• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بار بار کمی پاکستانی کی صنعت و تجارت کیلئے بہت تشویش ناک ہے۔ آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں کے تحت ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مزید کم کرنے سے درآمدی اشیاء کی قیمت میں ہونیوالا اضافہ، مقامی صنعتی اور زرعی پیداوار کی قیمتوں میں اضافے کا سبب بھی بنے گا۔ کہا جارہا ہے کہ کرنسی کی قیمت گرانے سے ایکسپورٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ فارمولہ ان ملکوں کیلئے ٹھیک ہوسکتا ہے جہاںایکسپورٹ کی جانیوالی اشیاء کی بھرپور پیداوار ہورہی ہو اور بین الاقوامی منڈیوں میں ان کی خوب مانگ ہو۔ پاکستان کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ اندرونِ ملک پیداواری لاگت مسلسل بڑھتے رہنے سے روپے کی قیمت کم کرنے کا کوئی خاص فائدہ ایکسپورٹ کو نہیں پہنچے گا۔ ہاںتیل اور دیگر لازمی ضروریات کی اشیاء کے پاکستان میں نرخ بڑھ جائیں گے۔ ایسے میں ایکسپورٹر بے چارہ کیا کرپائے گا؟
پاکستان کی معیشت کے لئے 2017ء کا سال کئی لحاظ سے برا ثابت ہو رہا ہے۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں فرق پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ملک پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ معیشت کو محفوظ بنانے کے لئے اصلاحی اقدامات اور حقیقت پسندانہ حکمت عملیاں بنانے کے بجائے معیشت کے ذمہ دار لاتعلق یا بے بس نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ روپے کی قدر میں کمی سے خوش بھی ہورہے ہیں۔ مالیاتی منتظمین کی ترجیح یہ معلوم ہوتی ہے کہ اخراجات پورے کرتے رہنے کے لئے وسائل بیرونِ ملک سے کسی بھی طرح اور کسی بھی قیمت پر حاصل کیے جاتے رہیں، چنانچہ ایک طرف تو مزید قرض کے لئے کئی مالیاتی اداروں کی طرف دست سوال دراز کیا جارہا ہے، دوسری طرف ڈالرز کے حصول کے لئے زیادہ شرح منافع پر سکوک اور یورو بانڈز جاری کیے گئے ہیں۔ ان بانڈز سے حاصل ہونے والے ڈالرز محض عارضی ریلیف دیں گے لیکن یہ بانڈز مستقبل قریب میں ملکی وسائل پر شدید دباؤ کا سبب بنیں گے۔ گزشتہ قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لئے اس وقت بھی وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک کے پاس قوم کے لئے اطمینان بخش خبریں نہیں ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ ہمارے کسانوں، باغبانوں اور گلّہ بانوں کی انتھک محنت کی وجہ سے پاکستان میں گندم، کپاس، گنے، کئی اقسام کی دالوں، سبزیوں۔ پھلوں میں آم، کیلا، سیب، انگور ، موسمی، کینو، انار اور دیگر پھلوں اور گوشت اور دودھ کی پیداوار وافر مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔ کچھ حکومتی پالیسیوں اور بعض سرکاری اہل کاروں کی جانب سے قوانین و ضابطوں کی من مانی تشریحات کی وجہ سے ہونے والی کئی رکاوٹوں کے باوجود پرائیویٹ سیکٹر نے پاکستان کو مضبوط صنعتی بنیاد فراہم کرنے میں بہت اچھا کردار ادا کیا۔ پاکستان کے پاس انتہائی جفاکش افرادی قوت موجود ہے۔ کئی اجناس میں خود کفیل بلکہ فاضل پیداوار دینے والا اور ٹیکسٹائل، لیدر، اسپورٹس کے سامان، سرجیکل گڈز اور دیگر کئی مصنوعات بنانے والاملک پاکستان صرف زراعت و صنعت میں ہی نہیں بلکہ دیگر کئی شعبوں میں دنیا کے کئی ملکوں سے آگے ہے۔ معیاری تعلیم کی کمی کے باوجود ملک کو اور دنیا بھر کو کئی شعبوں میں بہترین پروفیشنلز دیئے۔ غرض علم ہو یا فن، زراعت ہویا صنعت، ارض ِ وطن میں قدرتی وسائل کی بات ہو یا افرادی قوت کی، اللہ کے خصوصی انعامات پاکستان میں ہر شعبے میں بآسانی نظر آتے ہیں۔
ان سب وسائل کے ہوتے ہوئے پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور قوم پر قرضوں میں تیزی سے اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟
