• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سپریم کورٹ آف پاکستان نے گزشتہ ہفتے کے اختتام پر ایک ہی دن دو اہم کیسز کا فیصلہ سنا کر سیاسی افق پر انتہائی گمبھیر ہوتی صورت حال کو کافی حد واضح کردیا ہے، ایک طرف جہاں پاکستان کو پہلا تصدیق شدہ ’’صادق وامین‘‘ سیاسی رہ نما مل گیا وہیں پنجاب کے شہباز بھی ’’شریف‘‘ قرار پا گئے ہیں، گو نوازشریف کی نااہلی کے بعد ان دو سیاسی کیسز کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر ہر طرح کی رائے زنی اور تنقید بھی کی جارہی ہے تاہم اگر دیکھا جائے تو سیاسی معاملات سے اعلیٰ عدلیہ کا جان چھڑانا اور طاقت کا توازن پیدا کرنا ضروری تھا تاکہ ایک طرف کوئی ایک سیاسی فریق شتر بےمہار نہ بنے اور دوسری طرف غریب سائلین کے برسوں سے زیرالتوا لاکھوں مقدمات کی طرف بھی کچھ توجہ جاسکے۔ حالیہ فیصلوں پر سخت تنقید کی وضاحت جناب چیف جسٹس آف پاکستان نے حلفاً اور قسمیں دے کر کی ہے اور عدلیہ پر کسی بھی دبائو کو سختی سے مسترد کیا ہے۔
عدلیہ کے فیصلوں پر تبصرہ یا تنقید کی بحث میں پڑے بغیر بہت حد تک واضح ہوچکا ہے کہ نئی حکمت عملی کے تحت سیاسی طاقت کا توازن برقرار رکھنے کا ’’ٹاسک‘‘ کامیابی کے ساتھ مکمل کر لیا گیا ہے، جی ہاں فیصلہ ہوچکا ہے عمران بمقابلہ شہباز، لیکن کیا یہ ہوپائے گا؟ یہ کہنا اور ہونا مشکل اس لئے لگتا ہے کہ نئے پلان میں بڑے میاں کباب میں بدستور ہڈی بنے ہوئے ہیں، چھوٹے بھائی کی قسمت اچھی کہیں یا سیاسی سمجھ بوجھ کی صلاحیت کو داد دیں، مشکل سے بچنے سمیت ہر مرتبہ نظر انتخاب بھی انہی پر جا ٹھہرتی ہے، وہ ہرمرتبہ وزیراعظم بنتے بنتے رہ جاتے ہیں، آخری مرتبہ تو بڑے بھائی سرعام اعلان کر کے مکر گئے، اب بھی سیاسی افق پر بے یقینی کے بادل چھٹنے کا وقت جیسے ہی قریب آنے لگتا ہے میاں صاحب اپنی نااہلی کے غم میں غلطاں ہوکر صاحبزادی سمیت برجستہ زہرافشانی کا کوئی موقع ہاتھ سےجانے نہیں دیتے، حالانکہ اس وطن کی محبت میں انہیں اپنے دیس کی مٹی سے کہیں زیادہ فرنگی کی سرزمین پر جا کر سکون ملتا ہے اور اقتدار کے وقتوں کے بعد اب بھی اپنے کیسز کی سماعت کے فوراً بعد اپنے بچوں کے دیس عازم سفر ہو جاتے ہیں، اب ن لیگی کارکن امید سے ہیں کہ میاں صاحب اپنی اہلیہ کی صحت یابی کے بعد اپنا سارا وقت اپنے ملک اور چاہنے والے ہم وطنوں کے لئے وقف کردیں گے۔
دیکھا جائے تو سپریم کورٹ کے حدیبیہ اور عمران، ترین فیصلوں سے قبل ملک عام انتخابات کے غیرمعینہ مدت کیلئے التوا، ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کے شور، اسپیکر قومی اسمبلی کی نظام لپٹنے کے خدشات کی بے وقت دہائی کے وسوسوں کی لپیٹ میں تھا۔ ایک دو برس کیلئے ٹیکنو کریٹس، قومی حکومت کے قیام یا ’’کسی نئےنظام‘‘ کی تیاریوں کی بازگشت شدت سے سنائی دے رہی تھی، تاہم ان فیصلوں سے ہوا کا رخ کچھ بدلنے کا عندیہ دیا گیا ہے جبکہ سیاسی ماحول میں اڑتی بے یقینی کی گرد فضا میں معلق ہو کر تازہ جھونکے میں بدلتی دکھائی دے رہی ہے، ایک اہم باخبر ذریعے کے مطابق سیاسی و اسٹرٹیجک معاملات یکسر تبدیلی کی طرف گامزن ہیں، سیاسی محاذ پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے ایشوز پر کچھ اہم فیصلے کر لئے گئے ہیں، آئندہ سیاسی انتخابی معرکے کے وقت اور اکھاڑے میں اتارنے کے لئے پہلوانوں کا انتخاب بھی کر لیا گیا ہے، گو رولز آف گیم کو فائنل کرنے کے لئے ابھی کچھ وقت مزید درکار ہے اور کوئی نئی غیر معمولی صورت حال پیدا نہ ہوئی تو اس پر مکمل عمل درآمد کیا جاسکتا ہے، آئندہ انتخابات اپنے شیڈول کے مطابق ہوسکتے ہیں اور مرضی کی پارلیمنٹ لائی جاسکتی ہے، تاہم اس حوالے سے اہم کردار میاں نوازشریف کا ہے کہ کیا وہ ماضی کی طرح ’’طاقتوروں‘‘ کے من مانے فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے بچھائی بساط کو تسلیم کرلیں گے یا سارا کھیل ہی بگاڑ دیں گے۔ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی صورت حال پیدا ہوگی اس کے اثرات براہ راست موجودہ اور آئندہ کے سیاسی نظام پر گہرے ہوں گے۔ میاں صاحب، صاحبزادی اور چند مشیر فوری طور پر نااہلی کا خاتمہ اور نیب کیسز سے چھٹکارے کیساتھ، وزیراعظم کے عہدے پر دوبارہ متمکن ہونا چاہتے ہیں جس کے بارے میں بتا دیا گیا ہے کہ شاید ابھی یہ ایک مدت کیلئے ممکن نہیں ہوسکے گا، دوسری طرف ان کے چھوٹے بھائی، قائم مقام وزیراعظم، چوہدری نثار اور سرکردہ پارٹی لیڈرز اداروں سے ٹکرائو کی بجائے انہیں فی الوقت مفاہمت کی پالیسی اختیار کرنے کا مسلسل مشورہ دے رہے ہیں، میاں صاحب ان باتوں پر کان دھرنے کی بجائے جانتے ہیں کہ 28 جولائی کے فیصلے کے مطابق نیب کیسز کی تحقیقات 28جنوری کو مکمل کئے جانے کی ڈیڈ لائن قریب آرہی ہے، ایک ڈیڑھ ماہ باقی ہے، نیب عدالتوں کا کوئی بھی فیصلہ آنے سے پہلے ایسی ملک گیر سیاسی و عدلیہ مخالف تحریک چلائیں کہ طاقتوروں کو پیغام جائے کہ وہ بدستور منتخب وزیراعظم اور اقتدار کے حقیقی حق دار ہیں، ن لیگ کی اس دو رخی حکمت عملی کے پارٹی کے اندر شاید کامیابی کے اندازے ہوں گے تاہم زمینی حقائق کے مطابق یہ چال کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی لہٰذا کسی ایک راستے کا انتخاب ہی راست فیصلہ ہو سکتا ہے۔ ادھر خان صاحب کو دلوایا جانے والا ریلیف پیکج ان کی سیاسی اننگز کے لئے ایک بڑا ’’بوسٹ‘‘ تو ہے لیکن الیکشن کمیشن اور انسداد دہشت گردی کے کیسز کی تلوار بدستور لٹک رہی ہے، انہوں نے کسی بھی موقع پر کوئی حکم عدولی کی تو یہ تلوار ان پر اچانک گر سکتی ہے، خان صاحب کی جانب سے بار بار فوری انتخابات کا مطالبہ اسی راستے کی پہلی منزل ہےاور ’’ایماندار‘‘ قرار دیئے جانے کے بعد ملنے والی پاپولیرٹی سے وہ وزیراعظم بننے کا سپنا دیکھ رہے ہیں، خدا کرے یہ پورا ہو جائے ورنہ، سپنا تو ٹوٹ جاتا ہے!
