• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں مفادات اور مراعات کی سیاست ہورہی ہے، فاروق ستار

کراچی ( اسٹاف رپورٹر)سربراہ ایم کیوایم پاکستان ڈاکٹر محمد فاروق ستار نے کہاہے کہ متحدہ نظریاتی جماعت اور پاکستان کے سیاسی جمہوری عمل کے استحکام کی پاسبان ہے، ملک میں مفادات اور مراعات کی سیاست ہورہی ہے، اجتماعیت نہیں انفرادیت کی سیاست ہورہی ہے، ایم کیوایم نے اپنے کارکنوں کی ذہن سازی کی انہیں نظریئے اور منشور سے آگاہ کیا انہیں انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا درس دیا ہے۔ وہ مقامی ہوٹل میں کالم نگار رضوان احمد فکری کی کتاب ’سفر نو‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔ سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان، سنیئر صحافی محمود شام، صحافی امین یوسف، کے یو جے کے صدر حسن عباس اور مصنف نے بھی اپنے خیالات کااظہار کیا۔ عامر خان نے کہاکہ رضوان احمد فکری کی کتاب میں طبقاتی کشمکش کی واضح نشاندہی کی گئی ہے اور یہی وہ مسئلہ ہے جسکے باعث ہمارا ملک ترقی کی جانب نہیں جارہا ہے ۔محمود شام نے کہا کہ ’سفر نو‘ نے بہت سے زخم ہرے کردیئے ہیں، گردش ایام کو پیچھے لوٹنے پر مجبور کردیا ہے اور میں اپنے آپ کو 47ء کے واہگہ بارڈر پر محسوس کر رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ زمینیں ہمیشہ ہجرتوں سے مہذب ہوتی ہے، انسانوں کی نسلیں ایک سے دوسرے علاقوں میں ہجرت کرتی رہیں، ہجرت پرامن رہیں تو معاشرے سکون میں رہتے ہیں، ہجرت خونی ہو تو معاشرے منقسم رہتے ہیں، تاریخ یہ بھی سرگوشی کررہی ہے کہ آگ و خون کے دریا سے گزرنے والے کسی بھی تحریک کا اثاثہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس خطے میں ہمیشہ بہت سے رنگ اور خوشبوئیں رہی ہیں ، علمائے کرام، سیاستدان ہر مسئلے کو آج کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں اس دوران رضوان احمد فکری سیاسی ، سماجی بحران کا تعین کرکے فرنگیوں کے زمانے کے جالے صاف کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نفیساتی ماہرین کا اصول بھی یہ ہوتا ہے کہ جب اسکے سامنے اسے لایا جاتا ہے تو اس کے ساتھ مختلف نشستیں رکھتے ہیں اور ایک وقت ایسا آتا ہے مریض اور معالج دونوں سمجھ جاتے ہیں، پاکستان بھی نفیساتی مریض ہے ، ہم سب پاکستانی اتنے کربلائوں اور سکوتوں سے گزرے ہیں کہ ہم سب کو نفیساتی امراض لاحق ہوچکے ہیں۔قبل ازیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے جمعے کومقامی ہوٹل میں کتاب کی تقریب رونمائی کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کے بہت اہم موڑ پرہیں اور پاکستان کے عوام کے لیے بھی یہ فیصلے کی گھڑی ہے ، ایک طرف تو عدلیہ اپنا کردار ادا کررہی ہے اور جو فیصلے بھی آرہے ہیں بشمول جمعے کے فیصلے بھی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں بھی بڑے دوررس نتائج برآمد ہوں گے، ایم کیو ایم نے ہمیشہ عدالتی فیصلوں کا احترام کیا ہے اور جمعے کا بھی جو فیصلہ آیا ہے اس کو بھی خوش دلی سے تسلیم کرتے ہیں اب اگر ایک آئینی ادارہ جو اپنا کام کررہا ہے ، دیکھیں اختلاف کرنا یا اتفاق کرنا یہ فریقین کا اپنا معاملہ ہے لیکن میں تو یہ بات کررہا ہوں کہ پاکستان کی اب آئندہ کی جو سیاسی بساط بچھنی ہے 2018 کے انتخابات میں تو ایسا نہ ہو کہ ہمارا تمام انحصار صرف عدلیہ کے فیصلوں پر ہوجائے کیونکہ اگر ہم دیکھیں تو بنیادی اور اصولوی طور پر پاناما کا فیصلہ سپریم کورٹ کے بجائے کسی نیب جیسے ادارے کو کرنا چاہیے تھا لیکن اگرپاکستان میں احتساب کاکوئی مؤثر نظام، قانون اور ادارہ موجود نہیں ہے تو اس لیے یہ سارا بوجھ عدالت عظمٰی کو اٹھانا پڑتا ہے تو سیاسی فریق جو بھی اپنی رائے رکھیں تو چونکہ فیصلے کی گھڑی ہے تو انھیں بھی یہ سوچنا ہوگا کہ یہ دوسرا فیصلہ آیا ہے اہلیت اور نا اہلی کا تو کیا یہ سارے کام عدالت کو کرنے ہیں یا اس کے لیے ہمارے پاس ادارے موجود ہیں، نظام موجود ہے یا قانون موجود ہے تو ہمیں اس کی طرف بھی توجہ کرنی ہے تو ایم کیو ایم یہ عہد کرتی ہے کہ ملک میں ایک احتساب کا ایک مؤثر ادارہ موجود ہونا چاہیے ایک مؤثر نظام اور قانون موجود ہونا چاہیے اس کی عدم موجودگی میں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم عدلیہ اور اعلٰی عدلیہ کا وقت ضائع کریں گے۔
تازہ ترین