• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کراچی (تجزیہ: مظہر عباس) جمہوریت کی اپنی خوبیاں اور اپنے چیلنجز ہیں کیونکہ یہ اکثر سوچ تبدیل کرتی ہے اور اس سے غلط فہمیاں ختم ہوتی ہیں۔پچھلے انتخابات تک بہت سی مذہبی انتہا پسند جماعتیں جمہوریت، آئین اور ووٹ کو ’’لبول نظریات‘‘ کا حصہ سمجھتی تھیں ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے رویوں میں تبدیلی آئی ہے اور اب ہم ان میں سے کچھ کو 2018ء کے انتخابات میں دیکھ رہے ہیں اور کم از کم وہ اپنے پیروکاروں کو ووٹ ڈالنے سے نہیں روکیں گی، تاہم کیا اس سے ہمارا معاشرہ مزید برداشت والے جمہوری معاشرے میں تبدیل ہوگا یہ سب کے لئے ایک چیلنج ہے۔مگر جمہوریت کا مطلب اختلاف رائے کو قبول کرنا اور اُن اختلافی آوازوں کے احترام کا بھی نام ہے یعنی ’’دلیل کا جواب دلیل سے‘‘۔ اس بناء پر بڑا چیلنج دوسروں کے حوالے سے رویہ ہے۔یہ بڑی اعتدال پسند جماعتوں کے لئے بھی ایک چیلنج ہوگا۔ انہیں بھی متبادل بیانیہ دینا ہوگا۔ دائیں بازو یا مذہبی جماعتوں پر محض تنقید برائے تنقید سے کچھ حاصل نہ ہوگا اس لئے اہم معاملات پر بحث کے ذریعے تبدیلی پر توجہ دینا ہوگی۔ پاکستان کے آج کے بڑے مسائل بڑھتی ہوئی غربت، بے روزگاری ، کرپشن، معیاری تعلیم، صحت، صاف پانی ، جاگیرداری ، دہشت گردی اور انتہا پسندی ہیں۔ کوئی جماعت چاہے وہ لبرل ہو یا سیکولر، دائیں بازو ہو یا مذہبی، کسی کے پاس اس لعنت کے خاتمے کا کوئی پروگرام نہیں۔اب تک ان کے پروگرام صرف نعروں اور تقاریر تک محدود رہے ہیں۔ ریاست کو بھی ایک کردارادا کرنا ہوتا ہے۔ ۔ کالعدم یا انتہاپسند جماعتوں اور گروپوں کو انتخابات کے ذریعے قومی دھارے میں لانے کی سوچ بری نہیں، مگر اس سے سوچ اور ذہنیت کی تبدیلی میں کوئی مدد ملتی ہے، اسے ابھی دیکھنا ہوگا۔ بہت سوں کا خیال ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) جیسی قومی جماعتوں کی مرکز اور ایم کیو ایم کی سندھ یا بلوچستان اورخیبر پختونخوا میں قوم پرست جماعتوں کی ناکامی سے دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کوموقع ملا ہے کہ وہ قومی سیاست میں آئیں اورجمہوریت ‘ آئین‘ ووٹ اورخواتین کی شرکت کے لبرل تصور کو قبول کریں۔ 2018ء کے انتخابات اس حوالے سے ’’ٹرننگ پوائنٹ‘‘ ہو سکتے ہیں اور وہ ہزاروں افراد جو ماضی میں کسی بھی جماعت یا غیر جمہوری ذہن کے پیروکار ہونے کے ناطے ووٹ نہیں دیتے تھے اب دائیں سے مرکز یا مرکز سے دائیں بازو کی جماعتوں کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کو پنجاب اور کے پی میں بڑے چیلنج کا سامنا ہو سکتا ہے اور یہ پی ٹی آئی کے لئے بھی آسان نہ ہوگا۔ گزشتہ دو انتخابات (2008ء اور2013ء) سے ذہن کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔حتیٰ کہ ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے تحت ہونے والے 2002ء کے انتخابات میں جب خواتین نشستوں کا اضافہ کیا گیا تو جے یو آئی (ف) کو مشکل ہوئی کیونکہ جماعت اسلامی کی طرح ان کا بھی کوئی خواتین ونگ نہیں تھا۔ ریاست کے ساتھ ساتھ جو جماعتیں شدت پسند ذہنیت کو تبدیل کرنے کے لئے کام کرتی رہی ہیں ان میں جمعیت علمائے اسلام( دونوں گروپ) جماعت اسلامی اورجمعیت علماء پاکستان شامل ہیں۔ جن جماعتوں نے ہمیشہ ماضی میں ’’جمہوری سوچ‘‘ کی مخالفت کی ان میں جماعت الدعوۃ ، حزب التحریر ، تحریک نفاذ شریعت محمدی، تنظیم اسلامی، تحریک الامہ شامل ہیں جبکہ مولانا صوفی محمد کی سربراہی میں تحریک نفاذ شریعت محمدی تو آئین کی بھی مخالفت کرتی ہے جبکہ دیگر جماعتیں یہ سمجھتی تھیں کہ جمہوریت کے ذریعے تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ ان جماعتوں کی اکثریت الیکٹرانک میڈیا کی بھی مخالف رہی ہے اور ٹی وی سکرین پر ان کی صرف تصاویر ہی آتی ہیں ۔ آج دو تین کے سوا سب نے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے یا وہ کم از کم اپنے حامیوں کو پولنگ سٹیشنوں پر جانے سے نہیں روکیں گی۔ 2013ء کے انتخابات میں دفاع پاکستان کونسل انتخابات میں حصہ نہ لے سکی کیونکہ اس میں شامل حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ اور مولانا فضل الرحمن خلیل کی انصار الامہ نے اس کی مخالفت کی ، چند سال قبل حافظ سعید نے لچک دکھائی اور ٹی وی پر آنے لگے جبکہ ایک سال قبل جماعت الدعوۃ نے ملی مسلم لیگ کے نام سے سیاسی جماعت بنا کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت الدعوۃاور ایم ایم ایل نے الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہ کئے جانے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے اور اگر اس کی رجسٹریشن نہ کی گئی تو وہ اپنے پیرو کاروں سے کہے گی کہ وہ دفاع پاکستان کونسل کے امیدواروں کو ووٹ دیں۔ باخبر ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ریاستی اداروں کے ساتھ ساتھ جے یو آئی اورجماعت اسلامی نے اس ذہنیت کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا جس کے بعد چند سال قبل ان قوتوں کو قومی سیاسی دھارے میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تاہم کچھ جہادی اور تبلیغی گروپ اپنا نظریہ تبدیل کرنے پر تیار نہیں اور وہ اسے بنیادی اُصولوں کے خلاف سمجھتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کا ’’جہادی بیانیہ‘‘ متاثر ہوگا جس سے افغانستان اورکشمیر میں ان کی جدوجہد پر بھی اثر پڑے گا۔ تحریک لبیک یا رسو ل اللہ یا تحریک لبیک پاکستان کوئی نئی چیز نہیں تاہم ان کا شدت پسندانہ رویہ نیا ہے۔ ماضی میں ان گروپوں کے پیروکار جے یو پی اور سنی تحریک جیسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں اور ماضی میں انہوں نے ووٹ بھی دیئے اور وہ 1980ء میں جہاد افغانستان کی بھی مخالفت کرتے رہے۔ کچھ کاخیال ہے کہ اس اُبھرتی قوت کا مقصد طالبان اور داعش کے عنصر کا مقابلہ ہے جبکہ دیگر سمجھتے ہیں کہ سیاسی طور پر تحریک لبیک اور ایم ایم ایل ، مسلم لیگ (ن) ،کشمیری اور بریلوی ووٹ بینک کو نقصان پہنچائیں گی۔ ماضی میں بہت سے شدت پسند مذہبی گروپ ’’طالبان‘‘ پر یقین رکھتے تھے کہ جیسے افغانستان میں تبدیلی آئی تھی مگر انہوں نے محسوس کیا کہ پاکستان کی اکثریت اس بیانیئے کی مخالف ہے اور ایک یہ وجہ بھی تھی کہ بھرپور یقین کے باوجود لوگ مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں دیتے کیونکہ وہ انہیں فرقے کے حوالے سے دیکھتے ہیں ۔ جمعیت علمائے اسلام اپنے مضبوط تاریخی پس منظر میں ہمیشہ اپنے پتے کھیلتی رہی ہے حتیٰ کہ مولانا مفتی محمود کے دَور میں جے یو آئی نے اپنے اُصولوں پر کوئی سمجھوتہ کئے بغیر لبرل اور سیکولر جماعتوں سے اتحاد کئے۔ 1972ء میں جے یو آئی اور بائیں بازو کی نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) اکٹھے ہوئے اور اس وقت سرحد اور بلوچستان میں اتحادی حکومتیں بنائیں۔ حتیٰ کہ آج بھی مفتی محمود کے صاحبزادے مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں جے یو آئی (ف) کے پی میں تحریک انصاف کے ہاتھوں ملنے والے دھچکوں کے باوجود ایک انتہائی طاقت ور مذہبی جماعت سمجھی جاتی ہے۔اس کے ملک میں سب سے زیادہ مدرسے اور اثر ورسوخ ہے۔ گزشتہ دو تین سالوں میں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے جے یو آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کے قتل کے پیچھے وجوہات کا پتہ چلانے کے لئے کوئی تحقیقات نہیں کی گئیں۔ دو مرتبہ مولانا فضل الرحماں خود کش حملوں میں محفوظ رہے ہیں‘ جے یو آئی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ان کا بیانیہ ہے کہ تبدیلی صرف جمہوریت اور انتخابات سے ہی آ سکتی ہے۔دوسری جانب جماعت اسلامی اپنے بانی مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے دَور سے پاکستان کی انتہائی منظم جماعت ہے مگر یہ اپنی رکنیت کے حوالے سے سخت ضابطہ کے باعث انتخابی محاذ پر آگے نہیں بڑھ سکی۔ قومی و سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ کا ایک گروپ ہمیشہ مرکز سے دائیں یا بائیں سے مرکزیت والا رہا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ ، پاک سر زمین پارٹی حتیٰ کہ قوم پرست جماعتوں کو بھی لبرل پارٹیاں سمجھا جاتا ہے۔2008ء اور 2013ء کے انتخابات سے قبل ان جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد پر شدید بحث رہی اور کچھ جماعتیں ناصرف انتخابات سے دُور رہیں بلکہ اپنے پیرو کاروں کو بھی ووٹ ڈالنے سے روک دیا۔ دائیں بازو اورمذہبی جماعتوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ ’’تقسیم‘‘ ہو جاتی ہیں اور یہ لوگ مذہبی گروہو ںمیں بٹ جاتے ہیں اور قیادت کے معاملے پر بھی ایسا ہوتا ہے حتیٰ کہ ایک ہی فرقہ میں بھی ’’سیاسی کردار ‘‘ اور ’’قیادت‘‘ کے معاملے پر اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ آئندہ چند ماہ میں ہم مذہبی جماعتوں کے تین اُبھرتے گروپ دیکھ رہے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں دفاع پاکستان کونسل پہلے ہی پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا اعلان کرچکی ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی کے امکانات بھی موجود ہیں اور سُنی علماء کونسل بھی فیصلہ سازی میں مصروف ہے۔ خادم حسین رضوی کی سربراہی میں تحریک لبیک نے ابھی فیصلہ نہیں کیا کہ وہ خود اکیلے انتخابات میں حصہ لے گی یا کسی اتحاد کا حصہ بنے گی۔ 2018ء کے انتخابات کے نتائج سے بالاتر ہم یقینی طور پر دائیں بازو کے خاموش انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں مگر اس سے معاشرہ مزید برداشت اور کم انتہا پسند ہو سکے گا یہ سب کے لئے ایک چیلنج ہے۔
تازہ ترین