موجودہ حالات کا دوسرا رخ بھی ہے، اور باخبر ذرائع کہہ رہے ہیں کہ توقع کے مطابق نتائج نظر نہ آئے تو بازی پلٹ بھی سکتی ہے، ایک گریٹر پلان بھی موجود ہے جس کے تحت ایک نگران سیٹ اپ لانے کے لئے نئے پرانے چہروں کے خفیہ انٹرویوز کا سلسلہ جاری ہے، لسٹیں تیار اور اعمال نامے بھی لکھے جارہے ہیں، متروک نعرے ’’کرپشن مکائو‘‘ کے بینر تلے ’’روشن ضمیر اور پاک دامن‘‘ اکٹھے کئے جا رہے ہیں، بڑے بڑے نام اس ’’نیک‘‘ کام میں حصہ ڈالنے کو بے چین ہیں۔ پھر ’’حقیقی تبدیلی‘‘ اور ’’کرپشن‘‘ کے خاتمے کیلئے صفائی مہم شروع کی جائیگی، غیرملکی محب وطن کے نیا دھرنے مسلط کرنے اور پارلیمنٹ کے اندر سے نیا سیاسی بحران پیدا کرنے کے آپشن بھی بدستور موجود ہیں، تاہم گریٹر پلان کی راہ میں بڑی رکاوٹ افغانستان اور بدلتے ہوئے عالمی حالات، دہشت گردی کا سر اٹھاتا نیا عفریت، جس نے پوری تیاری کیساتھ وطن عزیز کا پھر سے رخ کرلیا، شامل ہیں۔ لہٰذا یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کوئی مانے یا نہ مانے فوج کو ’’اقتدار‘‘ سے کوئی لینا دینا نہیں، وہ مشرقی و مغربی محاذوں سمیت اندرونی، خطے اور عالمی امور میں بری طرح مصروف ہیں، ایسے میں سیاسی معاملات کو چلانا ناممکن نہیں تومشکل ضرور ہے، لہٰذا توقع ہے کہ ’’پرانے تن خواہ دار‘‘ ہی نئے ٹاسک پر معمور ہونگے۔ مقتدر کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کرنے میں ہی عافیت ہے اور اس ’’فرض‘‘ کی انجام دہی کے لئے منصفوں کی تحریک کے بعد اب عوام کے نام پر بننے والی جماعت بھی پیش پیش ہے جو آئندہ اقتدار میں اپنا حصہ بقدر جثہ نہیں بلکہ تسلیم و برضا چاہتی ہے۔ سیاسی نظام اور جمہوریت کی بقا کی جنگ میں فاتح کون ٹھہرتا ہے یہ تو آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا تاہم امر لازم ہے کہ سیاسی قائدین فنکاری اور اداکاری کے فن کا جادو جگانے کی بجائے عوام میں اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے مل بیٹھیں، حلقہ بندیوں، مردم شماری اور فاٹا اصلاحات کے معاملات کو جواز بنا کر ذاتی، گروہی اور جماعتی مفادات کو قومی مفاد پر ترجیح دینے کی بجائے ملک و قوم کے موجودہ اور آئندہ کے حالات سامنے رکھ کر مشترکہ سیاسی لائحہ عمل اختیار کریں، ہر صورت بروقت انتخابات کی راہ ہموار کرنے میں ہی آپ کی اپنی اور جمہوری نظام کی بقا ہے۔

تازہ ترین