• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج یہ کالم لکھتے وقت مجھے جو دقت ہورہی ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی شدید تکلیف ہورہی ہے‘ یہ مہربانی مرکزی حکومت کی ہے‘ مگر یہ ’’مہربانی‘‘ فقط مجھ پر کیوں؟ یہ مہربانی تو سارے سندھ پر ہے‘ مگر کیا پتہ‘ ہوسکتا ہے کہ یہ مہربانی باقی دو چھوٹے صوبوں پر بھی ہورہی ہو‘ یہ مہربانی یہ ہے کہ آج حیدرآباد کے جس علاقے میں میرا گھر ہے وہاں بجلی صبح کو سات بجے سے گئی تو کوئی ڈیڑھ بجے آئی۔ اطلاعات کے مطابق حیدرآباد کے کئی اور علاقوں میں اتنے عرصے کیلئے بجلی گئی ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب سے مرکزی حکومت کے متعدد وفاقی وزراء اور خود وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا کہ ’’ آج سے سارے ملک میں زیرو لوڈ شیڈنگ ہوگی‘‘ تو ملک کے اور باشندوں کی طرح سندھ کے لوگ بھی خوش ہوئے کہ چلو بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے تو جان چھوٹی‘ مگر سندھ کے لوگ یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئے کہ جس دن سے سارے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا اعلان کیا گیا تھا اس دن سے سندھ کے مختلف علاقوں میں بجلی 24 گھنٹوں میں دو دو گھنٹوں کیلئے کبھی دو بار تو کبھی تین بار جارہی ہے‘ اب سندھ کے لوگ شکایت کریں تو کس سے کریں‘ مگر جی ہاں‘ جناب وزیر اعظم و دیگر وفاقی وزراء نے یہ بھی تو اعلان کیا تھا کہ سارے ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کی جارہی ہے مگر جن علاقوں میں بجلی کی چوری کی جاتی ہے وہاں کچھ علاقوں میں بجلی دو دو گھنٹوں کیلئے دو بار اور کچھ علاقوں میں تین بار فرہم نہیں کی جائے گی۔ ارے ہاں ! ’’بیچاری پنجاب کے زیر تسلط مرکزی حکومت‘‘ کا تو کوئی قصور نہیں‘ جب سندھ میں بجلی کی چوری ہوگی تو وہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو ہوگی؟ آخر سندھ کے لوگ چور جو ٹھہرے‘ اگر کسی کو اس بات پر اعتبار نہ آئے تو مرکزی حکومت کے پانی و بجلی کے وفاقی مملکتی وزیر جناب عابد شیر علی سے پوچھ کر دیکھیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں عابد شیر علی بار بار یہ بات دہرا چکے ہیں کہ جہاں بجلی کی چوری ہوگی وہاں بجلی کی لوڈ شیڈنگ تو ہوگی۔ ان ’’صاحب‘‘ کو اس سلسلے میں خاص طور پر سندھ سے شکایت تھی کہ سندھ میں بجلی کی چوری ہوتی ہے‘ یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وہ جب سندھ آتے تھے اور حیدرآباد اور سکھر میں حیسکو اور سیسکو کے اعلیٰ حکام کے ساتھ اجلاس کرتے تھے تو وہ سندھ کے عوام پر خاصا غصہ کرتے تھے بلکہ ان اداروں میں مقرر نچلے گریڈ کے کارکن اکثر نجی طور پر بات چیت کے دوران شکایت کرتے تھے کہ عابد شیر علی سندھ کے اکثر لوگوں کو بجلی چور سمجھتے ہیں اور اجلاس کے دوران وہ ان اعلیٰ حکام کو بڑی سختی سے احکامات دیتے تھے کہ سندھ کے ان لوگوں کو نہ بخشا جائے جو بجلی کی چوری کے ذمہ دار ہیں مگر سندھ کے لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر کسی علاقے میں واقعی کچھ لوگ بجلی کی چوری کرتے ہیں تو ان کو ضرور سزا دی جائے مگر اسی علاقے کے ان لوگوں کیلئے بجلی کی فراہمی کیوں بند کی جاتی ہے جو باقاعدگی سے بجلی کے بلوں کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں سندھ کے لوگ یہ بھی شکایت کرتے ہیں کہ سندھ سے ہونے والے اس سلوک کا ایشو حکومت سندھ زوردار انداز میں کیوں مرکزی حکومت سے نہیں اٹھاتی؟ بہرحال سندھ کے ساتھ یہ جو سلوک ہورہا ہے اس کی ذمہ دار مرکزی حکومت ہے‘ جو سندھ میں پیدا ہونے والی بجلی بھی خود لے جاتی ہے اور اسے پنجاب میں استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ایک طرف سندھ اپنی بجلی سے بھی محروم کردیا جاتا ہے الٹا سندھ کو بجلی چور کہا جاتا ہے‘ اس بات کی بھی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہئے کہ بجلی کے اصل چور کون ہیں؟ سندھ کے ساتھ فقط بجلی کی چوری کے حوالے سے ایسا رویہ نہیں ‘ حقیقت یہ ہے کہ ایسے متعد دایشوز ہیں جن پر سندھ کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ تو چند پہلے کی بات ہے کہ مرکزی حکومت کے پانی کے مملکتی وزیر نے قومی اسمبلی میں کالا باغ ڈیم کے حوالے سے بیان دیتے ہوئے سندھ پر یہ انتہائی سنگین الزام لگایا کہ ’’جو لوگ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں وہ ہندوستان کی ’’را‘‘ کے ایجنٹ ہیں۔‘‘ اس قسم کا الزام پہلی بار لگایا گیا ہے‘ اس سے پہلے اس حکومت اور پانی کے وزراء بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ کالا باغ ڈیم نہ بننے کے نتیجے میں پانی وافر مقدار میں سمندر میں جاکر ضائع ہوجاتا ہے‘ اس سے بڑا جھوٹ کیا ہوسکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک دو ماہ کے علاوہ جب ملک میں سیلاب آتے ہیں‘ کوٹری بیراج سے نیچے سمندر تک دریائے سندھ میں پانی بہتا نظر نہیں آتا مگر مٹی ہوا میں اڑتی ہوئی نظر آتی ہے حالانکہ یہ صورتحال 1992 ء کے پانی کے معاہدے کی سخت خلاف ورزی ہے جس میں کوٹری بیراج کے نیچے جاری کیے جانے والے پانی کی مقدار مقرر کی گئی ہے حالانکہ سندھ نے اس مقدار پر شروع سے ہی اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے‘ اس معاہدے میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کسی بین الاقوامی ادارے سے اس بات کی اسٹڈی کرانی ہے کہ کوٹری بیراج کے نیچے کتنی مقدار میں پانی چھوڑنا ہے‘ مطلوبہ مقدار میں کوٹری بیراج کے نیچے پانی نہ چھوڑنے کی وجہ سے سندھ کے دو اہم اضلاع ٹھٹھہ اور بدین کو جو نقصان پہنچا ہے وہ تو اپنی جگہ مگر سمندر کو جو نقصان پہنچ رہا ہے یا اس کے نتیجے میں کراچی شہر کو جو نقصان پہنچ سکتا ہے اس کا حساب کون دے گا۔‘‘
سمندر میں مطلوبہ مقدار میں دریا کا میٹھا پانی نہ جانے کی وجہ سے سمندر ٹھٹھہ اور بدین کی لاکھوں ایکڑ زمین پر چڑھ آیا ہے جس کے نتیجے میں نہ فقط لوگوں کی بڑی تعداد بے گھر ہونے کی وجہ سے دوسرے علاقوں میں منتقل ہوگئی بلکہ بڑے پیمانے پر ان اضلاع میں زرعی زمین سمندر کے پانی کے نیچے آگئی ہے‘ اس کے علاوہ کراچی کے علاقے ملیر اور آس پاس کی بھی کافی زمین سمندر برد ہوچکی ہے‘ اس کے علاوہ سمندر میں دریا کا میٹھا پانی نہ جانے کی وجہ سے مچھلی کی ایک اہم قسم جسے ’’پلا‘‘ کہا جاتا ہے وہ ختم ہوگئی ہے۔ علاوہ ازیں ماہرین کے مطابق سمندر میں دریا کا پانی نہ آنے کی وجہ سے جھینگے کی پیداوار انتہائی کم ہوگئی ہے‘ اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق سمندر میں مینگروز کی پیداوار کو بھی شدید نقصان ہورہا ہے۔ واضح رہے کہ سمندر میں طوفان آنے پر یہ مینگروز ہی اس علاقے کی آبادی کو تحفظ فراہم کرتے ہیں‘ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان سارے عوامل کو مدنظر رکھے بغیر ہمارے وزراء کالا باغ ڈیم بنانے کے سلسلے میں بیانات دیتے رہتے ہیں لیکن ہندوستان کے وزیر اعظم مودی کے اس بیان کا کوئی نوٹس نہیں لیا جارہا ہے جس کے ذریعے اس نے چند دن پہلے کہا ہے کہ میں دریا سے پانی کی ایک بوند بھی پاکستان کی طرف جانے نہیں دوں گا اور ہر جگہ ڈیم بناکر پاکستان کی طرف پانی کے بہائو کو روک دوں گا۔ مودی کے اس بیان کو پڑھنے کے بعد کیا ’’مودی اور ہمارےحکمراں ایک پیج پر نظر نہیں آرہے ہیں‘‘ اب شکایت کریں تو کس سے کریں؟

تازہ ترین