• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں پونے بارہ بجے کے قریب ہال میں پہنچا، ہال کچھاکھچ بھرا ہوا تھا۔ تین پی ایس او، میجر جنرل خداداد (ایڈجوٹینٹ جنرل)، میجر جنرل عثمان مٹھا (کوارٹر ماسٹر جنرل) اور لیفٹینینٹ جنرل خواجہ وسیع الدین (ماسٹر جنرل آف آرڈیننس ) سب وہاں پہلی قطار میں موجود تھے، صرف گل حسن غائب تھے، اس بات نے میرے اندیشے کو تقویت دی کہ کہیں ان کی جان کو خطرہ نہ ہو ۔تاہم بار ہ بجنے سے ایک منٹ پہلے گل حسن پہنچ گئے ، تھکے ہوئے لگ رہے تھے مگر اُس شخص کی مانند جس نے دن بھر جانفشانی کے ساتھ کا م کیا ہو اور پھر کام کی محنت بھی وصول ہو گئی ہو۔ تقریباً اسی وقت جنرل حامد بھی مقررین کے لئے مختص کئے گئے راستے سے داخل ہوئے، پیچھے ان کا مدد گار تھا۔ وہ روسٹر کے پیچھے کھڑے ہوئے ، حاضرین پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی ، کھنکار کر گلا صاف کیا اور اپنی تقریر شروع کی ۔ایسے اعلیٰ عہدے کے افسر سے اِس قسم کی کانپتی ہوئی آواز میں تقریر کی امید کسی کو نہیں تھی ۔یہ ایک طویل اور تضادات سے بھرپور معافی نامہ تھا۔ فوج کے اعلی منصوبہ سازوں اور انتظامی عہدے داروں کی جانب سے۔ ’’ملک ایک سنگین اور نہایت سنجیدہ بحران سے گزر رہا ہے لیکن ہمیں مرد بن کر اس بحرا ن کا سامنا کرنا ہوگا۔‘‘ انہوں نے کہا اور اس کے ساتھ ہی پچھلے بنچوں اور گیلری سے غصے میںبھری آوازیں سنائی دینے لگیں ،یہ آوازیں لیفٹیننٹ کرنل اور اس سے نیچے کے افسرا ن کی تھیں۔اگلی قطار میں بیٹھے اعلیٰ افسران کیلئے اس بات کا اندازہ لگانا ممکن نہیں تھا کہ پچھلے بنچوں سے کیا کہا جا رہا ہے مگر ماحول کی تلخی بتا رہی تھی کہ جذبات کیا ہیں ،الفاظ کی ضرورت نہیں تھی ۔یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی آتش فشاں اُبلنے کو ہے۔ اعلیٰ قیادت مکمل طور پر تنہا اور اپنے ماتحت افسرا ن سے کٹی ہوئی لگ رہی تھی، جیسے دو ٹکروں میں بٹ گئی ہو، ایک بڑا حصہ جو ہم خیال تھا اور باقی چند اعلیٰ افسران جو اقلیت بن چکے تھے۔ جونیئر افسران اپنے جرنیلوں کے خلاف آپے سے باہر ہوئے جا رہے تھے ..... جب جنرل حامد نے کہا کہ ’’صدر مملکت نے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے لئے ہر ممکنہ کوشش کی.....‘‘ تو غصے میں بھرے ہوئے نوجوان افسران نے ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے لگانے شروع کر دئیے جن میں گالیوں کی آمیزش بھی ہو گئی۔ایک موقع پر تو جنرل حامد کو اپنی تقریر منقطع کرکے ہال سے باہر جانا پڑ گیا۔ایک عام تاثر یہ بھی ابھرا کہ جنرل حامد کی شرمندگی اور صدمہ محض دکھاوے کے لئے تھا، اصل مقصد نوجوان افسران کے غصے کا اندازہ لگانا تھا (اسی لئے اِس تقریب میں پہلے صرف لیفٹیننٹ کرنل اور اس سے اوپر کے افسرو ں کوبلایا گیا تھا جسے بعد میں تبدیل کرکے گیریژن میں موجود تمام افسران کے لئے لازم کر دیا گیا)اور اگر ماحول سازگار لگتا تو انتقال اقتدار میں تاخیر کی جاتی یا پھر یحییٰ خان کے لئے نرم شرائط پر جی ایچ کیو میں واپسی ممکن بنائی جاتی یا اس کی جگہ جنرل حامد کو آرمی چیف بنایا جاتا.....!‘‘ یہ اقتباس ہے بریگیڈئیر اے آر صدیقی کی کتاب ’’East Pakistan: The Endgame‘‘ کا ، جن بریگیڈئیر صاحب نے یہ کتاب لکھی ہے وہ ملک ٹوٹنے کے وقت آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے اور صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے میڈیا مشیر تھے۔
