• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ تو دن ہی کچھ ایسے ہیں۔ماحول اورموسم کی اداسی دل پر ایک گھٹا کی طرح چھائی ہے۔اور ستم یہ کہ کالم 16 دسمبر کے دن شائع ہورہاہے۔یہ ایک ایسی تاریخ ہے جسے یاد رکھنے اور بھلانے کی کشمکش میں ہم اس سے کوئی معنی خیز رشتہ بھی استوار نہیں کرپائے ہیں۔اور غضب کی بات یہ ہوئی کہ اس تاریخ کا خنجر دوبار ہمارے سینے میں اتراہے۔یہ کہہ کر میں 1971 اور 2014 کے واقعات میں کسی مماثلت کا اشارہ نہیں کررہا۔ویسے یہ سمجھ لینا بھی کہ کونسا دکھ کتنا بڑا ہے ہماری سوچ اور احساس کی قوت کا ایک پیمانہ ہوتاہے۔ذاتی زندگی میں بھی اور اجتماعی سطح پر بھی۔سوچنا اور محسوس کرنا‘ یہ دونوں پیچیدہ عمل ہیں اور ایک خاص معیار کی تاریخی‘فکری اور تہذیبی بلوغت کا مطالبہ کرتے ہیں۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ 16 دسمبر 1971 کو بھلانے یا نظرانداز کرنے کی کوشش مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنے کی ہماری قومی صلاحیت کمزور کرسکتی ہے۔ہاں‘ 1971 کے سانحے کو گزرے اب نصف صدی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔سال کے یہ آخری دن خاص طور پر ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ وقت ایک سیل رواں ہے۔گزر جاتاہے۔گزرتا جارہاہے۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بہت کچھ زندہ حافظے کی دسترس سے نکلتا جارہاہے۔پاکستان کی موجودہ آبادی کی ایک کثیر اکثریت ان افراد پر مشتمل ہے جو پیدا ہی 1971ء کے بعد ہوئے ہیں۔یعنی آج کے نوجوانوں سے سقوط ڈھاکہ کی بات کوئی کیسے کرے کہ درسی کتابوں میں اگر اس اہم تاریخی واقعہ کاذکر ہوتابھی ہے تو انتہائی سرسری۔یوں بھی جنرل ہسٹری کا شعبہ ہماری جامعات سے غائب ہوتاجارہاہے۔میڈیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے کہ سطحی گفتگو تو ہرموضوع پر کی جاتی ہے لیکن اس میں دلیل اور حقائق کی آمیزش بس واجبی سی رہتی ہے۔ہاں‘ میڈیا آج کے دن کانوٹس تو لے گا لیکن اسے ایک رسم سمجھیں۔اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں 1971 ءکے بارے میں کتنا کام ہوا ہے اور اس کے سہارے ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے کیا سیکھا ہے اس کاکوئی واضح ثبوت ہمیں نہیں ملتا۔یہ کیا قیامت ہے کہ ہم 16 دسمبر 1971ء کو بھولنے کی کوشش کررہے ہیں۔یہاں مجھے فرانسیسی زبان کے شہرہ آفاق ادیب ملان کنڈیرا کا ایک قول یاد آرہاہے جس کا اردو میں ترجمہ میں کچھ اس طرح کروں گا کہ ’’جبر کے خلاف انسان کی جدوجہد کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے فراموشی کے خلاف حافظے کی جدوجہد‘‘۔
میں نے کہا کہ 16 دسمبر 1971بہت پیچھے رہ گیا اور اب ہم حالات کے ایک نئے منجدھار میں ہاتھ پائوں ماررہے ہیں۔اس کیفیت میں ایک دوسرے 16دسمبر کی پکار تو ہمیں صاف سنائی دیناچاہئے۔یہ تو صرف تین سال پہلے کی بات ہے۔اس دن جو کچھ ہوا اور دہشت گردوں نے ہمارے پیارے بچوں کو جس طرح قتل کیا اس کا تصور بھی مشکل ہے۔اس نوعیت کی بربریت کی تو تاریخ میں بھی کم مثالیں ملیں گی۔یہ سچ ہے کہ اس سانحے سے پورا ملک دہل گیا۔اور کسی حدتک بدل بھی گیا۔ایک نئے عزم کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی منصوبہ بندی کی گئی۔اس جنگ میں گزشتہ تین سالوں میں کئی کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں۔ایک ہمہ گیرنیشنل ایکشن پلان کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔لیکن یہ سوال اب بھی ہمیں تنگ کرتاہے کہ ہم نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول کی قتل گاہ سے کیا سبق سیکھے۔کیا اس کے بعد کاپاکستان پہلے کے پاکستان سے واضح طورپر مختلف ہے؟کیا جس راستے پر چل کر ہم دہشت گردی‘ انتہاپسندی اور عدم برداشت کے جال میں آپھنسے تھے اسے ہم نے یکسر تبدیل کردیا؟اب یہی دیکھ لیجئے کہ نیشنل ایکشن پلان پر کتنا عمل ہوا اور اس کے کتنے نتائج برآمد ہوئے۔دہشت گردی کا مذہبی انتہاپسندی سے ایک تعلق ضرور ہے۔
