• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ماضی کا بلوچستان دفن کردیا،آج لوگ جہاں جاناچاہیں جاسکتے ہیں،ثناءزہری

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ خان زہری نے کہا ہے کہ ماضی کا بلوچستان دفن کردیا،اسے دوبارہ آنے نہیں دیں گے،آج بلوچستان میں لوگ جہاں جانا چاہیں جاسکتے ہیں۔ وہ جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ کے میزبان سلیم صافی سے گفتگو کررہے تھے۔ یہ گفتگو کوئٹہ میں حکومت بلوچستان اور سدرن کمانڈ کے زیراہتمام سیمینارکے موقع پر کی گئی جسے پروگرام ’جرگہ‘ میں نشر کیا گیا۔اس موقع پر ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری،وزیرداخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی ،ترجمان بلوچستان حکومت انوارا للہ کاکڑ،وفاقی وزیر سینیٹر میر حاصل بزنجو اور نمائندہ جیو نیوز کوئٹہ سلمان اشرف سے بھی گفتگو کی گئی۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا کہ فوج اور ایف سی کی وجہ سے حالات میں بہت بہتری آئی ہے،سول حکومت کی رِٹ ہونی چاہئے جو بدقسمتی سے نہیں ہے،سی پیک کی وجہ سے بلوچستان کو بڑا چیلنج درپیش ہے۔وزیرداخلہ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ بارڈر مینجمنٹ ہمارے لئے بڑا چیلنج ہے،مذہب کے نام پر دہشتگر دی چیلنج ہے لیکن اسے ہینڈل کی صلاحیت رکھتے ہیں، صرف دو سو نوجوان ہیں جو مرنے مارنے کیلئے تیار ہیں، انہیں پیشکش کرتے ہیں کہ واپس آکر مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں، اگر وہ اپنا راستہ نہیں چھوڑتے تو ان کیخلاف فیصلہ کن کارروائی کی جائے گی۔ترجمان بلوچستان حکومت انوارا للہ کاکڑنے کہا کہ بلوچستان کے امن کیلئے سنجیدہ اقدامات کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر سینیٹر میر حاصل بزنجو نے کہا کہ ڈاکٹر مالک اور پھر ثناء اللہ زہری کی حکومت میں حالات میں بڑا فرق آیا ہے،اس دور میں بلوچستان میں ترقیاتی کام شروع ہوئے اور امن و امان کے معاملات بہتر ہوئے، بلوچستان کو دہشتگردی اور پسماندگی کے چیلنجز درپیش ہیں، موجودہ بجٹ کے ساتھ بلوچستان کو پروگریسیو علاقہ نہیں بنایا جاسکتا ہے۔سلیم صافی نے پروگرام میں اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ چمن سرحد پر تشویشناک اور افسوسناک صورتحال ہے، ایک طرف پاک فوج بارڈر مینجمنٹ پر لگی ہوئی ہے تو دوسری طرف چمن سرحد پر آج بھی نوے فیصد سے زائد لوگ بغیر ویزے اور پاسپورٹ کے آجارہے ہیں جبکہ وہاں مناسب چیکنگ کا انتظام بھی نہیں ہے،دنیا بھر میں کسی ملک کی سرحد پار کرتے ہیں،امیگریشن حکام سے سامنا ہوتا ہے لیکن چمن سرحد پر پاکستان کے امیگریشن کے دو اہلکار کافی فاصلے کے بعد ایک کونے پر بیٹھے ہوتے ہیں،اگر پاسپورٹ کا حامل فرد انہیں خود تلاش نہ کرے تو یہاں سے وہ کسی کوتلاش نہیں کرسکتے، وہاں ہزاروں لوگوں کا آنا جانا ہے لیکن امیگریشن کے صرف دو افراد ہیں جن کے پاس آلات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔سلیم صافی نے مزید کہا کہ صدر مملکت ممنون حسین فاٹا کے آئینی چیف ایگزیکٹو ہیں،فاٹا کے ارکان اسمبلی اس کیلئے قانون سازی نہیں کرسکتے لیکن صدر مملکت کو فاٹا کے ہر قسم کے آئینی و انتظامی ردوبدل کا اختیار حاصل ہے،ممنون حسین کو فاٹا کا آئینی بادشاہ کہا جائے تو نامناسب نہیں ہوگا،فاٹا اصلاحات کا معاملہ ایک سال سے کابینہ میں لٹکا ہوا ہے ،لیکن اس موقع پر کسی شخص کے منہ سے فاٹا سے متعلق کوئی لفظ نہیں نکلا تو وہ قبائلی علاقوں کے یہ بادشاہ ممنون حسین ہیں، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی اس پر تو خوش ہیں کہ قبائلی علاقہ جات کی قسمت کے مالک کراچی سے تعلق رکھنے والے یہی ممنون حسین رہے جن کی اپنی قسمت شاید لاہور کے میاں صاحب کے ہاتھ میں ہے لیکن خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام کی صورت میں اگر کوئی پختون ان کا