• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمانی کمیٹی فیض آباد دھرنے کی تحقیقات کرے

Todays Print

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) ایوان بالا میں سینیٹرز فرحت اللہ بابر، سعید مندوخیل اور سحر کامران کی منظور شدہ تحریک جس میں فیض آباد میں حالیہ ہونے والے دھرنے کو ختم کرنے کے طریقہ کار اور بعد میں پیدا ہونے والی صورتحال پر بحث کرنے کو کہا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے بحث کاآغاز کرتے ہوئے کہا کہ 22 دن تک اسلام آباد یرغمال رہا،دفاتر میں لوگ اور بچے سکول نہ جاسکے پولیس نے انہیں کیوں نہ روکا وزیر داخلہ نے کہا تھا کہ یہ دھرنا ختم کرنا 3 گھنٹے کا کام ہے پھر 22 دن تک کیوں یہ دھرنا جاری رہا۔سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ25 نومبر کو ایک دستاویز پر دستخط ہوئے یہ بدقسمت دن تھا جس دن ایک آئین ختم ہوگیااس دن کے بعد پاکستان پاکستان نہ رہا جو اس سے پہلے تھا چند سو چند ہزار لوگ کسی وقت آکر ڈنڈے اور ہتھیار لیکر ریاست اور آئینی اداروں کو یرغمال بناسکتے ہیں۔ کیا یہ کس کے اشاروں پر ہو رہا ہے۔ کہا گیا کہ دونوں طرف سے صبروتحمل کا مظاہرہ کیا جائے اپنے لوگوں پر گولی نہیں چلائی جائے گی یہ واضح اعلان تھا کہ دونوں ادارے برابر کے ہیں، غیر آئینی اور غیر قانونی حکم ماننے سے انکار کیا گیا تھا اپنے لوگوں پر تشدد نہیں ہوسکتا میری دعا یہ ہے کہ اوکاڑہ فارمزمیں اور جیلوں میں بھی تشدد نہ ہو وہ بھی پاکستانی تھے ۔فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہئے ان لوگوں کو ٹی اے ڈی اے کس کے کہنے پر دیا گیا۔انہوں نے عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کی جانب سے تشدد کئے بغیر آپریشن ردالفساد جیسا کوئی آپریشن نہیں کیا جاسکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کرائی جائیں کہ یہ احتجاج کرنے والے لاہور سے کس طرح بلا روک ٹوک اسلام آباد آگئے۔ پاکستان تحریک انصاف کےسینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ 25 نومبر کا واقعہ جمہوری حکومت کیلئے اورپارلیمنٹ کیلئے ایک المیہ تھا ۔ختم نبوت ایمان سے زیادہ اہم ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ ہماری جماعت پُرامن ہے حکومت ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرے،معاہدہ وزیر داخلہ نے کرایا جسٹس شوکت عزیز صدیقی نےفریقین کے ذریعے ثالثی پر برہمی کا اظہار کیا ان کے ریمارکس پڑھے جائیں۔ یہ دھرنا ایک پلان کے تحت لاہور سے اسلام آباد آ یا، اس دھرنے میں آپریشن کے دوران پنجاب پولیس نے تعاون نہیں کیا کس کی ہدایت پر نہ کیا یہ اہم سوال ہے۔ بیت المقدس پر نہیں بولتے آئین اور حکومت کے خلاف ردعمل ہے اس پر پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی بنائی جائے۔دریں اثناءایوان بالا میں چیئرمین استحقاق کمیٹی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سینیٹرڈاکٹرجہانزیب جمال دینی نے پیپلز پارٹی کے سینیٹرمظفرحسین شاہ کی جانب سے چیئرمین سی ڈی اے کے خلاف تحریک استحقاق پیش کرنے پرکمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔اس حوالے سے ڈاکٹرجہانزیب جمال دینی نے بتایاکہ اسی معاملے کو ایوان بالا نے اٹھایاجس کی وجہ سے14سوایکٹرزمین زرعی ریسرچ سینٹرکوملی۔چیئرمین سینٹ میاں رضاربانی نے کہا کہ یہ کامیابی پورے ہائوس کی ہے۔14سوایکڑ زمین کامعاملہ تھا جس کوکامیابی سے تحفظ دیا ۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ریاست اور حکومت کے سرنڈر کے معاہدے پر دستخط کئے گئے ، اس کی تحقیق ہونی چاہیے، پھر معاہدے کی ضمانت بھی دی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی کے بیان پر تشویش ہوگی، ان کے گریٹر پلان کے حوالے سے بیان کے مضمرات بڑے ہیں، دھرنے کے دوران پولیس کی کارکردگی پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔غیر مسلح پولیس کو مسلح جتھے میں بھیجا گیا اور پھر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش نہیں کیا گیا، قومی سرنڈر پر بہت دکھ ہو رہا ہے لیکن دھرنے دینے والے اس معاملے پر خاموش ہیں، دھرنے کے پیچھے خفیہ ایجنڈا تھا، پولیس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔پارلیمنٹ اور ایگزیکٹو کی طاقت کو اداروں نے تجاوز کیا، تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمیشن بنایا جائےخیبر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے جو کچھ عدالت کے جج نے کہا وہ پڑھ کر سنایا۔ انہوں نےکہا کہ دھرنا پلان کے تحت لاہور سے اسلام آباد آیا، تین چار سال کےلئےٹیکنوکریٹ حکومت یا مارشل لاءکا پلان تھا اور ہے۔ ردالفساد کے تحت دشمن ملک کے خلاف ایف 16 استعمال ایک دھرنا ہوا تھا جس میں پارلیمان اور سرکاری ٹی وی پر حملہ کیا گیا۔ پولیس والوں کے ساتھ تب بھی کوئی نہیں کھڑا ہوا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے جو کہا وہ ہمارے جذبات کی ترجمانی ہے۔ فیض آباد دھرنے والوں کو کہاں سے حمایت ملی،کہاں سے ان کے کھانے آئے، کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ لوگوں کو دکھایا کچھ اور جا رہا ہے اصل ایجنڈا کچھ اور ہے۔ ارکان پارلیمان کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ اسلام آباد پولیس کو اس کے بہترین کام پرشاباش دیتے ہیں۔ ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئے۔ پارلیمانی کمیشن بنناچاہئے جو دھرنے کی تحقیقات کرے۔تحریک انصاف کے سینیٹر جونز کینتھ ولیم نےکہا کہ پوری دنیا ہمارے پیچھے پڑی ہے۔یہ فوج بھی ہماری ہے اور لوگ بھی ہمارے ہیں ۔جو کہتے ہیں ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں، وہ دشمن کی زبان بولتے ہیں۔حکومتی سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ نواز شریف کو ہٹانے سے پاکستان کمزور ہو گیا ہے۔ معیشت کمزور ہو گئی ہے۔ ریاست کے اندر ریاست پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اے این پی کے سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ مذہب اور قومیت کی بنیاد پر دشمن ہمیں لڑا رہے ہیں، ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سےہمسایہ ملک ہم سے خوش نہیں۔ کیا سرونٹ کا یہ رویہ ہوتا ہے، کسی بھی ادارے کی تذلیل ہم سب کی تذلیل ہے، عوام کواس پارلیمان سے کچھ نہیں ملا۔ سینیٹر اے رحمان ملک نے کہا کہ آج مایوسی پھیلی ہوئی ہے، دھرنے بھی دہشت گردی کی ایک قسم ہیں، دھرنا بھی وہی کام کرتا ہے جو دہشت گردی کرتی ہے۔ ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو دھرنےکی تحقیقات کرے۔ سینیٹر اعظم خان موسیٰ خیل نے کہا کہ عدالت نے اچھی تجویز دی ہے کہ اگر سیاست کا شوق ہے تو نوکری چھوڑ دیں، ملک کوسیاستدانوں نے ہمیشہ سنبھالا ہے۔ دھرنوں کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہئے۔ نگہت مرزا نے کہ کہ اسپیکر قومی اسمبلی کےانٹرویو نے سب کے ہاتھ پاؤں پُھلا دیئے ہیں۔ کھیل کھیلنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔پاکستان مسلم لیگ ق کی سینیٹر روبینہ عرفان نے کہا کہ حکومت ناکام ہو گئی ہے، ہمیں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔ صورتحال کا الزام دوسروں پر نہیں لگانا چاہئے۔حکومتی سینیٹر غوث بخش نیازی نے کہا کہ مذہب کودھرنے کے لئے استعمال کیا گیا، مذہب کے معاملے میں احتیاط سے کام لیناہوتا ہے جس کا حکومت نے مظاہرہ کیا۔ سینٹر اعتزازاحسن نے کہا کہ موجودہ دھرنا کا انداز نیا تھا، جذباتی معاملہ پر دھرنا دیا گیا، ختم نبوتﷺ کے معاملے پر ہر مسلمان جذباتی ہو جاتا ہے، فیض آباد دھرنا انفرادی اس لئے تھا اس میں بہت ساری پردے آشکار ہوئے، زبان کی شیرینی عیاں ہوئی، دھرنے نے بہت سارے پردے کھولے اور چہرے بے نقاب کئے، حکومت کی اس دلیل کی سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے، حکومت بتائے کہ کون سازش کر رہا ہے، وزیراعظم ،5گورنر،5وزراء اعلیٰ آپ کے ماتحت ہیں، سازش کون کر رہا ہے، ججوں کے بارے میں واضح کہا کہ 5لوگوں نے سازش کی۔ وزیراعظم وزیر اعلیٰ پنجاب کو او آئی سی میں ساتھ لے کر گئے باقی وزراء اعلیٰ کو کیوں نہیں لے کر گئے، او آئی سی میں وزیراعظم کی تقریر پھس پھسی تھی، وہاں سے لندن گئے جو اصل بات تھی، سرکاری خرچے پر سابق وزیراعظم کو مل رہے ہیں۔ عیاں ہوا کہ حکومت نے درخواست کی کہ ہماری جان دھرنے سے چھڑائیں، لفافے تقسیم کئے گئے، کیپٹن(ر) صفدر نے بیان دیا کہ لفافوں میں 5ہزار روپے تھے چار ہزار کون کھا گیا ہے، حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات کا حل چاہتے ہیں، امید ہے حل ہو جائے گی۔بحث کے اختتام پرچیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پیر کو بحث سمیٹی جائے گی۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ پارلیمان سرنڈرنہیں کرتی نہ کرے گی ، مذہب کو سیاسی ایجنڈے کے لیے استعمال نہ کیا جائے چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی نے سرنڈر نہیں کیا،وہ دوسرے ایوان کے کسٹوڈین ہیں۔  

تازہ ترین