• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

منزل جنت یا دوزخ، راستہ دونوں کا اچھی نیت سے مزین۔ جو کوئی بھی موجودہ وطنی خلفشار اور انتشار کے پیچھے، وجوہات قانونی، اخلاقی، ذاتی یا مفاداتی، ملک کی چولیں ہلا چکے۔ پاکستان کا دشمن نمبر ون یہی تو۔ جسٹس کھوسہ صاحب خلیل جبران کے مداح، ایک قول یہ بھی ’’اس نے جب کہا تو ماننے میں حرج نہیں سمجھا جب اصرار کیا تو شک گزرا اور جب اس نے قسم کھائی تو اعتماد اٹھ گیا‘‘۔
آج کا کالم، عنوانوں کی بھرپور سہولت سے مالا مال، ’’مائی لارڈ اور بابا رحمتا‘‘ ذاتی ترجیح و پسند بنا کہ محترم چیف صاحب کی جذباتی تلخی دل و دماغ متاثر کر گئی۔ پچھلے دنوں خادم حسین رضوی کا دھرنا ماسٹر اسٹروک تھا، جاتی امرا تک ریاست کو جانبر ہوتے نہیں دیکھتا۔ افسوس دھن بگڑا تو کوئی محفوظ نہ رہا، رہی سہی کسر بلوائیوں نے پوری کر دی۔ عسکری اداروں کو استثنیٰ ملا، باقی کسی کو نہیں چھوڑا۔ چیف جسٹس سمیت، بدزبانی میں کفایت شعاری نہ دکھائی۔ 25نومبر کا بدقسمت دن ایسا بھی کہ درجن دو درجن بلوائیوں کی ٹولیاں، مسلم لیگ ن کے ممبران پارلیمان اور وزراء کے گھروں کی چار دیواری پھلانگیں، چادریں کھینچیں، جانوں کے درپے رہے۔ کیا کبھی عدالتی تحقیقات ہو پائے گی؟ معزز عدالت نے برملا احتجاج ضرور کیا ’’سپریم کورٹ کو سرعام گالیاں دی جا رہی ہیں‘‘۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج عاشق رسول ﷺ جسٹس شوکت صدیقی واحد، دھرنے کو آڑے ہاتھوں لیا۔ نہ صرف دھرنے کا نوٹس لیا بلکہ بعد ازاں معاہدے پر بھی برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس شوکت صدیقی کی سہولت کہ ناموس رسالتؐ پرتاریخی فیصلہ، قد کاٹھ بڑھا گیاہے۔ فیصلہ نہیں، اترے فرامین کا مجموعہ ہے۔ فرصت ملی تو ناموس رسالت ﷺ کے اعلیٰ عدالتی فیصلہ پرضرور لکھوں گا۔ خوشی کہ جسٹس صدیقی نے ’’ریاست/ رضوی معاہدہ‘‘ کو نظر انداز نہ کیا۔ کم از کم کوئی تو سامنے آیا۔
پچھلے چند مہینوں میں تین مقدمے، تین فیصلے دیانتداری کے تین معیار دیئے گئے۔ کئی نئے اصولِ قانون مرتب ہوئے۔ عمران/ترین فیصلے پر، اگلے دن چیف جسٹس کی وضاحتیں، قسمیں غیر ضروری تھیں۔ کاش نہ دیتے۔ مزید کئی سوالات جنم لئے۔ اہلِ وطن ہوشیار باش! اگلے چند ہفتے مزید ہولناکیوں کی داستان رقم ہونے کو ہیں۔ جس دن سے نواز شریف نااہل ہوئے یا بلوائیوں کے اٹیک رہے یا سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے آئے، حسن اتفاق کہ ہر مرحلہ پر ممبران پارلیمان (صوبائی قومی دونوں) کو ان گنت نامعلوم فون کالز آئیں۔ اس بات پر مجبور کیا گیا کہ’’استعفیٰ دے دو، ڈوبتے جہاز سے چھلانگ لگا دو‘‘۔ حد بندی کا ترمیمی بل قومی اسمبلی یا سینیٹ میں آیا تو بذریعہ نامعلوم کالز ارکان اسمبلی کو روکنے کی کوششیں ہوئیں۔ ارکان اسمبلی سے استعفے لینے کی شبانہ روز محنت، ارکان کو اسمبلی/سینیٹ سے روکنے کے جتن ابھی بھی جاری و ساری ہیں۔ میڈیا کی زبان بندی کے لئے آئے دن نئی سے نئی وارداتیں سرزد ہو رہی ہیں۔ احمد نورانی کی ہڈیاں چٹخائی گئیں، یہ آخر کون ہیں؟ گریٹر پلان یہی تو ہے۔ کیسے مان جائوں کہ سب کچھ گریٹر پلان کی غیر موجودگی میں ہو رہا ہے۔