وزیراعلیٰ بنتا ہے تو ان دونوں کو یہ فاٹا کے ساتھ زیادتی نظر آتی ہے، جب اٹھارہویں ترمیم تیار ہورہی تھی تب مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی نے نہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیا او ر نہ یہ تجویز پیش کی کہ فاٹا سے تعلق رکھنے والے فرد کو وہاں کا چیف ایگزیکٹو بنایا جائے، اٹھارہویں ترمیم میں یہ تبدیلی کی گئی کہ خیبرپختونخوا کا گورنر صوبے کا رہائشی ہوگا لیکن فاٹا کا رہائشی گورنر نہیں بن سکتا،اب جس قانون کو ان صاحبان نے دیگر جماعتوں سے مل کر تیار کیا اس کی رو سے کبھی ایبٹ آباد کے سردار مہتاب احمد خان تو کبھی پشاور کے اقبال ظفرجھگڑا فاٹا کے بادشاہ ہوں لیکن کبھی کوئی قبائلی چیف ایگزیکٹو نہیں بن سکتا، سوال یہ ہے کہ جب یہ قانون منظور ہورہا تھا تو قبائلی علاقوں کے ان دونوں غمخواروں نے اس زیادتی کا راستہ کیوں نہیں روکا اور اس وقت فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کیوں نہیں کیا۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ فاٹا کے عوام کی اکثریت خیبرپختونخوا کے ساتھ انضمام چاہتی ہے، فاٹا کے انیس اراکین پارلیمنٹ کی قرارداد انضمام کے حق میں موجود ہے جبکہ خیبرپختونخوا اس سلسلہ میں دو دفعہ قراردادیں پیش کرچکی ہیں، دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ فوج بھی فاٹا اور خیبرپختونخوا کا انضمام چاہتی ہے، امریکی سی آئی اے، ہندوستانی را اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی این ڈی ایس فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام نہیں چاہتی ہیں، یہ ایجنسیاں چاہتی ہیں کہ قبائلی علاقے اسی طرح سرزمین بے آئین بنے رہیں تاکہ وہ ان کو پاکستان کیخلاف لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرسکیں، مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی کی حب الوطنی پر کوئی شک نہیں لیکن سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انہوں نے کیوں ایسا راستہ اپنالیا جس سے قبائلیوں اور پاکستان کا نقصان جبکہ پاکستان مخالف قوتوں کا کام آسان ہورہا ہے۔ سلیم صافی کا کہنا تھا کہ فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا شوشہ چھوڑ کر مخصوص قوتیں قبائلیوں کو خیبرپختونخوا کے ساتھ اور قبائلیوں کوا ٓپس میں لانے کی سازش تیار کررہی ہیں،اس وقت پچاس فیصد سے زائد قبائلی خیبرپختونخوا میں رہ رہے ہیں، وہ اس صوبے کے کالج، اسپتال، اسکول وغیرہ استعمال کررہے ہیں، آفریدی، مہمند اور وزیر خیبرپختونخوا کے شہروں سے منتخب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں، خیبرپختونخوا کے آئی جی پولیس صلاح الدین محسود خود قبائلی ہیں، اسی طرح پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس بھی قبائلی آفریدی ہیں، فاٹا کے الگ صوبے کے داعی پراپیگنڈہ کررہے ہیں کہ خیبرپختونخوا فاٹا کے ساتھ ظلم کررہا ہے یا انضمام کی صورت میں کرے گا، حالانکہ فاٹا کا استحصال مرکز نے کیا ہے اور خیبرپختونخوا نے ہمیشہ مفت میں بوجھ اٹھایا ہے۔ سلیم صافی نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن اور محمود اچکزئی فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام روکنے کیلئے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں، اس کی ایک مثال مولانا فضل الرحمن کا یہ الزام ہے کہ فاٹا اصلاحات کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے، وہ یہ الزام لگاتے ہوئے نہیں سوچتے کہ کمیٹی اس حکومت نے بنائی تھی جس کا وہ خود حصہ ہیں، اچکزئی نے تو پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکر یہاں تک کہہ دیا کہ فاٹا پاکستان کا حصہ نہیں ہے، یہاں یادرکھنا چاہئے کہ فاٹا کے عوام نے 1947ء میں اپنی مرضی سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا، فاٹا آئینی و انتظامی لحاظ سے پاکستان کا حصہ ہے ۔

تازہ ترین