قارئین کو یاد دلاتا چلوں کہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد 1972ء میں ایک امریکی ڈالر تقریباً8 روپے کے برابر تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں ڈالر کی قیمت 9.90روپے تک رہی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈالر 9.90سے بڑھ کر 1988میں 18 روپے ہوگیا تھا۔ اس کے دس سال بعد یعنی 1998ء میں ڈالر کی قیمت 45.09روپے تھی۔ اس دوران ملک پر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف برسرِ اقتدار رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ڈالر کی انتہائی قیمت66روپے تک رہی۔ اس کے بعد پہلے پیپلز پارٹی اور پھر پاکستان مسلم لیگ ن کے ادوارِ حکومت میں گزشتہ تقریباً دس سال میں ڈالر کی قیمت 66روپے سے بڑھ کر 108روپے تک جا پہنچی ہے۔
ڈالر اور دیگر غیر ملکی کرنسیوں کے سامنے پاکستانی روپے کو استحکام دلانا مرکزی حکومت اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ افسوس کہ منتخب حکومت ہوتے ہوئے، اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور دیگر کئی اداروں کی موجودگی میں بھی کرنسی مارکیٹ، رئیل اسٹیٹ اور اسٹاک مارکیٹ میں سٹے باز داؤ چلانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اپنے ووٹوں سے سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے ایوانوں میں بٹھانے والے عوام نا اہل اور بدعنوان عناصر کے سامنے بے بس اور محرومی کی تصویر بنے رہتے ہیں۔ پتہ نہیں کہ انتخابات ووٹ دینےوالوں کے حالات بدلنے کا ذریعہ کب بنیں گے۔ابھی تک تو انتخابات صرف ان لوگوں کی راحت کا ذریعہ بن رہے ہیں جو ووٹ لیتے رہے ہیں۔
سیّد مسعود احمد برکاتی
بچوں سے محبت کرنے والے، قوم کا مستقبل سنوارنے کے لئے فکرمند اور مسلسل چھ دہائیوں تک مصروفِ عمل، ایک بہت وضع دار، انتہائی نفیس، مخلص، خدا ترس انسان، سیّد مسعود احمد برکاتی 87برس کی عمر میں کراچی میں انتقال کرگئے۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون
سیّد مسعود احمد برکاتی کی رحلت سے ایک دور تمام اور ایک عہد (وعدہ) پورا ہوا۔ آپ نے بیسویں اور اکیسویں صدی میں اردو زبان میں بچوں کے ادب کی شاندار اور بے مثال خدمت کی، ایک جید عالم ِدین حضرت برکات احمد ؒ آپ کے دادا تھے، مسعود برکاتی بچپن سے ہی علم، ادب و صحافت کا ذوق و شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے محض پندرہ برس کی عمر میں اپنے دادا کے نام پر ایک قلمی رسالہ البرکات جاری کیا۔ سولہ برس کی عمر میں انجمن ترقی اردو کے رسالے معاشیات میں مضامین لکھے، جنہیں بابائے اردو مولوی عبدالحق نے بھی پسند فرمایا۔ 1952ء میں آپ کی ملاقات حکیم محمد سعید سے ہوئی۔ یہ ملاقات انتہائی مخلصانہ تعلق میں بدل گئی۔ 1953ء میں بچوں کے رسالے ہمدرد نونہال کے اجراء پر مسعود احمدبرکاتی اس کے ایڈیٹر بنے اور زندگی کے آخری ایام میں جب تک صحت نے اجازت دی یہ ذمہ داری انتہائی احسن انداز میں نبھاتے رہے۔ مسعود احمد برکاتی اقوامِ متحدہ کے ادارے UNESCO کے رسالے Courierکے اردو ایڈیشن ’’پیامی‘‘ کے شریک مدیر بھی رہے۔ آپ کئی کہانیوں کے مصنف، مؤلف اور مترجم بھی تھے۔ ان کی گرانقدر اور مسلسل خدمات کے اعتراف میں آل پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (APNS) کی جرائد کمیٹی نے 2مارچ 1996ء میں انہیں ایک پرشکوہ تقریب میں نشانِ سپاس اور 2012ء میںAPNSلائف اچیومنٹ ایوارڈ پیش کیا۔ سیّد مسعود احمد برکاتی پاکستان کے نہایت محترم طبیب محمود احمد برکاتی کے چھوٹے بھائی، جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر سہیل برکاتی، معروف اطباء حکیم مختار برکاتی اور حکیم مجاہد برکاتی کے چچا تھے۔

تازہ ترین