• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی عدلیہ کے فیصلوں پر رائے دنیا کا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری کے بقول ماضی میں عدلیہ کے بعض فیصلے ایسے ہیں ، جن پر فخر نہیں کیا جا سکتا لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما حنیف عباسی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے ، اس سے پاکستانی تاریخ کا دھارا اس رخ پر چلنے لگے گا ، جس پر بعض عدالتی فیصلوں نے ماضی میں نہیں چلنے دیا تھا ۔ اس فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو صادق اور امین قرار دے دیا گیا ہے جبکہ تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کے بار ے میں کہا گیا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے ۔ اس طرح انہیں تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا ہے ۔
اس فیصلے سے یقیناً پاکستا ن میں ایک نئی تاریخ رقم ہو گی ۔ عمران خان اب پاکستانی سیاست کا محور بن چکے ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے اس فیصلے کو ایک ’’ اسکرپٹ ‘‘ کا حصہ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جہانگیر ترین کی قربانی دے کر انصاف کا دکھاوا کیا گیا ۔ فیصلے کا مقصد تحریک انصاف اور عمران خان کو بچانا تھا ۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کے بارے میں فیصلے نے اس تاثر پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے کہ نواز شریف سے ناانصافی ہوئی ۔ دیگر مختلف حلقے بھی اس فیصلے پر اپنی آراء دے رہے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا لیکن سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فاضل جج جناب جسٹس فیصل عرب نے اپنے تحریری فیصلے میں ان لوگوں کو قانونی اور مدلل انداز میں جواب دے دیا ہے ، جو میاں محمد نواز شریف اور عمران خان کے مقدمات کا موازنہ کرتے ہیں ۔ جسٹس فیصل عرب نے تحریرکیا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے عوامی عہدہ لینے کے بعد دولت بنائی جبکہ سہواً اثاثے ظاہر نہ کرنے والا بددیانت نہیں ہوتا ۔ فیصلے کے میرٹس ( Merits ) اور ڈی میرٹس ( De Merits ) پر بحث میں الجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور کوئی بھی عدالتی فیصلہ ایسا نہیں ہوتا ، جو ہمیشہ ناقابل تنسیخ رہا ہو ۔ مگر اس وقت حقیقت یہ ہے کہ عمران خان عدالتی فیصلے میں اگر نااہل ہو جاتے تو پاکستانی سیاست میں جو بڑی تبدیلی آگے نظر آ رہی ہے ۔ وہ کبھی رونما نہ ہوتی اور پاکستانی سیاست پرانی ڈگر پر چلتے چلتے بالآخر ناکامی سے دوچار ہوتی ۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ عمران خان پاکستانی سیاسی تاریخ کے انتہائی مقبول رہنما ہیں ۔ اس کا ثبوت ان کے عوامی جلسے ہیں ۔ پاکستان کے ہر علاقے میں انہوں نے بڑے جلسے منعقد کرکے دکھائے ۔ انہوںنے جتنے جلسوں سے خطاب کیا ہے ، اتنے جلسوں سے تو شاید ذوالفقار علی بھٹو نے بھی خطاب نہیں کیا ہو گا ۔ لوگوں کو ان کے جلسوں میں لایا نہیں جاتا بلکہ لوگ خود آتے ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف نے بھی پاناما کیس میں اپنے خلاف عدالتی فیصلہ آنے کے بعد اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کیا ۔ مگر نواز شریف کے دو جلسوں میں جتنا وقفہ ہوتا ہے ، اس وقفے میں عمران خان دس جلسے منعقد کر چکے ہوتے ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی عوامی رابطہ مہم میں عمران خان سے بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔ عمران خان کی سیاسی مقبولیت اور عوامی حمایت کا اس وقت کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
بعض حلقے عمران خان کے بارے میں اپنی مخصوص سوچ کی بنیاد پر ان کی سیاست کو مسترد کرتے ہیں ۔ ان حلقوں کا کہنا یہ ہے کہ عمران خان نے کبھی جمہوری جدوجہد میں حصہ نہیں لیا ۔ انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت نہیں کیں ۔ انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے صدارتی ریفرنڈم کی مہم میں حصہ لیا تھا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے اس طرح مخالف نہیں ہیں ، جس طرح پیپلز پارٹی یا دیگر ترقی پسند سیاسی جماعتیں ہیں اور جس طرح آج مسلم لیگ (ن) مخالف ہو گئی ہے ۔ یہ حلقے عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ بھی قرار دیتے ہیں ۔ مگر وہ یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں رہے اور میاں محمد نواز شریف کی سیاست تو جنرل ضیاء الحق کی مرہون منت ہے ۔ عمران خان نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کی ’’ حمایت ‘‘ کا فائدہ اٹھا کر کبھی حکومت میں شمولیت اختیار نہیں کی اور نہ ہی حکومتوں میں اپنے نمائندے بھیجے ۔ انہوں نے لوگوں کویہ یقین دلا دیا ہے کہ ان کی لڑائی اقتدار کیلئے نہیں ہے ۔ اقتدار تو انہیں کسی بھی طریقے سے مل سکتا تھا لیکن انہوں نے اقتدار میں آنے کیلئے وہی راستہ اختیار کیا ، جو حقیقی عوام دوست سیاست دانوں کو اختیار کرنا چاہئے ۔
یہ بھی ٹھیک ہے کہ پاکستان میں طبقاتی تفریق بہت گہری ہے ۔ چھوٹی قوموں اور چھوٹے صوبوں کی محرومیاں بھی ہیں لیکن عوامی جمہوری اور قومی جمہوری سیاست کے جن دعویداروں کو عوام نے 1960 ء سے 1990 ء کے عشروں تک پذیرائی بخشی ۔ آج وہ لوگ پاکستان کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹک ( سماجی جمہوری ) سیاسی جماعت کہتی ہے ۔ اس کے لوگوں نے بلا شبہ پاکستان میں سوشل ڈیموکریسی کیلئے بہت قربانیاں دیں لیکن یہ حقیقت بیان کرتے ہوئے بہت دکھ ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے لوگ بھی اسی راستے پر چل پڑے ، جس راستے پر آمریت کے پروردہ سیاست دان گامزن تھے آج سیاست صرف اور صرف دولت جمع کرنے کا نام بن کر رہ گئی ہے ۔ جدوجہد کرنے والے اور نظریاتی کارکنوں کی کوئی اہمیت نہیں رہی ۔ سیاسی جماعتوں کی اپنی کوئی سمت نہیں رہی ۔ اس صورت حال میں عمران خان نے لوگوں کو یہ باور کرا دیا ہے کہ انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی ۔ انہیں دولت جمع کرنے کی ہوس بھی نہیں ہے ۔ ان کے اپنے جائز وسائل اتنے ہیں کہ مزید انہیں کسی چیز کی خواہش نہیں رہی ۔ ان کے خاندان کے لوگ انکی سیاسی قیادت میں وراثت کے دعویدار نہیں ہیں۔ انہوں نے لوگوں کو اس بات پر بھی قائم کر لیا ہے کہ طبقاتی اور قومی تضادات اور دیگر مسائل سے زیادہ بڑا ایشو کرپشن ہے ، جس نے ان قوتوں کو بھی اپنی ڈگر سے ہٹا دیا ہے ، جنہوں نے عوام کے حقوق اور جمہوریت کے عظیم کاز کیلئے قربانیاں دی تھیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے کبھی حکومتی عہدہ نہیں لیا ۔ اس لئے بھی ان کے ہاتھ صاف ہیں ۔ پاکستان کے لوگ جمہوری جدوجہد کے تسلسل اور نظریاتی سیاست کو بھول گئے ہیں اور وہ کرپشن کے خلاف عمران خان کے نعرے پر ان کی طرف کھنچتے چلے جا رہے ہیں ۔ اس میں قصور کس کا ہے ؟ اس سوال کا معروضی جواب ہم جیسے لوگوں کیلئے تکلیف دہ ہے ، جنہوں نے ساری زندگی نظریات اور مثالیت پسندی کیلئے وقف کر دی ۔
عمران خان نے اگرچہ آمرانہ قوتوں کو للکارنے کی بجائے ان سیاسی قوتوں کو للکارا ، جنہوں نے سیاست جیسے مقدس پیشے کو بدنام کیا ۔ شروع شروع میں ہمیں بھی ان کا طرز عمل عجیب سا محسوس ہوتا تھا لیکن پاکستان کے عوام نے ہمیں الجھن سے نکالا ۔ ماوزے تنگ نے درست کہا تھا کہ ہم دانشور الجھنوں کا شکار رہتے ہیں ۔ اصل ہیرو عوام ہوتے ہیں ۔ ہمیں عوام سے سیکھنا چاہئے ۔ عوام کی اجتماعی دانش نے پہلے نئے راستے کا تعین کر دیا ۔ ہم نے سمجھنے میں دیر کی ۔ عمران خان نے پاکستان کے لوگوں کو یہ یقین بھی کرا دیا ہے کہ وہ سیاست کو کرپشن سے پاک کر سکتے ہیں ۔ دیگر سیاست دان عوام کے اس یقین اور اعتماد سے محروم ہو رہے ہیں ۔ عدالت کے فیصلے کے قانونی پہلؤوں اور ’’ مبینہ اسکرپٹ ‘‘ پر بحثیں جاری رہیں گی لیکن یہ بھی ایک تاثر ہے کہ عمران خان کی عوامی تائید پر مہر لگ گئی ہے ۔ آئندہ کی سیاست عمران خان کے گرد گھومے گی ۔
یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ حالات ایسے ہی رہیں ۔ تاہم اس وقت حقیقت یہ ہے کہ عوام کی نظر میں وہ روایت شکن ہیں اور وہ تبدیلی لانے کی اہلیت رکھتے ہیں ۔ انہیں اپنے ایجنڈے پر عمل کرنے کیلئے ان رکاوٹوں یا مخالفتوں کا سامنا بھی نہیں ہے ، جو بھٹو یا دیگر قائدین کو تھا ۔ آج پاکستان کے عوام آمریت سے زیادہ اس سیاسی اور جمہوری کلچر سے نفرت کرتے ہیں ، جو بدعنوانی ، خراب حکمرانی ، اقرباء پروری اور ناانصافی سے پہچانا جاتا ہے اور انکے رہنما بادشاہوں سے بھی زیادہ ناقابل رسائی ہیں ۔ ان حالات کے تناظر میں پاکستان کے عوام کی اکثریت سپریم کورٹ کے فیصلے کو بہت اہم قرار دے رہی ہے ۔مختصر یہ کہ اس حقیقت سے انکارممکن نہیں ہے کہ اب عمران خان کا امتحان شروع ہوچکا ہے۔

تازہ ترین