• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاناما کیس میں طے کیے گئے اصولوں پر عمل نہیں ہوا

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) سپریم کورٹ نے جمعہ کو 2018ء میں عمران خان اور شہباز شریف کے درمیان انتخابی مقابلے کیلئے میدان سجا دیا ہے، دونوں کو ایک ہی دن سنائے جانے والے مختلف فیصلوں میں کلین چٹ دیدی گئی۔ عمران خان اور شہباز شریف دونوں کیلئے یہ بہت ہی اچھا دن ثابت ہوا، دونوں اب وزیراعظم کے عہدے کیلئے اہم ترین امیدوار سمجھے جا رہے ہیں اور توقع ہے کہ وہ اگست 2018ء میں ہونے والے آئندہ عام انتخابات میں ایک دوسرے کا کھل کر مقابلہ کریں گے۔ ان فیصلوں اور ان کے اثرات کی وجہ سے سیاسی استحکام آئے گا اور 2018ء کے عام انتخابات کے حوالے سے یقین دہانی بھی ملے گی۔ مسلم لیگ (ن) کا عمران خان کیخلاف نا اہلی کا کیس سپریم کورٹ نے مسترد کر دیا جبکہ شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کیلئے ریلیف کی بات یہ ہے کہ ان کیخلاف حدیبیہ پیپر ملز کا ریفرنس دوبارہ کھولنے کیلئے جو سنجیدہ کوششیں کی جا رہی تھیں؛ سپریم کورٹ نے انہیں ناکام بنا دیا ہے۔ جس وقت مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں کے کارکنان جمعہ کو سنائے جانے والے دو مختلف فیصلوں پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کر رہے ہیں اس وقت لوگوں کی اکثریت نے اس حقیقت کو نظرانداز کر دیا ہے کہ ان دونوں فیصلوں میں کسی میں اُن اصولوں پر عمل نہیں کیا گیا جو پاناما سے مخصوص پانچ رکنی بینچ نے اپنے متنازع فیصلے میں قائم کی تھیں جن کی وجہ سے نواز شریف کو نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا تھا کہ ’’یہ دلیل کہ جے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر ملز کا کیس کھول کر اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے جبکہ ہائی کورٹ کی جانب سے مسترد کیا جانے والے ریفرنس نمبر 5؍ درست معلوم نہیں ہوتا اور جے آئی ٹی نے اس ضمن میں صرف سفارشات پیش کی ہے جن سے یہ عدالت بہتر انداز میں صرف اسی صورت نمٹ سکتی ہے جب اس حوالے سے اس عدالت میں کوئی ریفرنس دائر کیا جائے جیسا کہ نیب کے اسپیشل پراسیکوٹر نے کیا ہے جبکہ اس عدالت نے مختلف رائے پیش کی ہے۔‘‘ اگرچہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس کے فیصلے میں نیب کیلئے حدیبیہ ریفرنس کے حوالے سے کوئی اپیل دائر کرنے کی ہدایت نہیں کی گئی لیکن نیب پر اپیل دائر کرنے کا دبائو تھا جس کی وجہ سے شہباز شریف اور ان کے بیٹے کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگ گئی تھیں۔ رواں سال ستمبر کے دوسرے ہفتے میں، دی نیوز نے یہ خبر شائع کی تھی کہ اسلام آباد کے ایک دفتر میں سپریم کورٹ میں شریف خاندان کیخلاف حدیبیہ پیپر ملز کیس کی اپیل دائر نہ کرنے پر نیب کے تین سینئر عہدیداروں کی اجلاس کے دوران سرزنش کی گئی تھی۔ اس اجلاس کے دو دن بعد ہی نیب نے حدیبیہ کیس میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا۔ نیب کی جانب سے یہ کیس دائر کیے جانے کے بعد شریف خاندان کیخلاف جاری تحقیقات کا دائرہ بڑھ کر وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کے بیٹے حمزہ تک پھیل گیا تھا۔ بڑے شریف، سابق وزیراعظم نواز شریف پہلے ہی نا اہل قرار دیے جا چکے ہیں جبکہ ان کے بچوں کو بھی نیب ریفرنسز میں شامل کیا جا چکا ہے۔ جمعہ کو سپریم کورٹ نے نیب کی وہ اپیل مسترد کر دی اور اسے کچرے کے ڈبّے میں پھینک دیا جس کی تجویز جے آئی ٹی نے دے کر شہباز شریف کے سر پر تلوار لٹکا دی تھی۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ، ’’جے آئی ٹی نے ریکارڈ پر وہ تمام اضفی ثبوت حاصل کر لیا ہے جس سے ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقات درست ثابت ہوتی ہیں اور دونوں تحقیقاتوں میں تعلق ثابت ہو جاتا ہے۔ یہ تجویز دی جاتی ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے حاصل کیے جانے والے ان نئے دستیاب شواہد کی روشنی میں یہ تینوں کیسز تحقیقات اور ٹرائل کیلئے دوبارہ کھولنے کے قابل ہیں۔ اس صورتحال کی روشنی میں، فاضل بینچ اگر چاہے تو مناسب آرڈر جاری کر سکتا ہے جس میں اُس ملزم کیخلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم بھی شامل ہے جس کے نام کی نشاندہی پہلے ہی ریفرنس میں کی جا چکی ہے۔‘’ اپنے متنازع پاناما کیس فیصلے میں، سپریم کورٹ نے غیر معمولی طور پر سخت رویہ اختیار کیا جس نے کئی ماہرین قانون کو پریشان کر دیا، فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری کا سہارا لیا گیا تاکہ سابق وزیراعظم کو قصور وار قرار دے کر انہیں تاحیات نا اہل قرار دیا جائے اور الزام یہ تھی کہ انہوں نے اس تنخواہ کو ظاہر نہیں کیا تھا جو انہوں نے نکالی ہی نہیں تھی۔ عمران خان کے کیس میں سپریم کورٹ نے یہ رائے اختیار کی کہ آف شور کمپنی، نیازی سروسز لمیٹڈ، کو لندن فلیٹ کی قانونی ملکیت کے حصول کیلئے بطور کارپوریٹ ذریعہ استعمال کیا گیا، جس کے بینیفیشل اونر عمران خان تھے۔ عمران خان نیازی سروسز لمیٹڈ، جس نے 9؍ پائونڈ کا سرمایہ ادا کیا تھا اور لندن فلیٹ اس کا خالص اثاثہ تھا، کے شیئر ہولڈر تھے اور نہ ہی ڈائریکٹر۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ نیازی سروسز لمیٹڈ کا یہ اثاثہ عمران خان نے انکم ٹیکس آرڈیننس 1979ء کے سیکشن 59 ڈی کے تحت ایمنسٹی اسکیم کے تحت افشا کیا لہٰذا عمران خان قانون طور پر اس بات کے پابند نہیں کہ وہ عوامی نمائندگی کے ایکٹ کے تحت الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے اپنے انکم ٹیکس ریٹرنز یا اپنے اثاثوں اور واجبات کے گوشواروں میں اُس کارپوریٹ ذریعے یعنی نیازی سروسز لمیٹڈ کو اثاثے کے طور پر سامنے لائیں۔ بنی گالا پراپرٹی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ عمران خان اس پراپرٹی کے مالک اس وقت ہوئے جب ان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان نے میوٹیشن نمبر 10696 مورخہ 29 اکتوبر 2005ء کو زبانی انہیں یہ پراپرٹی تحفے میں دی جو ان کی طلاق کے بعد جون 2004ء میں موثر ہوگئی تھی۔ اس سے قبل، بنی گالا کی پراپرٹی عمران خان نے اپنی بیگم اور بچوں کی فیملی کیلئے خریدی تھی۔

تازہ ترین