• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست زوروں پر ہے۔ ماڈل ٹائون رپورٹ عدلیہ کے حکم پر کھول دی گئی اور اس میں سب کچھ ہے اور ہے بھی نہیں۔ لوگ اپنا اپنا نظریہ پیش کررہے ہیں اور اپنے اپنے مطلب کا تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ میںآپ کو اس گندی سیاست کے بارے میں مزید تکلیف نہیں دینا چاہتا بلکہ چند اچھی معلوماتی کتب پر مختصر سا تبصرہ کرنا چاہتا ہوں۔
(1) پہلی کتاب ایک اچھے محب وطن پاکستانی جمیل احمد خان کی ہے۔ یہ تقریباً 35 سال سے میرے دوست ہیں۔ بہترین شخصیت، دراز قد، اچھے مقرر اور اسمارٹ ہیں۔ شروع میں بی ایس سی کرکے فوج میں بھرتی ہوگئے، سعودی عرب بھی گئے۔ میرا ان سے تعلق اس وقت ہوا جب یہ کچھ عرصہ کیلئے کراچی میں ایمبارکیشن ہیڈکوارٹر میں تعینات تھے وہاں ہمارا گیسٹ ہائوس تھا اور اس وقت ایمبارکیشن ہیڈکوارٹر کے سربراہ کرنل مسعود احمد خان تھے ۔ فوج میں ساتھیوں کو شرارتی نام رکھنے کا شوق ہے کرنل مسعود کو ایسے ہی شرارتی نام سے پکاراجاتا تھا آپ کرنل مسعود کہیں تو فوجی فوراً پوچھتے کون مسعود، وہی مسعود؟ جمیل احمد خان نے ان کے ساتھ کام کیا تھا بعد میں یہ پولیس سروس میں چلے گئے۔ گھومتے پھرتے اسلام آباد میں ایس ایس پی تعینات ہوئے اور پھر ہمارا رابطہ رہنے لگا۔ ان کا بہت اچھی ریپوٹیشن تھی۔ جب صدر فاروق لغاری نے بینظیر صاحبہ کی حکومت توڑی تو ان کیلئے کام کرنا مشکل ہوگیا۔ مجھے ایک سیکورٹی اَفسر کی ضرورت تھی میں نے شاہد حامد صاحب سے درخواست کی کہ انھیں میرے پاس پوسٹ کردیں اور اس طرح یہ ہمارے پاس آگئے، اچھی کارکردگی دکھائی۔ انگلینڈ میں وظیفہ ملا تو جاکر ایل ایل ایم کرلیا اور پھر یو این میں مشرقی تیمور فورس میں چلے گئے۔ پھر نیویارک، پھر بینظیر نے یا زرداری صاحب نے لیبیا میں سفیر اور پھر امارات میں سفیر لگا دیا۔ وہیں سے ریٹائر ہوئے اور اب کراچی میں رہتے ہیں۔ جمیل احمد خان نے اپنی سوانح حیات لکھی ہے اس کا نام ہے ’’سپاہ گری سے سفارت کاری تک‘‘۔ یہ کتاب اُنھوں نے خود شائع کی ہے۔میں آپ کی خدمت میں جناب جنرل معین الدین حیدر سابق وزیر داخلہ اور سابق گورنر سندھ، اور جناب جمشید مارکر سابق سفیر پاکستان و سابق مشیر سیکرٹری جنرل یو این کے تاثرات پیش کررہا ہوں۔ ’’کیپٹن جمیل احمد خان سے میری پہلی ملاقات جہلم چھائونی میں 1977 میں ہوئی۔جہاں ہم دونوں کی ڈیوٹی لائن آف کنٹرول کشمیر سے متعلق تھی۔ پھر یہ فوج سے پاکستان پولیس میں تعینات ہوگئے اور ان سے اگلی ملاقات کراچی میں 1997 ء میں ہوئی جہاں یہ ایس ۔ایس ۔ پی (ایسٹ) تعینا ت تھے اور میں گورنر سندھ کے فرائض سر انجام دے رہا تھا۔ پھر یہ 20 گریڈ کے عہدے تک ترقی پا گئے اور یو۔این۔او میں اپنی صلاحیتوں کی بناپر ایڈوائزر منتخب ہوئے لیکن ہمارا رابطہ قائم رہا۔ اس کے بعد فارن آفس میں آگئے اور لیبیا اورمتحدہ عرب امارات میں بطور سفیر خدمات انجام دیں۔ان کا کیریئر ہمیشہ بہت شاندار رہا۔ فوج، پولیس، یو این او، داخلہ اور خارجہ امور کے تجربات سے ان کے پاس معلومات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے۔ مجھے ازحد خوشی ہے کہ حاصل شدہ وسیع تجربے اور اپنی یادداشتوں کو ’’سپاہ گری سے سفارت کاری تک‘‘ کی شکل میں ضبطِ تحریر میں لائے ہیں۔مجھے پوری امید کہ پاکستان کے نوجوان ان کی اِس کاوش سے ایک نیا عزم، حوصلہ اور ولولہ حاصل کرینگے کہ محنت اور لگن سے کامیابی کی منزل تک پہنچنا کوئی ناممکن بات نہیں۔ امید ہے کہ جمیل احمد خان آئندہ بھی اپنے تجربات کو اسی طرح ضبطِ تحریر میں لاتے رہیں گے۔
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) معین الدین حیدرسابق گورنر سندھ، سابق وزیر داخلہ۔ پاکستان‘‘
’’سفیر پاکستان جمیل احمد خان ایک انتہائی باصلاحیت سول سرونٹ رہے ہیں جنہوں نے نہایت تن دہی اور جانفشانی سے فوج، پولیس، سفارتکاری اور عالمی سطح پر قیام امن جیسے مختلف شعبوں میں ملک کی خدمت کی ہے۔
ان کی پیشہ ورانہ زندگی کی روداد، سندھ کے تپتے میدانوں سے شروع ہوتی ہے جہاں جفاکش افراد جنم لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فوج میں بھی جمیل پیراشوٹنگ جیسی کٹھن تربیت میں اوّل آئے اور دوسرے فوجی کورسز میں بھی نمایاں مقام حاصل کرنے کے بعد پولیس میں مشکل ترین اور اہم علاقوںمیں بھرپور اورقابل ستائش انداز میں فرائض انجام دیتے رہے۔ جمیل احمد خان سے میرا پہلا تعارف اس وقت ہوا جب انہوں نے اقوام متحدہ میں مشیر امن کے فرائض سنبھالے۔ میں اس وقت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا خصوصی نمائندہ برائے ایسٹ تیمور تھا اور ہم ایک نئے آزاد ملک کے اداروں کی تعمیر و تنظیم کے کام میں مصروف تھے۔ اس مشن میں جمیل احمد خان نے نہایت شان دار کارکردگی، ذہانت اور جوش و ولولہ کا مظاہرہ کیا اور بین الاقوامی سینئر اہلکار کے طور پر اپنا سکّہ منوایا اور نمایاں رتبوں پرتعینات ہونے کے بعد وطن عزیز میں واپس آئے جہاںانہوں نے سفیر ِپاکستان کے طور پر کئی ممالک میں اپنی خدمات احسن انداز میں انجام دیں۔جمیل احمد خان کی خودنوشت یادداشتیں زندگی کے ان دل موہ لینے والے واقعات اور خدمات کا مجموعہ ہیں جو انہوں نے اپنے وطن کی توقیر کی خاطر انجام دیں۔ اس کتاب کا مطالعہ ملک کی نوجوان نسل کیلئے رہنمائی اور آئندہ زندگی میں ترقی کیلئے سرچشمۂ فیض ثابت ہوگا۔
جمشید مارکر، سابق سفیر پاکستان، سابق مشیر برائے سیکرٹری جنرل، اقوام متحدہ
مئی ۔ 2015 ‘‘
میری دُعائیں جناب جمیل احمد خان کے ساتھ ہیں اللہ پاک ان کو تندرست و خوش و خرم رکھے، عمر دراز کرے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
دوسری کتاب ہمارے مشہور صحافی اور دانشور جناب ضیاء شاہد صاحب کی تحریر کردہ ہے، کتاب کا نام ’’باتیں سیاستدانوں کی۔ایوب خان سے عمران خان تک‘‘ہے۔ اس میں انھوں نے سابق مشہور ہستیوں یحییٰ خان، بھٹوصاحب، شیخ مجیب الرحمن صاحب، نوابزادہ نصراللہ خان، سید ابوالاعلیٰ مودودی، جنرل ضیاء الحق سے ملاقاتوں، تاریخی حقائق کے بارے میں اپنے تاثرات پیش کئے ہیں۔ اگر آپ ضیاشاہد صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی پر نظر ڈالیں تو ملک کا کوئی اچھا اخبار، اچھا رسالہ ان کی سرپرستی و رہنمائی سے محتاج نہیں رہا۔ دُنیائِ صحافت میں آپ کا نام (اور کام) عزّت سے لیا جاتا ہے۔ غلام اسحق خان صاحب کے باب میں تھوڑی سی تصحیح کی ضرورت ہے آپGIK انسٹی ٹیوٹ کے ریکٹر نہیں بلکہ ایک این جی او SOPREST کے سرپرست تھے جسکی نگرانی میں انسٹی ٹیوٹ بنایا گیا تھا۔ انسٹی ٹیوٹ بنانے کا مشورہ میں نے دیا تھا، میں نے ہی پوری پلاننگ کی تھی میں ہی دس سال پروجیکٹ ڈائریکٹر تھا اور میری سرپرستی میں ہی یہ کام شروع ہوا تھا۔ یہ کام میں نے جناب غلام اسحق خان کی ملکی خدمات پراحسان کا شکریہ ادا کرنے کیلئے کیا تھا ورنہ یہاں کون سا صدر اور کون سا حکمراں یاد رہتا ہے۔ میں ان کی اپنے والد کی طرح عزّت کرتا تھا اور مجھے احساس تھا کہ وہ بھی مجھ سے اپنے بیٹے کی طرح محبت کرتے تھے۔ انھوں نے جس طرح ایٹمی پروگرام میں میری مدد کی (اور غدّاروں سے محفوظ رکھا) اس کے احسان کے طور پر میں نے یہ انسٹیٹیوٹ بنایا تھا اوربہت سے فنڈز و سامان مہیا کئے تھے۔ یہ غلط تاثر ہے کہ انھوں نے بینظیر صاحبہ کو ایٹمی پروگرام سے بے خبر یا باہر رکھا۔ ایوان صدر میں ان کی اور جنرل امتیاز اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی موجودگی میں مَیں نے تمام حقائق سے باخبر کیا تھا۔ بینظیر صاحبہ نے کبھی خود وہاں آنے کی کوشش یا عندیہ نہیں دیا ۔ ورنہ میں خود ان کو لینے جاتا۔ جناب ضیاء شاہد صاحب نے ان تمام مشہور شخصیات کے انٹرویوز شائع کئے ہیں اور یہ پاکستان اسٹڈیز اور قومی سلامتی کے طالبعلموں اور اسکالرز کیلئے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔ آپ نے 12 سے زیادہ کتابیں اور سینکڑوں کالم لکھے ہیں۔ اللہ پاک ان کو تندرست و خوش و خرم رکھے، عمر دراز کرے اور ہر شر سے محفوظ رکھے۔آپ جوائنٹ ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ جنگ بھی رہے ہیں۔
تیسری نہایت مفید اور دلچسپ کتاب ’’بحر شفاء‘‘ ہے جس میں ذہنی، جسمانی، روحانی مسائل و امراض کیلئے مستند قرآنی اور روحانی علاج کے طریقے بیان کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کے مؤلفین مولانا محمد آصف قاسمی، مفسر قرآن، امیر جامعہ اسلامیہ کینیڈا، اور عزیز دوست اور ماہر ذہنی اور روحانی علوم ڈاکٹر محمد عمران یوسف ہیں۔ اس کا پہلا حصّہ فضائل، شرائط آداب، دوسرا حصّہ اسماء الحسنیٰ، قبولیت دعا کی کنجی، تیسرا حصّہ انسان کو درپیش مسائل و امراض اور ان کے روحانی حل، چوتھا حصّہ قرآنی سورتیں، فضائل اور عملیات وغیرہ ہیں۔ اس مختصر سی کتاب میں لاتعداد بیماریوں کیلئے روحانی (قرآنی) علاج درج ہے۔ یہ کتاب نہایت مفید ہے اور میرا مشورہ ہے کہ ہر گھر میں اس کا ایک نسخہ رکھنا ضروری ہےتا کہ قرآنی آیات کی مدد سے بیماریوں سے نجات حاصل کی جاسکے ۔ لاتعداد دُعائیں دونوں مؤلفین کیلئے ہیں اللہ پاک ان کو اس نیک کام کی جزا دے، خوش و خرم رکھے، حفظ و امان میں رکھے اور ہر شر و نظر بد سے محفوظ رکھے۔

تازہ ترین