• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دس بارہ روز پاکستانی سیاست پر کچھ نہیں لکھ سکا مگر اس دوران ملکی سیاست میں تیزی کا رجحان اتنا آیا کہ اب معاملات لڑائی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کینیڈا سے کیا آئے کہ ان کے آتے ہی ادھوری باقر نجفی رپورٹ باہرآگئی۔ اس رپورٹ کے آنے کی دیر تھی کہ ملک کے اہم ترین سیاستدان ماڈل ٹائون لاہور میں جمع ہونا شروع ہوگئے۔ سیاستدانوں کا رخ اس ماڈل ٹائون کی طرف نہیں تھا جسے فیروز پور روڈ چھو کر گزرتی ہے، جہاں شریف خاندان کے گھروں کی قطار ایستادہ ہے بلکہ اس مرتبہ سیاستدانوں کا رخ اس ماڈل ٹائون کی طرف تھا جس سے جڑی ہوئی سڑک فیصل ٹائون اور ماڈل ٹائون کی جدائی کو آشکار کرتی ہے، یہ ماڈل ٹائون کا وہ حصہ ہے جہاں ایک معروف صحافی رہا کرتے تھے، وہ اب بھی ماڈل ٹائون ہی میں ہیں مگر اب فیروز پور روڈ کے قریب ہیں، خیر ماڈل ٹائون اور فیصل ٹائون کو جدائی بخشنے والی اس شاہراہ پر برسوں سے پیپلز پارٹی کا دفتر موجود ہے، اس کے بالکل سامنے والی گلیوں میں ادارۂ منہاج القرآن کا مرکزی سیکرٹریٹ ہے، اسی میں گوشہ ٔ درود ہے، اسی گوشہ ٔ درود پر اس عہد میں فائرنگ ہوئی جس عہد میں ختم نبوتؐ میں ترمیم کرنے کی جسارت ہوئی، ماڈل ٹائون کے ایک کنارے پر وہ آباد ہیں جنہوں نے یہ جسارت کی اور ماڈل ٹائون کے دوسرے کنارے پر وہ گوشہ ٔ درود ہے جس کے باسی وقت شہادت بھی کلمہ حق کہتے رہے، ان کے لبوں پر اسمائے اہل بیتؓ تھے، وہ جاں سے گزر گئے مگر ایمان پر حرف نہ آنے دیا، دوسری جانب حریص اقتدار نے گولیاں بھی برسائیں، ترمیم بھی کر ڈالی، اس پر مزید بات آج رہنے دیتا ہوں۔
بات ملاقاتوں کی کرنا تھی، ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پر جاری رہا، کیا آصف علی زرداری تو کیا چوہدری شجاعت حسین، سب ہی ادارۂ منہاج القرآن پہنچ گئے۔ علامہ راجہ ناصر عباس اور صاحبزادہ حامد رضا بھی جلوہ گر تھے، ایک بڑاوفد تحریک انصاف کا بھی تھا، کراچی سے مصطفیٰ کمال بھی وفد کے ساتھ آئے۔ ان ملاقاتوں کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ طاہر القادری غیر اعلانیہ طور پر اپوزیشن اتحاد کے سربراہ بن چکے ہیں۔ وہ کسی وقت بھی تحریک شروع کرسکتے ہیں، کسی وقت بھی گھیرائو ہوسکتا ہے۔ ان کی اس تحریک میں تمام پارٹیاں شامل ہوں گی پھر اس تحریک کو روکنا مشکل ہو جائے گا، اس مقصد کیلئے ڈاکٹر طاہر القادری کا مشہور و معروف کنٹینر تیار ہے۔ دن میں اسے ایک سے زائد مرتبہ اسٹارٹ کیا جاتا ہے۔ گوشہ ٔ درود کے سامنے چوہدری حفیظ اور نور اللہ، کنٹینر کا نور دیکھتے ہیں۔ یہ تحریک کسی لمحے بھی شروع ہوسکتی ہے۔
ایک تحریک چلانے کا اعلان نوازشریف نے بھی کیا ہے، انہوں نے پرانے رونے کے ساتھ تحریک چلانے کا اعلان کیا، ویسے تو انہیں جی ٹی روڈ مارچ کی ناکامی کے بعد سوچ سمجھ کر اعلان کرنا چاہئے تھا مگر سوچ ان سے کہیں دور ہے، ان کی حکومت میں بھی کبھی ’’سوچ‘‘ کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اگر اہمیت دی جاتی تو پھر قبضہ مافیا کے لوگ اقتدار کا حصہ نہ بنتے۔
ایک جوابی تحریک کا اعلان عمران خان نے کردیا ہے۔ اوکاڑہ میں صمصام علی بخاری کے ہاں ایک بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے اعلان کیا کہ ’’اگر نوازشریف نے عدلیہ کے خلاف تحریک شروع کی تو میں عدلیہ کی حمایت میں تحریک شروع کروں گا، دیکھتے ہیں لوگ کس کے ساتھ ہوتے ہیں‘‘۔
اگرموجودہ سیاسی حالات کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہر طرف تحریکوں کا چرچا ہے۔ یہ تحریکیں چلیں گی، ایک تحریک ختم نبوتؐ کے حوالے سے بھی چل رہی ہے۔ ان تحریکوں سے پہلے پتے جھڑ رہے ہیں، ہوائوں کے تیز رخ بتا رہے ہیں کہ تصادم ہونے والا ہے۔ تصادم کے دوران آپ چیف جسٹس کے اس جملے کو یاد رکھیئے کہ ’’جہاں کہیں انتظامی خلا ہوگا، اسے ہم پُر کریں گے‘‘۔
ن لیگ اداروں پرتسلسل کے ساتھ تنقید کررہی ہے، تنقید کے اس موسم میں برف باری شروع ہو چکی ہے، برف باری کے اثرات صرف اسلام آباد پر نہیں پورے ملک پر مرتب ہوں گے۔ آپ اس ساری صورتحال کو اس ہاکی میچ کی طرح بھی لے سکتے ہی جس میں دو ٹیمیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں، دونوں طرف سے کھلاڑی تیز کھیل، کھیل رہے ہیں، ایک ٹیم امپائروں پر بھی تنقید کرتی ہے مگر کھیل شدومد سے جاری رہتا ہے، مخالف ٹیم کے پاس بال ہے، بال ڈی میں پہنچ چکا ہے، اس حملے کو پسپا کرنے کیلئے پرانی فاتح ٹیم ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے مگر اب طاقت کم ہوتی جارہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ مخالف ٹیم کسی وقت بھی گول کر سکتی ہے، یہ گول نہیں مانا جائے گا، رولا پڑے گا اور پھر آخری فیصلہ بھی فیصلہ کرنے والے ہی کریں گے، آخری گول انہی کا ہوگا اور اب یہ گول کسی وقت بھی ہوسکتا ہے، اس میں دیر نہیں کیونکہ بال ڈی کے اندر ہے، فائول بھی ہوگیا تو پینلٹی کارنر یا پینلٹی اسٹروک ملے گا جس سے گول ہو جائے گا بقول سرور امان؎
آخر کہاں تلاش کریں تیرے جاں نثار
اس پار تو نہیں ہے تو اس پار بھی نہیں

تازہ ترین