• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ عبداللہ کشمیر کے ایک بڑے لیڈر تھے مگر انکی سیاست ہمیشہ نامرادی کا محور رہی۔کشمیری عوام کے حقوق کیلئے انکی جدوجہد سے کشمیریوں کو اپنی شناخت کی حس تو ملی مگر انکی آرزوئیں ہنوز تشنہ تکمیل بھی ہیں اور غیر متوازن بھی، کشمیر کے نام نہاد شیر کو بڑے پیمانے پرعوامی حمایت حاصل تھی مگر اس نے طاقت اور اقتدار کے لالچ میں ایک دردناک اور خون آشام عوامی جدوجہد کو اپنی ذاتی منفعت کیلئے گروی رکھا، یہ سلسلہ انکی موت کے بعد بھی جاری ہے اور انکے وارثین آج بھی اس پرسختی سے عمل پیرا ہیں، اپنی ذات میں گم شیخ صاحب قوم کی سماجی، سیاسی اور تاریخی خواہشات کو سمجھنے میں یکسرناکام رہے اور انھوں نے ہر قدم پر کشمیری عوام کے جذبات اور انکی جدوجہد کو نظر انداز کیا جسکا خمیازہ کشمیری آج تک نسل در نسل اٹھا رہے ہیں،شیخ صاحب کی ضد، انا، ہٹ دھرمی اور بے پناہ لالچ سے مسئلہ کشمیر وجود میں آیا جس سے نہ صرف کشمیریوں کے لئے موت اور تباہی کے ایک لامتناہی سلسلے کی بنیاد پڑ گئی بلکہ پورے خطے کے لوگوں کے لئے ہمہ وقت نیوکلیئر جنگ کا امکان بھی پیدا ہوا جس سے ایک ارب سے زائد افراد کو بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اور انسانی تباہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
گزشتہ ہفتے شیخ عبداللہ کی ایک سو بارہویں سالگرہ منائی گئی،انکی سیمابی فطرت اور بھونڈے مقاصد کیوجہ سے پڑنے والے مضر اثرات آج بھی ان کے ہموطنوں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان بلکہ پورے خطے میں تنازعات اوراختلافات کو ہوا دے رہے ہیں، جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ اور شیخ صاحب کی سیاسی بادشاہت کے وارث نے انکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان پر توصیف کے ڈونگرے برسائے جن کا حقیقت سے دور تک کا کوئی واسطہ نہیں ہے فاروق عبداللہ نے اپنے والد کی جرات اور بےلوث قربانیوں کا ذکر کیا حالانکہ شیخ صاحب نے اسکی اتنی قیمت وصول کی ہےکہ انکے وارثین صدیوں تک اس ’’مال غنیمت‘‘ سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
ڈاکٹر قاسم فکتو ایک آزادی پسند رہنما اور اسکالر ہیں جوگزشتہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے قید ہیںانہوں نے سرینگر سینٹرل جیل سے ایک بیان میں شیخ عبداللہ پرالزام لگایا گیا کہ انھوں نے کشمیری عوام کی مثالی قربانیوں سے دھوکہ کیا اور یوں پورے برصغیر کو جنگ کے خطرے میں دھکیل دیا،ڈاکٹر فکتو کے لئے حیران کن بات یہ ہے کہ کشمیر کے بھارت نواز سیاستدانوں نے شیخ عبداللہ کی ناکام زندگی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
لگ بھگ ایک صدی سے کشمیریوں کے حقوق اور شناخت کی جدوجہد ایک پر فریب مدار کے گرد گھوم رہی ہے جس میں ہر عہد اور نسل کے بیقرار نوجوان غول در غول اس پر اپنی جانیں قربان کرتے آرہے ہیں، اس کا آغاز1931 میں ہوا جب ظالم ڈوگرہ نظام کے خلاف سب سے بڑے اور منظم مظاہرے پر بے تحاشہ گولیاں برسائی گئیں جسمیں دو درجن سے زائد شہریوں کو شہید اور سینکڑوں کو زخمی کردیا گیا۔ ان قربانیوں کا نتیجہ ایک شرمناک سودے بازی پر منتج ہوا،مسلم اشرافیہ جو شاہی عدالت میں لوگوں کی خواہشات کی نمائندگی کرنے گئی تھی نے وقت کے آمر کی خوشنودی میں عوامی ایجی ٹیشن سے ہاتھ کھینچ لیا،ان نمائندوں میں شیخ عبداللہ کیساتھ چوہدری غلام عباس، میرواعظ یوسف شاہ اور دیگر افراد بھی شامل تھے، چوہدری عباس بعد میں الحاق پاکستان کی حامی جماعت مسلم کانفرنس کے قائد جبکہ میرواعظ آزاد جموں وکشمیر کے صدر بن گئے۔