مائی لارڈ! بار کونسل سامنے آپ کی گفتگو نے ارتعاش بڑھا دیا ہے۔ عدالت جب بول چکی، فیصلہ سنا دیا، کیا ہی اچھا ہوتا وضاحت نہ آتی۔ آپ کا کہا ایک ایک فقرہ آج گونج رہا ہے۔ ’’ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا جو ججوں پر دبائو ڈالے‘‘، (مائی لارڈ! وطنی تاریخ دبائو کے انمول واقعات سے بھری پڑی ہے، زمینی حقائق آپ کی بات سے یکسر مختلف، جائز سوالات اٹھ رہے ہیں۔ تاریخ کے صفحات الٹے، پھرولے جا رہے ہیں۔ تانک جھانک بڑھ چکی ہے کہ کب کب ججز دبائو کا شکار رہے)۔ ’’جج کسی بڑے پلان، ڈیزائن، منصوبے کا حصہ نہیں ہیں’’ (جسٹس منیر سے لیکر فی زمانہ، بہت کچھ دیکھ پڑھ چکے ہیں۔ کبھی کالم کی تنگ دامنی آڑے نہ آئی تو جسٹس منیر اے شیخ کا مشرف متعلق واقعہ ضرور لکھوں گا کہ سپریم کورٹ پر دبائو اور دخل اندازی کیسے رہی؟ پچھلے دنوں صدر مشرف کا کامران شاہد کو انٹرویو، تھا ہی موجودہ عدلیہ کے بارے میں۔ دبائو کی تفصیلات بتائیں، عدالت کو نوٹس لینا تھا)۔ ’’کسی کے خلاف فیصلہ آ جائے تو ججوں کو گالیاں نہیں دیتے‘‘ (خادم حسین رضوی کی مائی لارڈ کے خلاف سخت زبانی پر برملا برہمی ضرور دیکھی، ایکشن نہ لیا گیا)۔ صدق دل سے سمجھتا ہوں تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن کی افراط و تفریط، باہمی تصادم، خانہ جنگی کا ماحول، کچھ ذمہ داری سپریم کورٹ پر بھی عائد ہوتی ہے۔
پچھلے دنوں ایک شادی تقریب پر، گناہگار کانوں نے پاناما بنچ کے ایک معزز رکن کا نواز شریف بارے تبصرہ اتفاقاً سنا تو دائمی تکلیف دے گیا۔ ذاتی دشمنی اور نفرت اس حد تک آماجگاہ بنا چکی، تصور میں نہ تھا۔ نعیم بخاری کی گندی زبان اور گالم گلوچ یا نفرت سمجھ میں آتی ہے کہ حساس فنکار ہے، دل کی ٹھیس برداشت نہ کر پایا۔ جج تو ذاتی عناد اور دشمنی نہیں پالتے، گائوں کا بابا رحمتا تو بغض عناد سے بالکل پاک، اسی سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ ججوں کے اندر غصہ اور نفرت کوٹ کوٹ رہے تو انصاف کا ترازو توازن کھو بیٹھتا ہے۔ مائی لارڈ!یہ قوم خالص دیسی دودھ سے کئی بار جل چکی، خدارا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پینے دیں۔ گریٹر پلان کے چرچے گلی کوچے میں عام ہیں۔ پاکستان ایک محدود سوسائٹی، مخالفتوں کے باوجود کثیر تعداد میں نیازمندی موجود ہے۔ مائی لارڈ کی باہمی نیاز مندی سے مستفید و متمنی رہتا ہوں۔ اندر کی باتیں، سر عام دربدر ٹھوکریں کھاتی پھرتی ہیں۔ ہر ’’خاص‘‘ بات، ہر عام آدمی تک پہنچ چکی ہے۔ گریٹر پلان ہر زبان زد عام ہے۔ جب آپ نے’’فیصلے کو تحمل سے سنا جائے‘‘ کا اعلان کیا تو فوری تاثر یہی ملا کہ ’’فیصلے‘‘ میں ہر فریق کے لئے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ فیصلہ بمطابق پیشین گوئی، جہانگیر ترین قربانی کا بکرا بنے جبکہ بڑے بڑے اخبارات نے فیصلہ کوTHE BALANCING ACT’’ ‘‘بتایا۔ایساتبصرہ بھی’’ کپتان بچ گیا، جہاز ڈوب گیا‘‘۔جہانگیر ترین کی نااہلی پرعمران خان نے تکنیکی پہلو کو آڑے ہاتھوں لیا۔ کاشف عباسی کے سامنے جہانگیر ترین کے کرپٹ فنانشل INSIDE TRADINGکا دفاع کرتے ہوئے، اوسان خطا رہنے تھے۔
