• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی نوعیت کے مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید فطری امر ہے

Todays Print

اسلام آباد(تبصرہ:طارق بٹ)سیاسی نوعیت کے مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید فطری امر ہے۔گرم سیاسی ماحول میںسیاسی نوعیت کے مقدمات میں اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کے قابل ذکر منفی پہلو نے بدقسمتی سے پاکستان کو متاثر کیا ہے، جب عدلیہ کے فیصلوں میں خامیاں تلاش کی جارہی ہیں۔ایسی صورتحال میں جب ایک فیصلے میں پاکستان کے منتخب وزیر اعظم کونااہل قرار دے دیا جائے جب کہ دوسرے فیصلے میں ان کی حریف جماعت کے سربراہ کو بری کردیا جائے ، جب کہ دونوں کو ایک جیسے الزامات کا سامنا تھا تو کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو یہ امید رکھے کہ اس طرح کے فیصلوں پر منفی یا مثبت تنقید نہیں ہوگی۔اس تناظر میں عدالت عظمیٰ کے کچھ ججوں کو سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہےاور وہ اپنا دفاع کرتے نظر آرہے ہیں ، یہاں تک کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنا یہ ہدف بنا لیا ہے۔پچھلے تینوں فیصلے ،جو کہ پاناما، عمران خان سے متعلق اور حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق تھے اور ان کے فیصلے ججوں کے مختلف پینلز نے کیے ، اس کے سبب ایک سیاسی بھونچال آگیا ہے۔چاہے یہ فیصلے بہترین نوعیت کے کیوں نہ ہوں ، سیاسی نوعیت کا مقدمہ ہونے کی سبب اس پر تنقید ہوتی رہے گی۔نواز شریف کے خلاف پاناما پٹیشن پر عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار جس نتیجے پر پہنچے تھے یعنی انہوں نے ان پٹیشنز کو غیر اہم کہہ کر مسترد کردیا تھا ، ان کی یہ بات نہ صرف عدلیہ بلکہ پاکستان کی سیاست کے لیے بھی بہتر تھی، اگر ان کے اس فیصلے کو تبدیل نہ کیا جاتا تو عدالت عظمیٰ کو اس تضحیک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ، جس کا سامنا وہ اب کررہے ہیں ۔یہ بہتر ہوتا کہ سیاست دانوں کو اپنے معاملات خود ہی سلجھانے دیئے جاتے۔نوا زشریف اور عمران خان کے مقدمات کی سماعت کے دوران لہجوں میں واضح فرق تھا، جسٹس گلزار احمد کے سوا ، تما م جج صاحبان کے ریمارکس خاصے تلخ تھے اور ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ اس وقت کے وزیر اعظم کو سیاسی طور پر تکلیف پہنچانا چاہتے تھے۔جب وزیر اعظم کو گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کے القاب سے نوازا جائے اور یہ ریمارکس دیئے جائیں کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے ایک جرم چھپا ہوتا ہے تو اس کا ردعمل ضرور آتا ہے۔جب کہ دوسری جانب جو جج صاحبان عمران خان کے خلاف پٹیشنز کی سماعت کررہے تھے ، ان کا رویہ بالکل ہی مختلف اور نرم تھا جس کی جھلک فیصلے میں بھی نظرآئی اور انہیں ہر الزام سے بری کردیا گیا۔ان تینوں فیصلوں سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ن خوش بھی ہوئیں اور اداس بھی۔اس طرح کے فیصلے سخت متنازعہ بن جاتے ہیں اور ان پر سیاسی مباحث شروع ہوجاتے ہیں ، کیوں کہ اس سے اگر ایک سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچے تو دوسری لازمی نقصان میں ہوتی ہے۔جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو پی ٹی آئی خوش ہوئی ، تاہم جب نیب کی حدیبیہ پیپر ملز کیس سے متعلق اپیل مسترد کی گئی تو اس پر تنقید کی گئی۔اسی طرح انہیں عمران خان کو بری کرنے پر اطمینان رہا لیکن جہانگیر ترین کی نااہلی پر رنج ہوا۔ن لیگ ظاہر ہے نواز شریف کے خلاف فیصلے پر ناراض ہوئی ، لیکن حدیبیہ پر دیئے جانے والے فیصلے پر مطمئن رہی ، جب کہ عمران خان کر بری کیے جانے کے فیصلے پر سخت تنقید کی۔پی ٹی آئی اور ن لیگ کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ان فیصلوں پر اپنی رائے دینے میں پیچھے نہیں رہیں۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اور ن لیگ کے رہنمائوں کے حوالےسے عدالت عظمیٰ کے فیصلے مثبت تھے ، تاہم یہ پیپلز پارٹی ہی ہے جسے عدلیہ نے ہمیشہ دوسری نگاہ سے دیکھا۔دیگر ریاستی اداروں کی طرح اعلیٰ عدلیہ کا ماضی بھی کوئی ایسا نہیں رہا جس پر فخر کیاجاسکے۔نظریہ ضرورت، مارشل لاء کی توثیق، ڈکٹیٹرز کو آئینی ترمیم کے اختیار دینا، ان کی غیر آئینی حکومت کے تحت حلف اٹھانا کوئی اچھی مثالیں نہیں ہیں۔چیف جسٹس نے عدلیہ پر تنقید کرنے والوں کو سخت جواب دیا، تاہم انہوں نے علامہ خادم رضوی کو نظر انداز کردیا جنہوں نے فیض آباد دھرنے میں ججوں کو کیا کچھ نہیں کہا۔کسی بھی عدالت نے انہیں توہین عدالت کا نوٹس نہیں بھیجا، بلکہ الٹا ان کے خلاف رجسٹرڈ تمام بدترین تشدد کے مقدمات واپس لے لیے گئے۔سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالت عظمی کے شامل ہونے سے چھوٹے مقدمات بھی بڑے ہوجاتے ہیں ، اسی لیے سمجھدار لوگ اب مشورہ دے رہے ہیں کہ عدلیہ کو اس طرح کے مقدمات سے دور رہنا چاہئے۔یہ سیاست دانوں کی بھی غلطی ہے کہ وہ سیاسی سطح پر ناکامی کے بعداس طرح کے مقدمات عدالتوں میں لے جاتے ہیں ۔تاہم اعلیٰ عدالتوں کو اس عمل کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہئے۔عدالتوں کو چاہیئے کہ وہ سیاسی محاذوں سے اپنے دامن کو بچائے ۔جہاں تک عمران خان سے متعلق فیصلے کا تعلق ہے، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جن کا نواز شریف سے کوئی قریبی تعلق نہیں ہے، ان کا بھی کہنا ہے کہ یہ اچھا فیصلہ نہیں ہے۔دونوں مقدمات ایک ہی نوعیت کے تھے ، لیکن ایک کو ریلیف فراہم کیا گیا جب کہ دوسرے کو ریلیف نہیں دیا گیا۔حالیہ فیصلے کی نظر ثانی میں دم ہوگا۔

تازہ ترین