بادشاہ وقت کے سامنے کشمیری مسلمان قیادت کا یہ ناقابل اعتبار رویہ مستقبل کی قیادت کیلئے ایک مستند سانچہ بن گیا، اس کے بعد سے اب تک بعض کشمیری قیادت پیسے اور اقتدار کیلئے عوام کی قربانیوں، انکی خواہشات اور اعتماد کو دھوکہ دیتی آرہی ہے، تاہم ڈاکٹر فکتو کے دعویٰ کے برعکس یہ علت صرف بھارت نواز قیادت تک محدود نہیں، اگرچہ شیخ عبداللہ دیدہ دلیری اور لالچ میں یکتائے روزگار ہیں تاہم ان کے بعد کشمیری رہنما جن میں بھارت نواز، پاکستان نواز حتیٰ کہ خود مختار کشمیر کے حامی بھی شامل ہیں نے کشمیریوں کی قربانی کا راگ الاپتے ہوئے اپنے لئے دولت کے انبار اکٹھے کئےجو صدیوں انکی نسلوں کی پشتبانی کرسکتے ہیں۔شیخ عبداللہ نے عوام کی زندگی بدلنے کیلئے کئی انقلابی اقدامات کئے،ان کی پارٹی نیشنل کانفرنس نے جاگیرداری نظام ختم کردیا جس سے ہزاروں کشمیری مسلمان ہاریوں کو کاشت کرنے والی ان زمینوں پر مالکانہ حقوق مل گئے جہاں انہیں کئی پشتوں سے بیگار جیسے حالات کا سامنا تھا، اس اقدام سے صدیوں کی غلامی اور انتہائی مفلسی میں زندگی گزارنے والے کشمیری کافی بااختیار بن گئے جس سے انکی زندگی پر نہایت مثبت اوردیرپا اثر پڑا اور ان کی مکمل آزادی حاصل کرنے کی خواہشات کو مہمیز ملی،اس سے پہلے 1944ء میں نیشنل کانفرنس نے نیا کشمیر کے نام سے اپنا منشور جاری کیا جو وقت کے حساب سے ایک بیباک اور قابل تعریف دستاویز ہے۔
اس کی رو سےریاست جموں و کشمیر کیلئے ایک آزاد، سیکولر اور جمہوری آئینی بادشاہت کا مطالبہ کیا گیا جہاں نسل، جنس یا مذہب سے بالاتر شہریوں کیلئے مساوی حقوق، آزاد عدلیہ، آزادی اظہار ، اجتماع اور تنظیم کی مکمل آزادی کا عہد کیا گیا۔ یہ دستاویز، جو مبینہ طور پر پنجابی کمیونسٹوں کی اختراع تھا، کو ایک سیاسی نظریے کے طور اپنانے کا وعدہ اپنے وقت کا ایک بہت بڑا کارنامہ تھا۔
شیخ عبد اللہ کا ادھورا پن اور اس سے جڑی خامیاں ان کے ترقی پسند نظریات پر بہت غالب رہیں، انہوں نے ایک بگھوڑے آمر ہری سنگھ سے غیر قانونی اور غیر اخلاقی طور پر زمام اقتدار حاصل کرکے ایک زوال پذیر بادشاہت کو سہارا دیا جس کے ہاتھ کشمیریوں کے خون ناحق سے رنگے ہوئے تھے، لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شریف بخاری کے مطابق انڈین انڈیپنڈینس ایکٹ کی منظوری کے بعد مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت اپنا قانونی جواز کھو چکی تھی اور یہ کہ وہ عوام میں نہایت غیر مقبول تھی، اقتدار کی ہوس میں شیخ صاحب کے اس اقدام نے بھارت کو فوج کشی کے لئے ایک نمائشی عذر فراہم کیا جس کے تباہ کن نتائج کشمیری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔
اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد شیخ عبداللہ نے ایک بے رحم آمر کی طرح اپنے سابقہ ساتھیوں اور مخالفین کو نہایت بے دردی سے کچل ڈالا تاکہ وہ بلا شرکت غیرے لیلائے اقتدار کے مزے لوٹتے رہیں، انھوں نے میرواعظ یوسف شاہ اور چوہدری غلام عباس کو آزاد کشمیر دھکیل دیا جبکہ اپنے دیرینہ ساتھی اور بائیں بازو کے مفکر پنڈت پریم ناتھ بزاز کو نئی دہلی جلا وطن کردیا، شیخ صاحب نے ایک بار بزاز کو قتل کرنیکی کوشش میں ان پر گولی چلوا دی جو شومئ قسمت خطا ہوگئی،اس لحاظ سے شیخ عبداللہ کو کشمیر میں مسلح دہشت گردی کا بانی کہا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ انہوں نے ہر سطح پر اپوزیشن کو روکنے کیلئے بے رحم غنڈوں کے غول پالے جنہوں نے لوٹ مار، دھونس دباؤ اور گالم گلوچ کا بے تحاشہ استعمال کیا۔ اس طرح کے دہشت ناک ماحول میں جس کے مظاہر آج شمالی کوریا میں نظر آتے ہیں، شیخ عبداللہ کی موت کا بڑے پیمانے پر سوگ منایا گیا جو عوام الناس میں ایک بے مثال ہسٹیریا کے طور پر سامنے آیا، لیکن ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں تاریخ کا جبر ان کو ایک غدار اور بزدل کے طور سامنے لایا، اپنی موت کے 35 سال بعد بھی مرحوم شیخ عبداللہ کو کسی صورت بھی چین میسر نہیں یہاں تک کہ ان کی قبر پر بھارتی افواج کا مسلسل پہرہ ہے تاکہ انہیں متوقع عوامی غیض و غضب کا نشانہ بننے سے محفوظ رکھا جاسکے۔

تازہ ترین