• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الفاظ ومعافی سے اگرچہ کسی حد تک نسبتیں ضرور ہیں مگر اس کے باوجود خود کو اس حالت میں کبھی نہیں پایا۔ اتنا ضرور ہوا کہ کبھی کھبار کسی تحریر کے دوران الفاظ کے انتخاب میں کشمکش ضرور ہوئی مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ آپ کو اظہار کیلئے الفاظ نہ ملیں۔ الفاظ ملتے بھی تو انہیں کیسے استعمال کرتا کیوں کہ آج میرے والد محترم (اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) کی پہلی برسی ہے۔ آج انہیں ہم سے بچھڑے پورا ایک سال ہوگیا ہے۔ ایسے موقعوں پر عمومی طورپر یہ کہا جاتا ہے کہ وقت پلک جھپکتے ہی گزر گیا لیکن یہاں صورتحال قدرے مختلف ہے۔ والدمحترم کی عدم موجودگی میں گویا وقت رک سا گیا ہے زندگی کے شب وروز گزر تو رہے ہیں لیکن بہت اداس اور بیقرار گزررہے ہیں۔ میرے والد میرے لئے سب کچھ تھے۔ میں اور میری اوقات کیا ہم کس طرح اپنی اس عظیم ہستی کی عظمت کا اعتراف کریں۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ ان کی عدم موجودگی میں احساس یتیمی روز بروز شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ آہ ماہ دسمبر کے یہی وہ دن تھے جب یہ روح فرساخبر سننے کو ملتی ہے کہ وہ مہربان ہستی وہ سائباں نہ رہا جس کے سائے تلے ہمیں زندگی کی کسی محرومی کااحساس نہیں تھا۔ وہ اپنی عمر کے پچھتر کے پیٹے میں تھے کسی حد تک صحت مند البتہ کبھی کھبار گھٹنوں میں درد کی شکایت رہتی تھی لیکن خبر نہ تھی کہ یہ سانحہ اتنا جلدی ہوجائے گا میں اس دوران وطن عزیز میں کم وبیش تین ہفتے گزارنے کے بعد یہاں پہنچا تھا لیکن میرے آنے کے چند دن بعد انہیں فالج کا شدید حملہ اور بعدازاں دماغ کی شریان پھٹ جانے سے وہ جانبرنہ ہوسکے۔ ابا جان پاک فوج میں تیس سال ملازم رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے بھرپور زندگی گزاری، فوج کی ملازمت کے دوران جو نظم وضبط حاصل ہوا اسے زندگی کے باقی ایام پر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن عمومی طورپر ہمارا معاشرہ کئی تضادات کا مجموعہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اس قسم کے نظم ونسق کو لاگو کرنے کی کوشش کی، کئی مشکلات بھی پیش آئیں، والد محترم کو ابھی فوج میں بمشکل چھ سات سال ہی ہوئے تھے کہ ہمارے علاقے کے لوگ برطانیہ کیلئے عازم سفر ہوئے، مگر ایجنٹوں کی کارستانیوں اور راستے میں اسباب راہ ختم ہوجانے کے باعث کئی دن ترکی میں بے یارو مددگار رہنے کے بعد واپس گھر پہنچے اور دوبارہ سلسلہ شروع کیا۔ ایک ہمارے والد فوج میں معمولی سے عہدے پر فائز تھے اور ایک سپاہی کی تنخواہ ہوتی ہی کتنی ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے رزق حلال سے ہم بہن بھائیوں کی پرورش کی، اب اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم وفضل ہے کہ ہم دو بھائی یہاں جبکہ دوسرے دو بھائی دوبئی میں بسلسلہ ملازمت مقیم ہیں۔ گھر کے مالی حالات الحمد اللہ کسی حد تک سنبھل چکے ہیں لیکن ایک افسوس اور تاسف ہے کہ جب ان کی خدمت کرنے کی باری آئی تو وہ چل بسے، جیسے پہلے عرض کیا وہ کوئی رئیس نہ تھے لیکن میرے لئے سب کچھ تھے ایک مرتبہ گرمیوں کی تعطیلات کے دوران انہوں نے مجھ سے کہا کہ اپنے ایک رشتہ دار کو خط لکھوں اس حکم کی بجا آوری میں قدرے ہچکچایا کہ کہیں کوئی غلطی نہ کربیٹھوں میری کیفیت دیکھ کر بولے اطمینان سے لکھو تم جملے اچھے بنالیتےہو اس بات کو کم و بیش پچیس سال سے زائد ہوگئے ہیں مگر ان کی طرف سے حوصلہ افزائی کا یہ جملہ آج قدم قدم پر احساس خود اعتمادی بڑھا دیتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس دن اگر وہ ڈانٹ دیتے تو شاید قلم و قرطاس سے یہ رشتہ کبھی نہ طور چڑھتا، ابا جان تک جب حیات رہے پردیس میں ہم بھائی مطمئن رہے کہ ابا جان گھر پر ہیں  یوں گائوں محلے میں شادی غمی کی ہر تقریب میں نمائندگی ہو جاتی تھی، لیکن اب تو یہ احساس شدت اختیار کرجاتا ہے کہ اپنے بچوں کی سلامتی کی دعائیں مانگنے والی وہ آواز اب خاموش ہوچکی ہے۔ اس موقع پر غم کی جو کیفیت طاری ہوتی ہے اسے محسوس تو کیاجاسکتا ہے مگر احاطہ تحریر میں لانے کی سکت نہیں۔
الحمد اللہ والدہ ماجدہ ابھی حیات ہیں وہ بھی عارضہ قلب میں مبتلا ہیں، ایک عظیم ہستی کھودینے کے بعد دل سے یہ دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالی یہ سایہ دراز رکھنا۔ اس موقع پر سید ضمیر جعفری کا یہ شعر دعائیہ صورت میں یاد آیا کہ
رحمتیں خدا کی ہیں صورتیں بزرگوں کی
ان سفید بالوں سے سارا گھر چمکتا ہے
بالخصوص گزشتہ چند برسوں میں اپنے خاندان کی کئی قابل قدر ہستیوں کو کھودینے کے بعد اب تو خوف خزاں دل کو سخت پریشان رکھتا ہے۔ المختصر میرے والد کوئی بڑے مذہبی سماجی یا سیاسی رہنما یا پھر معاشرے کی کسی نمایاں حیثیت ومرتبہ کے مالک بھی نہ تھے۔ اول وآخر ایک باپ تھے اور وہ بھی بہت زیادہ پیاروشفقت کرنے والے باپ، البتہ ایک سپاہی تھے پہلے دفاع وطن کے لئے اور بعدازاں ریٹائرمنٹ معاشرے کی اخلاقی وسماجی اقدار پر پہرہ دیا اس موقع پر ہم ولایتی بیٹوں کا المیہ ملاحظہ فرمائیے کہ کبھی کھبار اس قسم کی ناگہانی صورتحال میں ہم بروقت وہاں پہنچ کر اپنی ان عظیم ہستیوں کی اپنے ہاتھوں سے تجہیز وتکفین کرتےہیں اور کبھی کبھار برطانیہ کے صنعت گزیدہ ماحول ومعاشرےاس قدر جکڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ایسے موقعوں سے محروم رہ کر عمر بھر افسوس اور اپنی خرابی قسمت کو کوستے رہتے ہیں۔

تازہ ترین