• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران اہل، ترین نااہل، حدیبیہ بند، پی ٹی آئی فنڈنگ کا معاملہ الیکشن کمیشن کے سپرد

Todays Print

اسلام آباد (رانا مسعود حسین) عدالت عظمیٰ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کوعوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دینے کی حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی کی درخواست مسترد کردی ہے جبکہ پی ٹی آئی کے جنرل ذسیکرٹری جہانگیر ترین کوصادق اور امین نہ ہونے کی بناء پر تاحیات عوامی عہدہ کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو ان کو بطور رکن قومی اسمبلی ڈی نوٹیفائی کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ فاضل عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کے الزامات کا تعین الیکشن کمیشن آف پاکستان کرے گا۔ عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عمران خان نیازی سروسز کے شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر نہیں تھے، لندن فلیٹ بھی ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کیا،بنی گالہ اراضی کیلئے جمائمہ نے 4لاکھ پائونڈ سے زیادہ رقم تحفے میں دی ، عمران نے اثاثے نہیں چھپائے، ان پر بددیانتی ثات نہیں ہوئی۔ جبکہ جہانگیر ترین کے متعلق عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جہانگیر ترین نے عدالت سے جھوٹ بولا، آف شور کمپنی ظاہر نہیں کی، انسائیڈر ٹریڈنگ کے حوالے سے اعترافِ جرم کیا، ایماندار قرار نہیں دیا جا سکتا، آرٹیکل 62(1)fکے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ جسٹس فیصل عرب نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پاناما اور عمران خان کیس کے حقائق مختلف ہیں، نوازشریف کئی مرتبہ عوامی عہدیدار رہے، مقدمے میں منی لانڈرنگ، کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے جمعہ کے روز کھلی عدالت میں( عمران خان سے متعلق 143جبکہ جہانگیر خان ترین سے متعلق 80صفحات پر مشتمل) فیصلہ جاری کیا جسے چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا۔ فیصلہ سنانے کا وقت دن دو بجے مقرر کیا گیا تھا، لیکن بینچ نے فیصلہ تقریبا سوا گھنٹے کی تاخیر سے 3:20 منٹ پر سنانا شروع کیا تو کمرہ عدالت فریقین ،وکلاء ،سیاسی کارکنوں اور صحافیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔درخواست گزار حنیف عباسی، وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب اور وزیرمملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سمیت ن لیگ اور پی ٹی آئی کے فواد چوہدری اور فردوس عاشق اعوان سمیت متعدد رہنما موجود تھے۔ فاضل چیف جسٹس نے سماعت تاخیر سے شروع کرنے پر سب سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے کے ایک صفحہ پر غلطی کی نشاندھی ہوئی تھی ،جس کی درستگی کی وجہ سے ہمیں دوبارہ ڈھائی سو صفحات کا جائزہ لینا پڑا ہے، اس لئے یہ تاخیرہوئی ہے۔انہوںنے فیصلہ پڑھنے سے قبل سب سے صبر و تحمل سے فیصلہ سننے کی اپیل کی۔انہوںنے کہا کہ ہم نے تمام شواہد کا جائزہ لیا ہے ،درخواست گزار نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر غیر ملکی فنڈنگ لینے کا الزام عائد کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ مسول علیہ عمران خان نے بطور سربراہ پی ٹی آئی الیکشن کمیشن کو اس حوالے سے ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا کہ ان کی جماعت غیرملکی فنڈنگ سمیت کسی بھی ممنوعہ ذرائع سے فنڈنگ نہیں لے رہی ہے۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا تھا کہ انہوںنے اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو جھوٹا ڈیکلریشن دیا ہے جس کی بناء پر وہ صادق اور امین نہیں رہے ہیں ،اس لئے انہیں عوامی عہدہ کیلئے نااہل قرار دیا جائے۔ فاضل عدالت اس سلسلہ میں قرار دیا ہے کہ قانون کے مطابق درخواست گزار کا اس حوالے کوئی لوکس اسٹینڈائی (درخواست دینے کا حق) نہیں بنتا ہے،اس لئے اس کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے جبکہ غیر ملکی فنڈنگ کے معاملہ کا تعین الیکشن کمیشن کرے گا ۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت پر غیرملکی فنڈنگ کے الزام کی تحقیقات صرف وفاقی حکومت ہی کر سکتی ہے جسکے بعد اس حوالے سے ریفرنس سپریم کورٹ کو بھجوایا جاتا ہے۔