• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری،پارلیمان ایک مرتبہ پھر بازیچہ اطفال بن کر رہ گئی

اسلام آباد (محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار) پارلیمان ایک مرتبہ پھر بازیچہ اطفال بن کر رہ گئی ہے بدھ کو قومی اسمبلی کی نشست اپنے پانچویں دن بھی کورم کی نشاندہی پر ملتوی کردی گئی اور اس سے پہلے مسند نشین اسپیکر سردار ایاز صادق کی استدعا کے باوجود حزب اختلاف کے ارکان نے قبائلی علاقوں کے لئے اصلاحات کے قانون کے سوال پر نہ صرف اجلاس سے واک آئوٹ کیا بلکہ کورم کی نشاندہی کرکےا جلاس کا جاری رہنا ناممکن بنادیا۔ یہی نہیں حزب اختلاف کی قیادت نے واشگاف طور پر بتادیا کہ وہ زیر تذکرہ قانون کو ایوان میں لائے جانے تک اپنا احتجاج جاری رکھے گی اور کارروائی کا حصہ نہیں بنے گی اب جبکہ جمعۃ المبارک کو قومی اسمبلی کے پچاسویں اجلاس کا پہلا ہفتہ پورا ہوجائے گا یہ ایک دن بھی اپنے ایجنڈے کو نمٹانے میں ناکام رہی ہے آغاز کار میں حکومتی ارکان واجبی تعدادمیں ایوان میں موجود تھے تاہم یہ تعداد اس قدر نہیں تھی کہ وہ کارروائی جاری رکھنے کے لئے کورم کو برقرار رکھ سکتے اس طرح اجلاس کا جاری رہنا اور ایجنڈے کے امور کو نمٹانا حزب اختلاف کی رحم و کرم پر چلا گیا۔ اس سلسلے میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ جنہوں نے چند ماہ سے حکومت اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنے کے مقابلے میں آگے سے آگے جانے کا ارادہ باندھ رکھا ہے دعویٰ کرتےآئے ہیں کہ وہ جمہوریت کو حرزجاں بنا کر رکھتے ہیں اور پارلیمان کا تقدس و حترام انہیں بہت عزیز ہے۔ اب وہ بھی پارلیمان کی بے حمیتی میں حصہ دار بن گئے ہیں۔ اسی دوران قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق جنہیں ہمیشہ امید افزائی سے سرشار پایا گیا ہے جس لہجے میں گفتگو کررہے ہیں وہ نہ صرف مایوس کن ہے بلکہ اس سے یہ مترشح کرنے میں آسانی ہورہی ہے کہ جمہوری نظام کو قرار واقعی طور پر سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بدھ کی شب جس لہجے میں متنبہ کیا ہے کہ وہ ایسی باتیں سن رہے ہیں اور ایسا ہوتا دیکھ رہے ہیں جس کا گزشتہ دو دھائیوں میں مشاہدہ نہیں ہوا وہ یہ بتانے سے اجتناب برت رہے ہیں کہ انہیں کس طرح کا منظر ابھرتے دکھائی دے رہاہے تاہم جب وہی کہہ رہے ہیں توا ن کی بات میں یقیناً بہت دم ہے وہ حددرجہ سنجیدہ اور معاملہ فہم شخصیت ہیں۔ اپنے منصب کی وجہ سے سردار ایاز صادق نے کبھی کھل کر حکومتی اقدامات کےبارے میں کوئی تبصرہ آرائی نہیں کی تاہم وہ متعلقین کو ہمیشہ صائب رائے سے نوازتے رہے ہیں ان کی باتوں کو بسا اوقات تسلیم نہیں کیا جاتا رہا اور نتیجہ بھی اچھا برآمد نہ ہوااب جبکہ وہ صاف طور پر اشارہ دے رہے ہیں کہ معاملات اس سمت میں بڑھ رہے ہیں جہاں پورا نظام ہے معرض خطر میں ہے تو پھر ان تمام سیاسی اور جمہوری قوتوں پر لازم ہے کہ وہ سرجوڑ کر بیٹھیں اور اس امر کااہتمام کریں کہ جموری نظام کسی حادثے سے دوچار ہونے سے بچ جائے۔ اس وقت قومی منظر جس عدم استحکام کی نشاندہی کررہاہے اور حالات جس تیز رفتاری کے ساتھ ابتری کی جانب گامزن ہیں و ہ ملک کو کسی اچھے رخ پر ہرگز نہیں لے جارہے۔ عام انتخابات محض پچاس ہفتوں کی دوری پر ہیں کہ یکایک معیشت زبوں حالی کا شکار ہورہی ہے روپے کی قدر میں زوال آگیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان آویزش نئی بلندیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ معاشرتی تقسیم نئی دھاروں پر استوار ہورہی ہے مذہبی اور مسلکی اختلاف نئی عداوتوں اور دشمنیوں کی بنیاد بن ر ہاہے، دہشت گردی ایک مرتبہ پھر سر اٹھا رہی ہے، کراچی کا امن جس نے امید کے چراغ روشن کئے تھے باردگر غارت ہوتے دکھائی دے رہا ہے یہی نہیں عوام میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہاہے اورخود اعتمادی ختم ہورہی ہے یہ درست ہے کہ ایسے سماجی چلن میں عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے تو وہ خوش کن نتائج کا باعث نہیں بنے گا لیکن یہ تو ممکن ہے کہ ان رجحانات پر غلبہ پانے کے لئے تدابیر کی جائیں۔
تازہ ترین