• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس کالم کا آغاز اس اعتراف کے ساتھ کرنا ضروری ہے کہ میں خود ایک وکیل ہوں۔ یہ بتانا بھی اہم سمجھتا ہوں کہ میں کوئی حادثاتی وکیل نہیں ہوں بلکہ مقابلے کے امتحانوں میں ٹاپ پوزیشنز اور سب سے اچھا سروس گروپ چھوڑ کر وکالت کے شعبے کو ترجیح دی ہے۔ یہ بات بھی قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ سات آٹھ سالہ بیوروکریسی اور چھ سات سالہ وکالت کے تجربے کے بعد بھی میں وکالت کو اسی طرح ایک باوقار، سلجھا ہوا اور برتر شعبہ سمجھتا ہوں جس طرح میں نے اپنے کالج کے دور میں بورے والہ میونسپل لائبریری کی کتابوں کے مطالعہ کے دوران پری میڈیکل ایف ایس سی سے بغاوت کرتے ہوئے سمجھا تھا۔ کسی بھی دوسرے پیشے سے منسلک فرد کی طرح مجھے بھی اپنے شعبے سے پیار ہے لیکن میں پوری کوشش کروں گا کہ وکالت کے ساتھ اپنے اس اُنس کی اس تجزیے میں ملاوٹ کم سے کم رہے۔ اور تجزیہ میرا یہ ہے کہ وکالت کے شعبے کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہو رہی ہے اور اس سازش کا منبع بھی وہیں ہے جہاں ستر سے پاکستان کی جمہوریت کو کچلنے کی ہر سازش کا کھرا جاتا ہے۔ وجہ اس سازش کی بڑی واضح ہے کہ پاکستان کی وکلا برادری جو پڑھے لکھے، آزاد منش، با شعور اور نسبتا خوشحال مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھتی ہے وہ جمہوریت کا دفاع کرنے والی ایک باوردی سپاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ وکلا برادری نے ہر فوجی غاصب کے غیر آئینی و غیر قانونی اقتدار کی مزاحمت کی ہے۔ پاکستان کے دیگر جمہوریت پسند طبقات کے ساتھ مل کر وکلا نے ہر فوجی آمر کی اپنے اقتدار کو دوام دینے کیلئے آمریت اور آمریت کے نام نہاد تصور یعنی کنٹرولڈ جمہوریت کی جعلی شان بیان کرنے والے پروپیگنڈہ کو غیر موثر بنایا ہے۔ اور پاکستان کی تاریخ کے بزدل ترین غاصب یعنی پرویز مشرف کے اقتدار کو جس طرح وکلا تحریک نے اُٹھا کر پھینک دیا تھا اس کے بعد وکلا مخالف مہم کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا۔ سو اس وقت سے وکلا کو مسلسل بدنام کرنے کی منظم مہم چل رہی ہے۔ کبھی میڈیا کے کنٹرولڈ حصے کے ذریعے وکلا کو بدنام کیا جاتا ہے، کبھی عدلیہ کے اندر موجود جسٹس منیر اور نظریہ ضرورت کی روح کو وکلا کو دبانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی وکلا کے اندر دو انتہائوں پر موجود حصوں یعنی انتہائی قابل وکلا اور انتہائی نالائق وکلا کو اندرونی تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کبھی وکلا کے اندر پراکسیز پیدا کر کے انکی تنظیموں میں انتشار پھیلایا جاتا ہے اور کبھی کبھار تو کھلی لاقانونیت کے ذریعے خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بار رومز میں افواہیں گردش کرتی رہیں کہ بھگوڑے مشرف کی پیشیوں کے دوران احتجاج کرنے والے وکلا کو اغوا کر کے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، واللہ اعلم بالصواب۔ ابھی تک تو وکلا مکمل طور پر متحد ہیں اور امید ہے کہ ان ساری آمرانہ سازشوں کے باوجود آئندہ بھی متحد رہیں گے۔ پچھلے کئی مہینوں سے ملتان کے وکلا خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں اور انہیں مسلسل منفی میڈیا کوریج کا سامنا ہے۔ جب لاہور کے وکلا ملتان کے وکلا کی حمایت میں سامنے آئے تو انہیں بھی نظریہ ضرورت کی روح نے دبانے کی کوشش کی اور میڈیا سے سخت منفی کوریج کے ذریعے انکو معاشرے کا ناسور بنا کر پیش کیا۔ ابھی اس واقعے کی ناگواری کم نہیں ہوئی تھی کہ ملتان میں ایک اور واقعہ پیش آ گیا جس کے بعد نہ صرف وکلا پر مقدمے بنے بلکہ ان پر دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کر دی گئیں۔ اور تازہ اطلاعات کے مطابق وکلا رہنمائوں سمیت بہت سے دیگر وکلا گرفتاری دے چکے ہیں جبکہ سندھ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ہڑتال کا اعلان کر چکی ہے۔ یقینا دیگر بار ایسوسی ایشنز بھی سندھ بار کی پیروی کریں گی اور ملکی عدلیہ اور وکلا برادری ایک دفعہ پھر بحران کی کیفیت میں داخل ہو جائے گی۔ بار ایسوسی ایشنز حکومت اور میڈیا سے بہر حال یہ سوال پوچھنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ کیا وکلا دہشتگرد ہیں؟