مائی لارڈ! سپریم کورٹ کسی طور بابا رحمتے کی عدالت نہیں ہے، آئین کے تابع ہے۔ جوانی میں ڈرامہ ’’چھوٹی سی دنیا‘‘ مقبول ہی بابے رحمتے کے انصاف بنا ہوا۔ بابے رحمتے نے خلوص سے انگریزی زبان پر دسترس کے مقابلے میں انگریزی سے نابلد جانو جرمن کو پڑھے لکھے مراد علی خان سے جتوا دیا۔بابے رحمتے کے انصاف سے متعلق ایک اور حکایت پیش خدمت، ایک مکان میں طاق بنا ہوا تھا جس میں مٹی کا نادر آرائشی لوٹا جڑا تھا۔
کھانے پینے کے لالچ میں بکرے نے لوٹے میں منہ ڈالا، سر پھنس گیا۔ دیہاتی بابے رحمتے کے پاس گئے بابے رحمتے نے کہا مکان ڈھا دو تا کہ قیمتی لوٹا بچ جائے۔ مکان گرا دیا گیا لیکن بکرے کا سر بدستور لوٹے میں پھنسا رہا۔ بابے رحمتے نے کیس کو دوبارہ سنا اور کہا کہ بکرا ذبح کرو بکرا ذبح کر دیا گیا لیکن بکرے کا سر بدستور لوٹے میں پھنسا رہا۔ بابے رحمتے نے تیسری سماعت پر فیصلہ سنایا کہ ’’لوٹا توڑ دو‘‘۔ مکان کا ملبہ اٹھایا جا رہا تھا،بکرے کا گوشت کاٹا جا رہا تھا اور نادر لوٹے کے ٹکڑے بکھرے پڑے تھے۔ لوگوں نے دیکھا بابا رحمتا ایک طرف اداس بیٹھا ہے۔ انہوں نے بابے سے وجہ پوچھی تو بابے نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوں کہ جب میں نہیں رہوں گا تو ایسے فیصلے کون کرے گا۔
نواز شریف کی ضد کہ ’’عمران/ترین کیس فیصلہ بھی میرے خلاف آیا ہے‘‘۔ نواز شریف کا آج کا بیان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا،’’یہ انصاف کا ترازو نہیں، تحریک انصاف کا ترازوہے‘‘۔ بدقسمتی کہ نواز شریف کے موقف کی پاکستانی عوام سے زیادہ سینئر وکلاء اور سابق جج خم ٹھونک کر تائید کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن انصاف کے حصول کے لئے تحریک چلانے پر ڈٹ چکی جبکہ مخالف جماعتیں ببانگ دہل فوج اور سپریم کورٹ کے پیچھے کھڑی کھلے عام جلسوں میں تصادم کا عندیہ دے رہی ہیں۔ قوم ’’فوج اور سپریم کورٹ‘‘ پر تقسیم ہو چکی۔ تحریک لبیک کا 25نومبر کا بلوائی دن دوبارہ دہرانے کو۔ قطع نظر کہ کون جیتتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ایسے تصادم اور خانہ جنگی کے بعد پاکستان کا کیا بنے گا؟ کبھی کسی نے سوچا؟ ہم تباہی و بربادی کی طرف تیزی سے گامزن کیوں؟ بیشتر وکیلوں کے پاس بات کرنے کی آزادی، سینئر وکلاء میں بڑی تقسیم سامنے آ چکی۔ میرا دل ڈوب رہا ہے۔ پاکستان کے اداروں پر ایسی تقسیم، ذمہ دار کون ہے؟ نواز شریف شکست کھائے یا جیت جائے، دونوں صورتوں میں وطن عزیز کا تیاپانچہ ہو رہا ہے۔ یہ کس کی خواہش، کون پیچھے؟ نیتوں کا فتور بے قابو ہو چکا ہے، روکے کون؟، اے ارض پاکستان! اللہ ہی تیرا حامی، ناصر و نگہبان۔

تازہ ترین