ایک دوسری قسم کی انتہاپسندی نے ابھی کچھ دنوں پہلے ہمیں اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج تک پہنچادیا۔اور یہ وہ مقام ہے کہ جہاں ریاست نے اپنے گھٹنے ٹیک دیئے۔جس دستاویز پر دستخط کئے گئے‘ اسے بھی کئی مبصروں نے ہتھیار ڈالنے کے عمل سے منسوب کیا۔ یہ سب کیسے ہوا اس کی ایک توضیح تو یہی ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھے اور ہم سماجی تبدیلی کے عمل کو بھی سمجھ نہ پائے۔اس 16 دسمبر کے بعد بھی اور اس 16 دسمبر کے بعد بھی ایسا نہیں ہوا کہ حکمراں اپنے عمل کاحساب کرنے کے لیے کسی سنجیدہ تجزیے کا اہتمام کرسکے ہوں۔اس ملک میں مشکل سوال پوچھنے کی روایت اس حدتک کمزور ہوچکی ہے کہ لوگ تنہائی میں اپنے آپ سے بھی سوال کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔آس پاس جو وحشتیں دھرنے دیئے بیٹھی ہیں ان کے سامنے بات کرنا بھی ممکن نہیں ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب اس معاشرے کی سوچ پر بھی پہرے بٹھادیئے گئے ہیں۔
بے یقینی کایہ عالم ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق بھی ان دیکھے خطرات کی چاپ سن رہے ہیں۔یہ صورت حال کی سنگینی کی ایسی گواہی ہے کہ جسے رد نہیں کیاجاسکتا۔تو کیاواقعی کچھ ہونے والا ہے؟کوئی ایسا واقعہ کہ جو تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والوں کے لیے ایک اور سزا کا درجہ رکھتا ہو؟جیسا کہ میں نے کہا‘ یہ تو دن ہی کچھ ایسے ہیں۔ایک سال ختم ہورہاہے۔ایک نیا سال شروع ہونے والا ہے۔ہاں‘ابھی تو 25 دسمبر بھی آئے گا۔ہم قائداعظم کا نام لے کر ایک اور رسم نباہیں گے۔لیکن دودن بعد‘27 دسمبر کی یاد بھی سینے میں اترنے والے ایک خنجر کی مانند ہے۔ بے نظیربھٹو کاقتل بھی ہماری تاریخ کا ایک موڑ تھا۔آخر کتنی بدنصیبیاں ہمارے مقدرمیں ہیں؟ویسے میں یہ وضاحت کردوں کہ میں اپنے دوستوں کے حلقے میں قنوطی جانا جاتاہوں۔کیونکہ صحافی ہوں اس لیے ملک اور معاشرے کے حالات سے بے خبری کی آزادی مجھے حاصل نہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ ٹاک شوز نہ دیکھنے کا عذریہ ہے کہ ڈاکٹر نے پرہیزبتایا ہے۔اتنا مایوس رہنے کے باوجود میں خوش رہنے کی کوشش کرتارہتاہوں۔یہ فیصلہ ہے کہ ہرحال میں ہنستے مسکراتے رہیں۔لیکن فیض آباد کے دھرنے نے میری اس خوشی کو خاک میں ملادیا کہ جس کی میں نے اتنے دھیان سے پرورش کی تھی۔گزشتہ ہفتے مجھے سری لنکا کے ایک شاندار سیاحتی پڑائو میں چار راتوں کے قیام کا موقع ملا۔یہ ایک تنظیم کے زیراہتمام ایسا بندوبست تھا کہ جسے ’’ری ٹریٹ‘‘ کہتے ہیں۔یعنی کسی ایسی پرفضا اور اجنبی جگہ جمع ہوکر کہ جہاں کسی دوسری مصروفیت کی گنجائش نہ ہو چند دن کے لیے اپنے مسائل پر گفتگو کی جائے۔گویا کام اور تفریح کو ساتھ ساتھ رکھاجائے۔میں نے سوچا تھا کہ دل بہل جائے گا۔توجہ بٹ جائے گی۔لیکن دل یوں نہ بہل پایا کہ وہاں انسانی حقوق اور سول سوسائٹی کے لیے کام کرنے والے افراد جمع تھے۔وہ دنیا کے کئی دوسرے ملکوں سے آئے تھے۔پاکستان میں انسانی حقوق کا جو حال ہے‘ اس پر بھی بات ہوئی۔دل کے بہلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔

تازہ ترین