• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عدل و انصاف کو ایک آفاقی حقیقت کادرجہ حاصل ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ خواہ مسلم ہو یا غیرمسلم، عدل و انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔عہد ِحاضر میں سماج میں عدل و انصاف کا قیام عدلیہ کا فریضہ ہے۔ جس کے حالیہ فیصلوں کےبعد کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ عدلیہ نے جانبداری سےکام لیا،اگر کوئی ایساطرز ِ عمل اختیارکرتا ہے تو اس کاعمل توہین عدالت کی ذیل میں تو آتا ہی ہے اس سے عوام کا عدلیہ ایسے معتبر ادارے پر اعتماد بھی متزلزل ہونے کا احتمال رد نہیں کیاجاسکتا۔ وطن عزیز کی سیاست میں پچھلے چند برس سے عدلیہ کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے کہ اسے بیشتر ایسے معاملات فیصل کرنا پڑے جن کا تعلق سیاستدانوں سے تھا۔ پاناما کیس کے 28جولائی کے فیصلے، جس میں میاں نواز شریف کو نااہل قراردیا گیا، سے دو روز قبل مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی کے لئے سپریم کورٹ میں درخواستیں جمع کرائیں کہ دونوں رہنمائوں نے انتخابات لڑنےکے لئے جمع کرائے گئے کاغذات میں سچائی سے کام نہیں لیا اور اپنے اثاثوں کی مکمل تفصیلات ظاہر نہیں کیں، لہٰذا آئین کی شق 62کے تحت دونوں کو نااہل قرار دیاجائے۔ اس پر 405روز کے دوران 50سماعتوں میں 101گھنٹے عدالتی کارروائی ہوئی، کم و بیش 7ہزار دستاویزات کاجائزہ لینے کےبعد عدالت ِ عظمیٰ نے 14نومبر 2017کو فیصلہ محفوظ کرلیا۔ گزشتہ روز عدالت ِ عظمیٰ نے دو ایسے فیصلے سنائے جنہیں ملک اور ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت حاصل ہے۔ عمران خان کے خلاف مقدمے کا فیصلہ آنے سے قبل عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے شریف خاندان کے خلاف دائر حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کو دوبارہ کھولنے سے متعلق اپیل کو مسترد کردیا، بعد ازاں سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر نیب کی اپیل کومسترد کرنے کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا وجوہات تحریری فیصلے میں بتائی جائیں گی۔ حدیبیہ پیپر ملز کامقدمہ ایک ایسا مقدمہ تھا جس پر شریف خاندان کےمخالفین سب سے زیادہ انحصارکر رہے تھے اور اسے شریف خاندان کی سیاست کے خاتمے کا باعث بننے والا مقدمہ قرار دے رہےتھے۔ تاہم یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عدالتی فیصلے کسی کی منشا یا جذبات پر فیصل نہیں ہوتے ۔ حدیبیہ پیپر ملز کے مقدمے کو حالیہ سیاست میں اس لئے خاص اہمیت حاصل ہوگی کہ اب مسلم لیگ ن کے مخالفین کے پاس وہ کاری ہتھیار نہیں رہے گا جسے وہ شریف برادران کی سیاست کے خاتمے کے حوالے سے سب سے ’’اہم‘‘ گردان رہے تھے۔ دوسرا اہم فیصلہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کیا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی سے متعلق کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے حنیف عباسی کی درخواست مسترد کرکے عمران خان کو اہل قرار دے دیا جبکہ جہانگیر ترین کے خلاف درخواست کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ چیف جسٹس نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تحریک ِ انصاف پر غیرملکی فنڈنگ پر درخواست گزار متاثرہ فریق نہیں۔ الیکشن کمیشن غیرجانبدارانہ طور پر پی ٹی آئی کے اکائونٹس کی پچھلے 5سال تک کی چھان بین کرسکتا ہے۔ جہانگیر ترین کے بارے میں عدلیہ کاکہنا تھا کہ انہیں ایماندار قرار نہیں دیا جاسکتا جسےصوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے حیران کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایسا ہی فیصلہ ہے جیسا میاں نواز شریف کے خلاف آیا۔ ایک ہی دن عدالت ِ عظمیٰ کے دو مختلف مگر اہم ترین فیصلے اس امر کے غماز ہیں کہ ہماری عدلیہ آزاد ہے اور آزادانہ فیصلے کر رہی ہے اور جب عدلیہ آزاد ہو تو ملک و قوم کوکوئی خطرہ درپیش نہیں ہوسکتا۔ لاز م یہ ہےکہ مذکورہ مقدمات کے تمام تر متعلقین عدلیہ کے فیصلوں کو من و عن تسلیم کریں۔ کسی کو اگر ان فیصلوں پر تحفظات بھی ہیں تو اسے صرف وہ راہ اختیار کرنی چاہئے جو اسے آئین نے سجھائی ہے۔ دوسرا کوئی راستہ خود کو آزمائش میںڈالنے کے مترادف ہوگا۔

تازہ ترین