فاضل عدالت نے قرار دیا ہے کہ الیکشن کمیشن تمام سیاسی جماعتوں کے اکائونٹس کی چھان بین کرنے کا پابند ہے،اس لئے وہ غیر جانبدرانہ طور پر پی ٹی آئی کے اثاثوں کی چھان بین کرے، تاہم وہ صرف پچھلے پانچ سال تک کے اکائونٹس کی چھان بین کرسکتا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے عمران خان کے خلاف نیازی سروسز کو چھپانے سے متعلق الزام کے حوالے سے قرار دیا ہے کہ مسول علیہ عمران خان، نیازی سروسز لیمیٹیڈ کے شیئر ہولڈر یا ڈائریکٹر نہیں تھے، انہوںنے اپنا لندن کا فلیٹ 2002 کی ایمنسٹی اسکیم میں ظاہر کردیا تھا، بنی گالہ کی اراضی کے حوالے سے فاضل عدالت نے قرارد یا ہے کہ عمران خان نے اس اراضی کیلئے پہلے اپنی جیب سے 70لاکھ روپے ادا کئے تھے ،بعد میں انکی اس وقت کی اہلیہ جمائمہ خان نے 4لاکھ، 17ہزار901 پائونڈز انہیںدیئے تھے ، جو ادا کرکے اراضی خریدی گئی تھی ،جسکے بعد عمران خان نے 2003میں اپنا لندن کا فلیٹ فروخت کرکے اسکی رقم جمائمہ کو واپس کی تھی،جس پر جمائمہ نے 2004میں وہ اراضی ان کے نام پر ہبہ (تحفہ ) کردی تھی، طلاق سے پہلے عمران خان نے یہ اراضی اپنی بیوی جمائمہ خان اور بچوں کیلئے ہی خریدی تھی ، اس اراضی کو انہوںنے اپنے اثاثوں میں ظاہر کیا تھا ، اس لئے عدالت اس الزام کو تسلیم نہیںکرتی ہے۔ فاضل عدالت نے درخواست گزار کی جانب سے ون کانسٹی ٹیوشن ایونیو اسلام آباد پر واقع ٹاور (گرینڈ حیات اپارٹمنٹ ) میں عمران خان کی جانب سے 4کروڑ روپے کی مالیت سے ایک اپارٹمنٹ خریدنے اور اسے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے سے متعلق الزام سے متعلق قرار دیا ہے کہ مسول علیہ نے اس اپارٹمنٹ کی ایڈوانس رقم کا 2015کے ٹیکس گوشواروں میں پہلے ہی ظاہر کیا ہے۔ ا س لئے درخواست گزار کے اس موقف کو بھی تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے قرار دیا ہے کہ عمران خان نے اپنے اثاثے نہیں چھپائے ہیں ،وہ بے ایمانی کے مرتکب نہیں ہوئے ہیں اور ان کیخلاف کوئی بددیانتی ثابت نہیں ہوئی ہے، اس لئے ان کیخلاف درخواست کو خارج کیا جاتا ہے۔ فاضل عدالت نے دوسرے مسول علیہ جہانگیر خان ترین کیخلاف دائر درخواست کے حوالے سے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ12ایکڑ پر واقع ہائیڈ ہائوس پراپرٹی کے اصل مالک جہانگیر ترین ہی ہیں۔ انہوں نے اس کے لئے 50 کروڑ روپے بھی بیرونِ ملک منتقل کیے تھے ،لیکن 2013کے انتخابات کے موقع پر اپنے کاغذات نامزدگی میں اس ٹرانزیکشن کو ظاہر نہیں کیا ہے،آ ف شور کمپنی بھی انہی کی ہی ملکیت ہے،ان پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بینی فیشل مالک کے حوالے سے مسول علیہ جہانگیر ترین کا جواب واضح نہیں تھا، انہوںنے اپنے اثاثے چھائے ہیں اس لئے وہ صادق اور امین نہیں رہے ہیں، حالانکہ وہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت اسے ظاہر کرنے کے پابند تھے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جہانگیر ترین نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے سا منے سچ نہیں بولا ہے۔ عدالت نے مزید قرار دیا ہے کہ درخواست گزار نے زرعی آمدن پرکم ٹیکس دینے پرمسول علیہ جہانگیر ترین کی نااہلی کی استدعا کی تھی تاہم عدالت زرعی ٹیکس پر کارروائی نہیں کرسکتی ہے کیو نکہ معاملہ متعلقہ فورم پر زیرِ التوا ہے۔ فیصلے کے مطابق جہانگیر ترین کے شیئر ہولڈر بننے سے پہلے قرض معاف ہوئے تھے ، بطور وفاقی وزیر انہوںنے اس حوالے سے اپنااثر و رسوخ استعمال نہیں کیا ہے۔ فاضل عدالت نے مسول علیہ پر ان سائیڈرٹریڈنگ کے الزام کے حوالے سے قرار دیاہے کہ اس میں ایس ای سی پی نے ان کیخلاف تحقیقات کی تھی تو انہوںنے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے جرمانہ ادا کیا تھا، جس پر اس معاملہ کو پاسٹ اینڈ کلوزڈ ٹرانزیکشن قرار دیتے ہوئے ختم کردیا گیا تھا، جس قانون کے تحت یہ سب کچھ کیا گیا تھا بعد میں عدالت نے اس قانون ہی کو ختم کردیا تھا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اعترافِ جرم پر کسی عوامی نمائندے کی نااہلیت ہوتی ہے یا نہیں؟ عدالتی فیصلے کے مطابق جہانگیر ترین نے انسائیڈر ٹریڈنگ کے حوالے سے اعترافِ جرم کیا ہے ،اس لئے انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جا سکتا ہے اور انہیں آئین کے آرٹیکل 62(1)fکے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کو مسول علیہ جہانگیر خان ترین کو بطور رکن قومی اسمبلی ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کرنے کی ہدایت کی ہے۔

تازہ ترین