• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام مسلمانوں کیلئے رہنما مثال ہے

بریڈفورڈ (جنگ نیوز) بریڈفورڈ میں ایک جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا انعقاد کیا گیا جس کی تمام تر کارروائی انگریزی زبان میں کی گئی۔ اس جلسہ کے شاملین کی تعداد تین صد سے زائد تھی جس میں احمدیہ، کرسچین، ہندو، سکھ اور دیگر کمیونٹیز سے تعلق رکھنے والے بہت سارے افراد نے شرکت کی۔ جلسہ میں 143خواتین اور بچیوں نے بھی شرکت کی۔ بلال ایٹکنسن صاحب نے اپنی تقریر میں سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے چند پہلو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک کھلی کتاب کی طرح تھی انہوں نے نہایت ہی سادہ زندگی گزاری جو تمام مسلمانوں کے لئے رہنما مثال ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارمکہ کی طرف سے تمام مشکلات کے باوجود خداتعالیٰ کی توحید کا پیغام پھیلایا، اس زمانے میں کفار کی جانب سے مسلمانوں کو بہت زیادہ تکالیف دی گئیں اور مسلمانوں کو دین اسلام چھوڑنے پر مجبور کیا جاتا تھا لیکن انہوں نے ثابت قدم رہتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ دین اسلام کی خاطر اپنی جانیں بھی قربان کیں۔ جلسہ کے مہمان خصوصی عطاء المجیب راشد صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ اگر میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو پیدا نہ کرنا ہوتا تو میں یہ کائنات ہی نہ بناتا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا بھر کے لئے امن کے پیامبر تھے۔ مقرر نے مزید کہا کہ غیرمسلم یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا جب کہ اسلام تو نام ہی پیار محبت اور امن کا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح بادشاہ کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو دشمنان اسلام خوف زدہ تھے اور چھپتے پھر رہے تھے اس وقت اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو انصاف کے تقاضوں کے تحت مسلمانوں کو شہید کرنے والے کفار کو جان سے مارنے کی سزائیں دے سکتے تھے لیکن انہوں نے سب کو معافی دے کر دشمنوں سے حسن سلوک کا رہتی دنیا تک ایک عظیم مثالی نمونہ پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام زندگی ایک پرامن معاشرے کے قیام کے لئے جدوجہد میں گزاری۔ آج اگر دنیا کے لیڈرز امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے امن کی کوششیں کرنی ہوں گی۔ تقاریر کے بعد حاضرین جلسہ کو سوالات کا موقع بھی دیا گیا۔ آخر میں مہمانوں کی تواضع کھانے سے کی گئی۔ اس دوران شرکاء ایک دوسرے سے جلسہ کی تقاریر سے متعلق اور حسن انتظام کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کرتے رہے۔
تازہ ترین