• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران، ترین کیس، دہرا نہیں کئی معیار نظر آتے ہیں، قانونی ماہرین

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ) قانونی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے مقدمے میں دہرے نہیں بلکہ کئی معیار نظر آتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا بچ جانا معجزے سے کم نہیں ہے، ایک کیس میں بینی فیشل آونر ہونا سزا ہے جبکہ دوسری جگہ کہا جاتا ہے کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے، فیصلوں میں ہم آہنگی نظر نہیں آتی، پارلیمنٹرین کی نااہلی کا فورم الیکشن کمیشن ہے سپریم کورٹ نے کیسے فیصلے کیے، نوازشریف تنخواہ ظاہر نہ کرنے پر صادق امین نہ رہے، اس فیصلے کو عمران خان پر بھی لاگو کیا جائے۔ ان خیالات کا اظہار عرفان قادر،راجہ سلمان اکرم،کامران مرتضیٰ ، افتخار احمد، اویس احمد، نثار کھوڑو نے جیو نیوز کے پروگرام ’’نیا پاکستان طلعت حسین کیساتھ‘‘ میں میزبان سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ میزبان نے اپنے تجزیئے میں کہا کہ کیا بڑا دن ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اندر، بھونچال سے کم نہیں ہے، آف شور کمپنی اور اس سے منسلک اکاؤنٹس کی قدغن اب عمران خان پر نہیں لگے گی، وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے نااہل ہونے سے بچ گئے ہیں، جہانگیر خان ترین اتنے خوش قسمت نہیں رہے جو آف شور کمپنی کے بارے میں معلومات صحیح فراہم نہ کرنے یا غلط بیانی کی بنیاد پر پھنس گئے اور نااہل ہوگئے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ تاحیات نااہلی ہے اگرچہ وہ کیس ابھی پینڈنگ ہے اور بعد میں فیصلہ ہوگا کہ تاحیات ہے یا نہیں ہے لیکن پی ٹی آئی کا جنرل سیکرٹری فارغ ہوگیا ہے، برابر میں ایک اور کیس میں حدیبیہ کیس جس کا آپ نے بڑا نام سنا تھا اور کہا جارہا تھا کہ اس کے ذریعے وہی پاناما والا effect generate ہوگا شہباز شریف کے حوالے سے، وہ اب کیس نہیں کھلے گا ،سپریم کورٹ کے ایک اور بنچ نے حدیبیہ کیس کو بند کردیا اور کہا کہ مردہ گھوڑا ہے اس کو کیا ہم چابک مارتے رہیں، نیب کو کہا کہ آپ نے کام صحیح نہیں کیا، باوجود اس کے کہ پاناما کی مشہور ترین جے آئی ٹی کی رپورٹ کے اندر یہ کہا گیا تھا حدیبیہ پیپر ملز کیس کے حوالے سے کہ ہم نے اس کیس پر بڑی تحقیق کی ہے اس میں بڑی جان ہے اس کیس کو کھلنا چاہئے، سپریم کورٹ اس معاملہ میں گیا اور حدیبیہ کیس کو انہوں نے فارغ کردیا۔ پروگرام میں گفتگو کرنے ہوئے ماہر قانون سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمارا جو عدالتی نظام ہے وہ طوفان میں گھر گیا ہے۔تجزیہ کار افتخار احمد نے کہا کہ اصل میں بات یہ ہے میرے دوست کہ یہ کام جو پارلیمنٹ کو کرنا تھا، پارلیمنٹ پانچ سال سے سوئی ہوئی تھی،نثار کھوڑو نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ کہا تھا کہ کوالیفکیشن یا ڈس کوالیفیکیشن یہ پارلیمنٹ کو حقوق ہونے چاہئیں۔