• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی عدالت عظمیٰ کے سربراہ جسٹس ثاقب نثار نے فراہمی انصاف کے عمل کو تیز رفتار اور آسان بنانے کے لیے بجا طور پر عدالتی نظام میں فوری اصلاحات کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ ’’حصول انصاف کے لیے سائلین کو درپیش مسائل اور ان کا حل‘‘ کے موضوع پر پاکستان بار کونسل کے سیمینار اور’’ تصفیہ تنازعات کے متبادل نظام‘‘ کے موضوع پر پنجاب جو ڈیشل اکیڈمی کے مذاکرے سے گزشتہ روز لاہور میں اپنے خطابات میں انہوں نے اہم نکات اجاگر کیے۔سیاسی شخصیات کے حالیہ اہم مقدمات کے حوالے سے پائے جانے والے اس تاثر کی انہوں نے پرزور تردید کی کہ ان مقدمات میں مخصوص فیصلوں کے لیے عدالت پر کسی جانب سے کسی قسم کا کوئی دباؤ ڈالا گیا ہے۔انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں،ایسا کوئی ابھی پیدا ہی نہیں ہواجو ہم پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا فیصلہ کرالے۔چیف جسٹس نے عدالتی فیصلوں پر تنقید کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے وضاحت کی کہ فیصلوں میں کسی کمزوری کی نشان دہی غلط نہیں مگر نیت پر شبہ نہیں کیا جانا چاہئے۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی ہے، عدلیہ پوری قوم کے بزرگ اور سرپرست کی حیثیت رکھتی ہے ، لہٰذا اپنے خلاف فیصلہ آنے پر اسے گالیاں نہ دیں۔ چیف جسٹس نے بار کونسل کو عدالتی نظام میں اصلاحات کے لیے تعاون کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ مقننہ ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو ہمیں آگے آنا ہوگا۔موجودہ عدالتی طریق کار کے سبب عوام الناس کو پیش آنے والی تکلیف دہ مشکلات اور اذیت ناک صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے ملک کے منصف اعلیٰ نے کہا کہ ہم ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں ایک بیوہ پنشن کے لیے گیارہ سال دھکے کھاتی ہے اور کرایہ دار سے مکان خالی کرانے میں تیرہ سال لگ جاتے ہیں۔وکلاء کی آئے دن کی ہڑتالوں، مقدمات کی پیشیوں سے رخصت کے لیے نزلہ زکام جیسے عذرات اور بھاری فیسوں پر بھی چیف جسٹس نے سخت تشویش کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ وکلاء عام آدمی کے لیے انصاف کو آسانی سے اور کم وقت میں ممکن الحصول بنانے کے لیے اپنے رویے بہتر بنائیں گے۔اے ڈی آر یعنی تنازعات کے تصفیے کے متبادل نظاموں کو اختیار کرنے پر زور دیتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایا کہ یہ واحد حل ہے جس کے ذریعے ہم طویل مقدمہ بازیوں سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ہر مقدمے میں ایک فریق سچا ہوتا ہے لیکن وہ سالہا سال اپنی سچائی ثابت کرتے ہوئے بعض اوقات جھوٹا قرار پاجاتا ہے۔ایک کمزور بوڑھی عورت کے اڑھائی مرلے کے مکان پر قبضہ ہوجاتا ہے اور وہ مکان کی بازیابی کے لیے برسوں دھکے کھانے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ ہمارے معاشرے کا استحصال ہے۔ ہمیں وکالت کو عبادت سمجھ کر کرنا ہے کاروبار سمجھ کر نہیں۔ چیف جسٹس نے ہمارے موجودہ عدالتی نظام کی جن خامیوں کی نشان دہی کی ہے بلاشبہ ان کا ازالہ ہماری فوری قومی ضرورت ہے۔ انصاف نہ ملنے ہی کے نتیجے میں معاشرے بے چینی، مایوسی اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں آئے دن ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں کہ ایک شخص تیس چالیس سال جیل میں گزارنے کے بعد مقدمے کے حتمی فیصلے میں بے قصور قرار پایا اور با عزت بری کردیا گیا۔ نچلی عدالتوں کا حال عام طور پر نہایت ناگفتہ بہ ہے ۔ سفارش اور رشوت کی لعنت سے بھی ہماری نچلی سطح کی عدالتیں ابھی پوری طرح پاک نہیں ہوئیں۔ مقدمات میں زیادتی پر ہونے والے فریق کے وکیل کی جانب سے تاخیری حربے بھی اسی لیے کامیاب ہوتے ہیں جبکہ روایتی عدالتی نظام پر مقدمات کا بے پناہ بوجھ بھی انصاف میں تاخیر اور غلط فیصلوں کا ایک بڑا سبب ہے۔ صورت حال میں بہتری لانے کے لیے پنچایت، جرگہ، یونین کونسل وغیرہ تنازعات کے تصفیے کے متبادل نظام کے طور پر کام کرسکتے ہیں ۔ چیف جسٹس کے بقول انہوں نے اس بارے میں اہم تحقیقاتی کام کیا ہے لہٰذا پارلیمنٹ کو عدلیہ کی مشاورت سے ان متبادل نظاموں کے لیے ضروری قانون سازی جلداز جلد کرنی چاہئے ۔

تازہ ترین