ایک پاکستانی کو قومی معاملات پر کیا موقف رکھنا چاہئے، یہ سوال اکثر ہانٹ کرتا رہتا ہے! 8اکتوبر 1958ءکو ملک میں پہلا مارشل لا لگتا ہے تو ریاست اپنے شہری سے کہتی ہے کہ یہ ملکی مفاد میں تھا لہٰذا تم اچھے بچے بن کر بلا چوں چراں اپنا کام کرو، آئین قانون کی بات مت کرنا۔شہری اسے سچ مان لیتے ہیں، ریاست پر بھروسہ کرتے ہیں، نتیجے میں حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ ملک ٹوٹنے کی نوبت آ جاتی ہے، گلی گلی میں تحریک شروع ہو جاتی ہے اور پھر بالآخر 1969میں اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کر دیاجاتا ہے۔ اب ایک مرتبہ پھر پاکستانی شہری کو بتایا جاتا ہے کہ یہی بہترین طریقہ تھا ملکی حالات درست کرنے کا لہٰذا تم چپ چاپ اپنا کام کرو اور باقی ہم پر چھوڑ دو۔ بیچارے عوام Animal Farmکے Boxerکی طرح دوبارہ اپنے کام میں جُت جاتے ہیں اور پھر 25مارچ 1971کی ایک رات انہیں بتایا جاتا ہے کہ مشرقی پاکستا ن میں فوجی آپریشن لانچ کیا گیا ہے، یہ آپریشن نا گزیر ہے، شورش کچلنے کا اس کے علاوہ کوئی طریقہ نہیں بچا تھا اور انشا ءاللہ اس سے بغاوت کچل دی جائے گی، ملک بچا لیا جائے گا، عوام بے فکر رہیں۔ عوام واقعی بے فکر ہو جاتے ہیں اور 16دسمبر 1971کوملک ٹوٹ جاتا ہے۔ ملک ٹوٹنے کے بعد کی صورتحال کا عکس بریگیڈئیر صدیقی کی کتاب میں بھی دیکھا جا سکتا ہے،ایک بات جو اس کتاب کے ہر صفحے پر تیرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ جب ملک ٹوٹ رہا تھا، فوجی آپریشن اپنے زوروں پر تھا،اُس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے، تمام افسران ایک دوسر ے سے پوچھتے تھے کہ اب کیا ہوگا، حتی ٰ کہ بھارت نے جب مغربی پاکستان کی سرحد پر حملہ کیا تو اس کی خبر ریڈیو پاکستان سے نشر ہوئی اور بطور آئی ایس پی آر کے چیف بریگیڈئیر صاحب کو اس بات کی اطلاع دفاعی مشیر سید غیاث الدین احمد نے دی جس نے پانچ بجے کے نیوز بلیٹن میں یہ خبر سنی جبکہ وہ خود اُس روز تین بجے تک صدر یحییٰ خان کے ساتھ تھا اور وہاں کسی نے اس حملے کے بارے میں ذکر تک نہیں کیا تھا۔ ایک المناک داستان ہے جو ختم ہونے میں ہی نہیں آتی۔لگ بھگ ہر سول اور فوجی افسر نے ہماری تاریخ کے اس بد ترین اور سیاہ باب پر کتاب لکھی ہے مگر کسی نے یہ اعتراف نہیں کیا کہ اُس کا اپنا کیا قصور تھا، حتی ٰ کہ ٹائیگر نیازی نے بھی کتاب لکھی اور خود کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا، جنرل اروڑہ کے ساتھ اپنی گفتگو کا حوالہ اپنی ہی کتاب میں موصوف دیتے ہیں اور اپنے بلند حوصلے اور صلاحیت کی گواہی بھارتی جنرل سے دلواتے ہیں۔
آج سقوط ِمشرقی پاکستان کو 46برس ہو گئے، مگر ملک تڑوا کر بھی ہمیں علم نہ ہو سکا کہ بطور پاکستانی قومی معاملات پر ہمارا موقف کیا ہونا چاہئے۔کیا فاطمہ جناح کی مخالفت درست تھی؟ کیا ایوب کا مارشل لا درست تھا؟ کیا یحییٰ خان کا فوجی آپریشن درست تھا؟ اگر نہیں تو ان تمام قومی معاملات پر اختلاف رائے رکھنے والوں کومحب وطن سمجھا جانا چاہئے جبکہ انہیں اُس وقت غدار کہا جاتا تھا اور اُن پرملکی مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام لگایا جاتا تھا۔ چلیں یہ پرانی باتیں ہوئیں، شاید کسی کو یاد نہ ہوں، حالیہ ماضی کی بات کرتے ہیں۔ طالبان کے عذر خواہ کیسی کیسی خوشنما تاویلیں اپنے قلم کے زور پر اِن کے حق میں گھڑتے تھے اور جب 16دسمبر کے ہی دن آرمی پبلک سکول میں بچوں کو آٹومیٹک ہتھیاروں سے بھونا گیا تو ریاست نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور اپنے شہریوں کو بتایا کہ اب کوئی نفرت انگیز مواد چھاپے گا اور نہ ہی مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر کرے گا، دہشت گردوںکی معافی کے دن ختم ہوئے۔شہریوں نے اس پر بھی یقین کر لیا۔ مگر پھر.....!!!
ہم پاکستان کے شہری ہیں، ہم ریاست کے وفادار ہیں، اپنے اداروں کی ہر بات پر اعتبار کرنا چاہتے ہیں، مگر ہمیں کم از کم یہ تو بتایا جائے کہ 1971سے لے کراب تک ہم نے کس بات کو درست اور کس بات کو غلط سمجھنا ہے، ہم خود کوئی اندازہ نہیں لگانا چاہتے، ریاست خود ہی کچھ بتا دے۔

تازہ ترین