طلعت حسین: عرفان قادر صاحب بڑا معاملہ ہوا عمران خان نااہلی سے بچ گئے اور سپریم کورٹ نے یہ کہا کہ باوجود اس کے کہ وہ آف شور کمپنی کے بینیفشل اونر ہیں لیکن وہ ڈائریکٹر نہیں ہیں، لہٰذا ان کا کمپنی ڈیکلیئر کرنا بنتا نہیں تھا اور اس بنیاد پر وہ بچ گئے، عمران خان کی جو بچت ہوئی ہے یہ بڑی واضح بچت ہے یا آپ کے خیال میں بڑا تیز گیند ان کی طرف آیا تھا جو ہیلمٹ کے قریب سے گزر گیا؟ عرفان قادر: میں سمجھتا ہوں کہ یہ بڑا تیز گیند آیا تھا جو ہیلمٹ کے قریب سے گزر گیا، کیونکہ سپریم کورٹ نے ان دونوں فیصلوں میں تاثر یہی دیا ہے کہ پانچ ججز نے جو اس سے پہلے فیصلہ کیا تھا جہاں انہوں نے اقامہ پر میاں نواز شریف کو نااہل کیا تھا تو وہ بہت زیادہ legal hair spliting کے بعد on a hyper technicality نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا، اس بات پر نااہل نہیں کیا گیا تھا کہ ان کے اثاثہ جات ان کی جائز آمدن سے زیادہ تھے یا وہ بڑے طویل عرصے تک ہولڈر آف پبلک آفس رہے بلکہ اس لئے نااہل کیا گیا تھا کہ وہ اپنے اثاثہ جات ڈیکلیئر نہیں کرسکے، اب mathematical exactitude کے ساتھ اثاثہ جات ڈیکلیئر کرنے کا میرا نہیں خیال کہ کوئی ایسا requirement ہے قانون میں لیکن اس پر چونکہ نااہل کیا تھا اور ان پانچ ججز کے فیصلے کو انہوں نے up hold بھی کرنا تھا کیونکہ یہ تین ججز تھے ورنہ لارجر بنچ بنایا جاتا تو بہت زیادہ hair splittingہوئی ، rousing inquiries ہوئیں، تمام rousing inquiries سے عمران خان کا بچ جانا ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔ طلعت حسین :سلمان اکرم راجہ صاحب بینیفشل اونر کا پاناما کیس کے اندر سن سن کر ہمارے کان پک گئے تھے کہ مریم ان فلیٹس کی بینی فیشل اونر تھیں، ان کو یہ چیز ڈیکلیئر کرنی چاہئے تھی نواز شریف صاحب کو، نواز شریف صاحب نے ڈیکلیئر نہیں کی اپنے کاغذات نامزدگی میں وغیرہ وغیرہ۔ آج کی عمران خان کی جو ججمنٹ ہے اس میں وہ کہہ رہے ہیں بینیفیشل اونر ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے اس کو ڈیکلیئر کرنا بنتا نہیں تھا کیونکہ وہ شیئر ہولڈر اور ڈائریکٹر تو تھے نہیں تو آپ کی تشریح؟ سلمان اکرم راجہ: بادی النظر میں تو ایک مختلف معیار یہاں نظر آتا ہے، اس سے پہلے کہ میں نیازی سروسز کے شیئرز کے حوالے سے بات کروں ایک چیز جو میرے لئے حیرت کا باعث بنی وہ یہ ہے کہ یہ تو یہ فیصلہ مانتا ہے کہ 1983ء سے جو فلیٹس ہیں، نیازی سروسز کو ایک لمحہ کے لئے چھوڑ بھی دیں، اُس کے بینیفیشل اونر حقیقی مالک جو ہیں وہ خان صاحب تھے، اور یہ کہ 2000ء میں پہلی بار ایک ایمنسٹی اسکیم کے تحت انہوں نے ان فلیٹس کی ملکیت کو ظاہر کیا، اس کے بعد 2002ء کے الیکشن میں جو کاغذات نامزدگی دائر کیے اس میں ان فلیٹس کا اظار کیا، اس سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ 1997ء کا بھی تو ایک الیکشن تھا، اگر 2002ء میں پہلی بار یہ فلیٹس ظاہر کیے گئے جن کی ملکیت 1983ء میں حاصل کی گئی تھی تو پھر 1997ء کے الیکشن کے جو کاغذات نامزدگی تھے ان میں ظاہر ہے ان فلیٹس کو ظاہر نہیں کیا گیا، اگر ان کاغذات نامزدگی میں ان فلیٹس کو ظاہر نہیں کیا گیا تو میاں نواز شریف کو جس بنیاد پر نااہل قرار دیا گیا ہے وہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے وہ آمدن یا وہ تنخواہ جس کے وہ حقدار تھے اگرچہ اس کوا نہوں نے وصول نہیں کیا اس کو اپنے گوشواروں میں، کاغذات نامزدگی میں، 2013ء میں ظاہر نہیں کیا تھا لہٰذا کاغذات نامزدگی میں اثاثے کو ظاہر نہ کرنا ایک بہت قبیح جرم رہ چکا ہے پاناما فیصلے کی رو سے ۔ طلعت حسین: عرفان قادر صاحب وہ کہہ رہے ہیں میں نے یہ بنائی ہے نیازی سروسز لمیٹڈ، آف شور کمپنی۔ سپریم کورٹ کہہ رہی ہے کہ آپ شیئر ہولڈر نہیں تھے کوئی obligation نہیں بنتی آپ کی ڈیکلیئر کرنا؟ عرفان قادر: میں سمجھتا ہوں کہ یہ جو تینوں فیصلے ہوئے ہیں، جیسے کامران مرتضیٰ نے بھی کہا ہے کہ یہ جو jurisprudence ہے اس میں ہمیں ہم آہنگی نظر نہیں آتی، ان تمام فیصلوں کواور ماضی کے جو حالیہ فیصلے ہوئے ہیں since 2009 یہ تمام فیصلے جو ہیں یہاں پر ہمیں صرف ڈبل اسٹینڈرڈز ہی نہیں بلکہ ملٹی پل اسٹینڈرڈز نظر آتے ہیں اور اسی لیے میں بارہا کہہ چکا تھا کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ یہ جو mass create ہوگئی ہے 184/3 کی jurisdiction کو بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اس کو ٹھیک کرنا چاہئے تھا، سقم دور ہونے چاہئے تھے اور یہ تمام فیصلے جو پرانے جو غلط فیصلے ہیں وہ ری وزٹ ہونے چاہئے تھے لیکن افسوس یہ ہے کہ وہ ری وزٹ تو دور کی بات ہے جس طریقے سے ، نہ صرف یہ بلکہ سلمان راجا صاحب بھی قانون کو بخوبی سمجھتے ہیں، وہ جانتے ہیں، کامران صاحب سپریم کورٹ بار کے صدر رہے ہوئے ہیں، آپ ان دونوں سے پوچھ لیں کہ سب آرٹیکل 2 ، آئین کا آرٹیکل 63 صاف لفظوں میں یہ کہتا ہے کہ جب بھی کسی پارلیمنٹرین کی نااہلی کا سوال اٹھے گا تو اس کا فورم الیکشن کمیشن ہے، وہاں پر کوئی ذکر نہیں ہے سپریم کورٹ کا تو پھر سپریم کورٹ نے اپنے اوپر یہ کیسے لے لیا کہ وہ یہ فیصلے کرے گی۔ طلعت حسین: آف شور کمپنی کوئی بھوسے کے اندر سوئی تھوڑی ہے کہ آپ کو نظر نہیں آئے گی، آف شور کمپنی کوئی یاد کرنے والی بات ہے کہ مجھے آف شور کمپنی یاد نہیں رہی؟ کامران مرتضیٰ: دو باتیں ہیں، یہاں پر ایک بات یہ ہوتی ہے کہ intention ہے، ایک بات یہ کہ omission ہے، اب یہ بھی establish ہونا ہے کہ یہ intention تھی یا omission تھی، اس کے اوپر کوئی evidence سپریم کورٹ میں آنہیں سکتی، omission ہوسکتی ہے، بعض اوقات ہو بھی جاتی ہے، اگر omission کو پچھلے اس میں approve کردیا تو انہوں نے کہا تھا کہ omission جو ہے نا وہ بھی، اقامہ والی بات یا اس کے ساتھ جو تنخواہ والی بات تھی اس میں omission کو بھی انہوں نے لے لیا تھا، اب جو omission وہاں پر پانچ رکنی بنچ کی طرف سے آگیا تو یہاں پر بھی omission والی بات جو ہے وہ بھی ڈس کوالیفکیشن میں جاتی تھی، اس کو بھی ڈس کوالیفکیشن کی طرف لے کر جانا چاہئے تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ جو ہمارے سیاستدانوں کا رویہ ہے عام طور پر وہ تیسرا بندہ آتا ہے اور وہ تیسرا بندہ فارم بھروارہا ہوتا ہے اس میں گڑبڑ ہوتی ہے، مجھے اس بات کا پروفیشنل experience ہے۔

تازہ ترین