ردعمل آئے گا جو تمام مسلم ممالک کی آواز بنے گا، لیکن اس بار بھی وہی ہوا جو گزشتہ اڑتالیس برسوں سے ہورہا ہے، او آئی سی کے اجلاس میں پاکستان سمیت تمام اہم مسلم ممالک سربراہان نے شرکت کی اور پرجوش خطاب کیا مگر تمام ممالک کے سربراہ نہیں آئے۔

تازہ ترین