• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سچ ہے کہ جب کوئی ملک کسی دوسرے ملک کی کرنسی پر کنٹرول حاصل کر لیتا ہے تو بڑے پوشیدہ طریقے سے اس ملک کی معیشت، صنعت، تجارت اور دولت پر حاوی ہو جاتا ہے، دنیا میں امریکی حاکمیت کی اصل وجہ اس کی فوجی طاقت نہیں اس کی معاشی قوت ، ڈالر ہے۔ آج دنیا میں تجارت، بالخصوص ممالک کے درمیان، ڈالر میں ہوتی ہے اورامریکی معیشت کو مضبوط تر کرتی چلی جاتی ہے۔ ڈالر کی اسی اہمیت کے باعث، اس کی قیمت میں کمی بیشی دنیا بھر کی معاشی سرگرمیوں میں بھونچال لے آتی ہے۔ جیسا کہ اس وقت پاکستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ تین دن میں سات روپے کے ریکارڈ اضافے کے ساتھ انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت 112روپے تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث بھی پاکستان میں شدید مہنگائی کا خدشہ ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا موقف ہے کہ ڈالر میں اضافہ ملکی معاشی اشاریوںکا عکاس ہے، ایکسچینج ریٹ میں تبدیلی ادائیگیوں کے عدم توازن کو روکے گی تاہم سٹے بازی یا وقتی دبائو کو قابو کرنے کیلئے اسٹیٹ بینک مداخلت کرسکتا ہے۔ ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا بڑھنا ناگزیر ہے ۔ مہنگائی کے اثرات اشیائے خورونوش پر بھی مرتب ہوں گے اور مختلف درآمدی اشیا 8سے 20فیصد تک مہنگی ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کے حوالے سے کچھ دنوں سے یہ بحث جاری تھی ایک نقطہ نظر یہ تھاکہ ڈالر اور روپے کے تبادلے کا یہ عمل غیر حقیقی ہے، اسٹیٹ بینک نے جان بوجھ کر ایسا کیا کہ آزاد معیشت برقرار رہے، معاشی معاملات چلتے رہیں تاوقتیکہ ڈالر کی قیمت میں کمی آجائے۔ تاہم ایک رائے یہ سامنے آئی کہ اگریہی عمل چند روزبھی برقرار رہا تو برآمدات، جو پہلے ہی ناکافی ہیں، کو ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے، پاکستان کو برآمدات کے باوجود زرمبادلہ کے حصول میں کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جو معیشت کو مزید متزلزل کر کے رکھ دے گا۔ کرنسی کے عدم استحکام سے پاکستان پر واجب الادا قرضے اس قدر بڑھ جائیں گے کہ ان کی ادائیگی کیلئے مزید مہنگے قرضے حاصل کرنا پڑیں گے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے کے باعث پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 400ارب روپے بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ہر برآمدی شے لامحالہ گرانی کا شکار ہو جاتی ہے، تشویشناک امر یہ ہے کہ ہماری درآمدات، برآمدات سے کہیں زیادہ ہیں اور ہمیں ہمیشہ تجارتی ،خسارے کا سامنا بھی رہتا ہے، دریں صورت ڈالر کی قیمت بڑھنے سے قبل کئے گئے درآمدات کے معاہدوں کی ادائیگی بھی ڈالر میں کرنا ہوگی، جو ایک اضافی بوجھ ہوگا۔ پٹرول سے لیکر چائے اور کاسمیٹکس سے لیکر دیگر سامان تعیش تک جو ہم درآمد کرتے ہیں، سب مہنگا ہوگا۔ قصہ مختصر ڈالر اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہمیں مہنگائی کی کھائی میں پھینکنے کا سبب بنتا ہے، ضرورت کی کم و بیش ہر شے مہنگی ہو جاتی ہے اور پھر کبھی سستی نہیں ہوتی۔ مذکورہ بالا دونوں نقطہ ہائے نظر میں کون سا درست ہے اور کون سا نہیں۔ قطع نظر اس بحث کے ان دونوں کو تبدیل کیا جانا چاہئے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی قیمت کو جیسے تیسے برقرار رکھا تھا تاکہ آزاد معیشت کے سفر میں رکاوٹ نہ آئے اور یہ آزاد معیشت کے اعتبار سے ایک حقیقت پسندانہ اقدام بھی قرار دیا جاتا ہے، الغرض ڈالر کی قیمت میں حالیہ ریکارڈ اضافہ ملکی معیشت کی ہچکولے کھاتی نیا کو بیچ بھنور لے آئے گا، ایک ایسا معاشی بحران پیدا ہونے کا احتمال رد نہیں کیا جاسکتا جس پر قابو پانا حکومت کیلئے مشکل ترین ہدف بن جائے۔ اطلاعات ہیںکہ یہ سب کچھ آئی ایم ایف کی ہدایات پر کیا گیا ہے اور ایسے عالمی مالیاتی اداروں سے کچھ بعید بھی نہیں کہ یہ اپنے مقروض ملکوں سے ایسا سلوک کرتے رہتے ہیں۔ اس سے قبل کہ صورت حال خراب ہو اور پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کا اندیشہ ہو حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینی چاہئے، اسٹیٹ بینک کو مداخلت کرتے ہوئے معاملات کی درستی کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ حکومت، وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک فوری طور پر ان حالات سے نکلنے کے اقدامات کرے کہ پاکستان معاشی بحران کا کسی طور متحمل نہیں ہوسکتا۔

تازہ ترین