سازشیں کرنے والے تو اس وقت تک اپنا کام جاری رکھیں گے جب تک قانون کے لمبے ہاتھ ان تک نہیں پہنچتے لیکن وکلا کو ان بحرانوں سے نکلنے کیلئے اپنے اندر ایک تحریک پیدا کرنا ہوگی۔ میرا تجزیہ اپنی جگہ لیکن وکلا برادری اور قائدین کو سب سے پہلے تو اس سوال پر غور کرنا چاہئے کیا یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت ہو رہا ہے اور اگر ہاں تو سازش کہاں سے ہو رہی ہے؟ سازش کا مقابلہ تو ادراک اور اتحاد کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے لیکن ایک چیلنج جسکا آج وکلا کو سامنا ہے وہ سازش کا مقابلہ کرنے سے بھی بڑا اور مشکل چیلنج ہے وہ خود احتسابی اور اندرونی اصلاح کا چیلنج ہے۔ وکلا برادری کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ کیا جج صاحبان کے ساتھ بدتمیزی اور عدالت کے احترام اور حرمت کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے توڑ پھوڑ قابلِ برداشت ہے؟ اگر وہ جج صاحبان کے ساتھ بدتمیزی کریں گے تو پھر ان میں اور ایسے ججوں میں کیا فرق رہ جائے گا جو وکلا کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہیں؟ انہیں اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ کہ احاطہ عدالت میں پولیس، سائلین اور رپورٹرز پر گروہوں کی شکل میں تشدد جائز ہے؟ اگر وکیل احاطہ عدالت میں پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنائیں گے تو اپھر انمیں اور ان پولیس اہلکاروں میں کیا فرق رہ گیا جو تھانوں اور نجی عقوبت خانوں میں شہریوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں؟ اگر وہ رپورٹروں کو تشدد کا نشانہ بنائیں گے تو پھر ان میں اور ایسے رپورٹروں میں کیا فرق رہ جائے گا جو غیر جانبدار اور معیاری رپورٹنگ کرنے کی بجائے بلیک میلنگ اور مفادات کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر وہ سائلین سے فیس لیکر انکا کام پیشہ ورانہ معیار کے مطابق نہیں کریں گے یا انکی اور انکے اسٹاف کی نظر کام کی بجائے سائلین کی جیبوں پر رہے گی تو پھر ان میں اور جیب کتروں میں کیا فرق رہ جائے گا؟ انہیں یہ بھی سوچنا ہو گا کہ اگر وہ آئے روز ہڑتالیں کر کے نظام عدل کو غیر موثر بنا دیں گے تو وہ تھالی جس سے وہ رزق کماتے ہیں آخر کتنے چھید برداشت کر سکے گی؟ وکلا کو جہاں اپنے اندر آمریتوں کی بیساکھی بننے اور آئین کے خلاف سازشیں کرنے والے انتہائی قابل لیکن اخلاقیات سے عاری افراد کو سائیڈ لائن کرنا ہو گا وہیں انتہائی نااہل اور گالی گلوچ، مار پیٹ اور ہڑتال باز قسم کے غیر پیشہ ورعناصر کی بھی بیخ کنی کرنی ہوگی جو پیشے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔وکلا اگر سازشوں کا مقابلہ کر بھی لیں اور اندرونی اصلاح میں پیش رفت ہو بھی جائے تو ایک مسئلہ پھر بھی رہے گا۔ ان ججوں کا کیا کیا جائے جو قابلیت اور رویے کے مطلوبہ معیار پر پورا نہیں اترتے یا پھر جو نظریہ ضرورت کے پیروکار ہیں، کسی کی ایما پر جمہوریت و آئین کی بالادستی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور آمریت اور غیر آئینی و غیر قانونی رویوں کو رعایتیں دیتے ہیں۔ اس کیلئے ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کی بھرتی، تربیت اور احتساب و جوابدہی کا نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جو پارلیمان اور حکومت کا کام ہے۔ وکلا تنظیموں کو اس ضمن میں دبائو بڑھانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین