• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس آف پاکستان، میاں ثاقب نثار نے کہا ہے، کسی پلان کا حصہ نہیں ہم پر دبائو ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا، نہیں چاہتا میرے بعد اولاد شرمندہ ہو، منصوبے کا حصہ ہوتے تو حدیبیہ کا یہ فیصلہ نہ آتا، عدلیہ قوم کا بابا، خلاف فیصلہ آنے پر گالیاں نہ دیں، وہ ایک سیمینار سے خطاب کر رہے تھے، عدل کی خوشامد جائز ہے نہ اس کو برا بھلا کہنا، بشرطیکہ وہ عدل کے نام پر عدل ہی ہو، ماضی میں عدلیہ کے خلاف ضرور سازش ہوئی، اسے داغدار بھی کہا گیا، مگر قوم کو نوید ہو کہ آج کم از کم اعلیٰ عدلیہ کا محور ہی عدل ہے، جس طرح آرمی چیف نے کہا ہے:دشمن کی مکمل شکست کیلئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اسی طرح عدلیہ کو بھی ابھی بہت کچھ کرنا ہے کہ در انصاف ایک عرصے تک اشرافیہ کیلئے کھلا اور عام آدمی کیلئے بند رہا، نچلی عدالتوں میں اب بھی خرابیاں ہیں، مگر جب اوپر سے کچھ درست ہو گیا تو یہ اصلاح نیچے تک ضرور سفر کرے گی۔ انہوں نے مثال دی گائوں میں ایک بابا رحمتے ہوا کرتا تھا، لوگ اپنے مقدمات پیش کرتے، بابا کی اتنی ساکھ تھی کہ اس کے ہر فیصلے کو بسر و چشم قبول کر لیا جاتا، اور باہر جا کر کوئی بھی فریق اسے گالیاں نہیں دیتا تھا۔ بڑی خوبصورتی سے چیف جسٹس نے اپنے دل کا درد بیان کر دیا۔ گلہ بھی کیا تو اصلاح کے انداز میں، اور یہ کہنا کہ ہم پر دبائو ڈالنے والا پیدا نہیں ہوا، عدلیہ کی طاقت باور کرانا تھا، اور یہ بھی جواب دے دیا کہ وہ کسی منصوبے کسی سازش کا حصہ نہیں، الغرض انہوں نے وہ کچھ کہا کہ منطق کی ایک اصطلاح ’’دَفع دخل مقدر‘‘ (پوشیدہ خدشات کا ازالہ) کے بموجب سب کچھ دھو ڈالا، ان کا خطاب چشم کشا ہے، اب تو چاہئے کہ ہم بھی مہذب قوموں کی طرح عدلیہ کے فیصلوں کو بصد احترام حرف آخر سمجھیں۔ ہمارے ہاں شک و شبہ پیدا کرنے کا دورانیہ خاصا طویل رہا ہے لیکن اس تقریر نے لیٹ نکالا دی۔
٭٭٭٭
کیا خون سفید ہو گیا؟
ان دنوں کراچی میں سگی بہن کے ہاتھوں سگی بہن کے دلخراش قتل کا ذکر عام ہے، قطع نظر اس واقعہ کے طبی حوالے سے بھی لگتا ہے کہ ہمارے خون میں ریڈ سیلز کی کمی آ گئی ہے، سفید سیلز بڑھتے جا رہے ہیں، آئرن کی کمی ہو گئی ہے، فولاد کی گولیاں منگوانے کی ضرورت ہے ورنہ ان سفید خلیوں کی کثرت ہمیں لوہے کے چنے چبانے یا چبوانے پر مجبور کر دے گی، سرخ خلیات کی کمی سے تو امن و امان میں اضافہ ہونا چاہئے تھا کیونکہ دہشت گردی، قتل و غارت کیلئے سرخ خلیات کی کثرت ضروری ہے، بلڈ پریشر والوں کے چہرے اس قدر سرخ ہو جاتے ہیں کہ آنکھوں میں خون اتر آتا ہے، انسان ہائپر ہو جاتا ہے، اکثر شوہر جب برتن پھینکنے لگیں تو ان کا بلڈ پریشر چیک کر لینا چاہئے، یہ جو قتل ہوا کراچی میں ایک لڑکی کے ہاتھوں، یہ ہمارے لئے اس لئے بھی ناقابل یقین ہے کہ اکثر ہمارے ہاں خواتین خون کی کمی کا شکار ہوتی ہیں بھلا وہ خون کیسے کر سکتی ہیں لو بلڈ پریشر کے ساتھ، لڑکیاں ڈری ڈری سہمی سہمی سی رہنے لگیں تو اس کی پلیٹ میں دو بوٹیاں ڈال دینا چاہئیں جو مائیں اپنے ہونہار بیروزگار بیٹوں کی پلیٹ میں ڈال دیتی ہیں، کہ بھلے بیٹی اینیمک ہو جائے بیٹا نہ ہو، لڑکیاں بیچاریاں گلفام بننے کیلئے چہرے پر سرخ غازہ لگاتی ہیں تاکہ زرد پتے ہرے دکھائی دیں۔ پولیس بھی ہماری دانشور پولیس ہے اسے چاہئے کہ قاتلہ کے ریڈ اینڈ وائٹ سیل کی مقدار معلوم کریں تاکہ تفتیش کوئی اور رخ اختیار کرے، بہن کی قاتلہ نے تو اقبال جرم کر لیا مگر لواحقین نے اپنے الگ ٹائپ کے بیان دیئے ہیں جس سے ہمارے اس خدشے کو تقویت ملتی ہے کہ سفید خون والی تو چھری نہیں اٹھا سکتی بہن کا گلا کیسے کاٹ سکتی ہے، لڑکیاں، انڈر ڈائٹ ہونے کے باعث نیلی پیلی ہوتی جا رہی ہیں کچھ اس کا بھی علاج، بے چارہ چرنداں ہے کہ نہیں؟ حکومت کو چاہئے کہ ہر لڑکی کیلئے قیمے اورسیبوں کا کوٹہ مقرر کرے جو انہیں مفت حاصل ہو، پھر ممکن ہے ایسے کسی قتل کا یقین بھی آ جائے، خاک کے ڈھیر میں چھریاں تلاش کرنا چہ معنی دارد؟
٭٭٭٭
حوران خلد میں تری صورت مگر ملے
تھکن کے بعد سستانے، چمکتی بھوک کے بعد کھانے، کھونے کے بعد پانے، دوزخ سے جنت میں آنے اور حوران خلد میں محلے کی محبوبہ کی صورت نظر آنے کا اپنا ہی مزا ہے، شاید غالب اپنے اس شعر میں یہی کچھ باور کرا رہے ہیں؎
تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حوران خلد میں تری صورت مگر ملے
یہ درست ہے کہ بنی اسرائیل پہلے منظور نظر تھے، پھر اپنی زمینی جبلتوں کے باعث مغضوب کہلائے، کیونکہ من و سلویٰ مسلسل کھا کھا کر ان کو مسور کی دال ، پیاز، لہسن گندم کی روٹی کی طلب لاحق ہو گئی، اور وہ بے لذت کے بعد لذیز کے مزے اڑانے محسوس کرنے کیلئے من و سلویٰ کی جگہ زمینی خوراک کا مطالبہ کرنے لگے اور اگر بہ نظر غائر دیکھیں تو ان مع العسر یسریٰ میں بھی یہی انسانی فطرت میں ودیعت کنٹراسٹ کی طلب پوشیدہ ہے، اور یہ کہ انسان کیلئے وہی کچھ اور اتنا کچھ ہی ہے جس کیلئے اس نے پاپڑ بیلے ہوں اور یہ کہ میں اس وقت تک تمہاری حالت نہیں بدلوں گا جب تک تم آغاز نہیں کرو گے، اسی میں قوموں کے عروج و زوال کا گر ہے، کوئی جانے تو کوئی مانے تو، انسان شاہکار مخلوق ہے، ہر انسان جیسے دوسرے جیسا نہیں اسی طرح اس کا ذوق نظر بھی جدا جدا ہے، اور جونہی کسی انسان کو اس کے حسب ذوق کچھ ملے تو وہ اسے نعمت بغما سمجھ کر سینے سے لگا لیتا ہے، انسان کو کچھ دینا ہو تو اس کی پسند نا پسند کا خیال رکھیں، کسی پر ناپسند کو ٹھونسنا بھی جبر ہے اور انسانی معاشرت میں جبر ہی نے تباہیاں برپا کیں۔ گھر اجاڑے اور قتل و غارت کے بازار گرم کئے۔
٭٭٭٭
دو نمبر بارود
....Oمریم نواز کا ٹویٹ:مائی لارڈ!کیا آپ کا بابا واٹس ایپ بھی کیا کرتا تھا۔
سوال براہ راست چیف جسٹس سے کریں بابے کو بیچ میں نہ لائیں، اگر بابا رحمتے کے زمانے میں واٹس ایپ ہوتا تو وہ اسے بھی استعمال کرتے واٹس ایپ کسی جج کیلئے شجر ممنوعہ نہیں۔
....Oخورشید شاہ:ایک نیازی نے ہتھیار ڈالے، دوسرا نیازی پھر ملک نہ توڑ دے۔
ہتھیار ڈالنے اور ملک توڑنے میں بڑا فرق ہے، آپ نے شاید عربی کا یہ مقولہ نہیں پڑھا:’’رحم اللہ اول نباشٍ‘‘ (اللہ پہلے کفن چور پر رحم فرمائے)
....Oامام کعبہ:امریکی سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنا بارود کو آگ لگانے کے مترادف ہے۔
ہمیں تو یہ بارود بھی دو نمبر لگتا ہے۔

تازہ ترین