• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں 19دسمبر کے آغاز سے قبل ہی نیویارک میں اقوام متحدہ اور واشنگٹن میں وہائٹ ہائوس کے محاذ سے ایک ہی روز میں دو امور پر جو پیش رفت سامنے آئی وہ ٹرمپ صدارت کے دوران امریکی ترجیحات اور عالمی صورتحال میں امریکی کردار کے بارے بہت کچھ مزید واضح کرتی ہے۔ یروشلم کو اسرائیلی دارالخلافہ تسلیم کرنے کے امریکی اعلان کے خلاف15 رکنی سلامتی کونسل میں مصری مسودہ قرار داد کی حمایت14 ممالک نے کھل کر کی لیکن صرف امریکہ نے تنہا مخالفت کرتے ہوئے اپنے ویٹو کے حق کا استعمال کر کے اس قرارداد کو منظور ہونے سے روک دیا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پچھلے چھ سال میں امریکہ نے پہلی بار اور صدر ٹرمپ کے دور میں بھی پہلا ویٹو استعمال کیا ہے۔ ماضی میں بھی اسرائیل کو عالمی براداری سے بچانے کے لئے امریکہ کئی بار ویٹو کا حق استعمال کر چکا ہے۔ حالانکہ مصر کی جانب سے صدر ٹرمپ کے یروشلم کے بارے میں اعلان کے خلاف برادری کے سامنے ایک ایسا مسودہ پیش کیا گیا جس میں امریکہ کا نام تک درج کرنے سے گریز کرتے ہوئے یروشلم کو اسرائیل دارالخلافہ قرار دینے کی مخالفت و ممانعت تجویز کی گئی تھی اور یہ مسودہ قرار داد اقوام متحدہ کے منشور کے باب ہفتم کے تحت بھی نہیں تھا یعنی اس قرار داد کے منظور ہونے کی صورت میں اسکے نفاذ اور تعمیل کیلئے کوئی لازمی پابندی بھی نہیں تھی لیکن امریکہ کو اسرائیل کے بارے میں یہ قرار داد بھی منظور نہیں تھی لہٰذا سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے اپنے ویٹو کا حق استعمال کر کے اس کو منظور ہونے سے روک دیا۔ حالانکہ بقیہ چار مستقل اراکین برطانیہ، فرانس، روس اور چین کے ساتھ ساتھ بقیہ تمام10غیر مستقل رکن ممالک متفقہ طور پر مصری قرار داد کے حق میں تھے۔ مسلم دنیا کو اس خوش فہمی کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں کہ دنیا فلسطین کے مسئلےپر فلسطینیوں کی حمایت میں کھڑی ہو گئی ہے۔ بلکہ ٹھوس اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ شروع ہی سے یہ بات واضح تھی کہ سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی کسی بھی ایسی قرارداد کو امریکہ کھل کر ویٹو کر دے گا جو امریکی صدر کے یرو شلم کے بارے میں اعلان یا اسرائیل کے خلاف ہو۔ لہٰذا امریکی اتحادی برطانیہ اور فرانس اور تمام 14 کےفلسطین پر اسرائیلی قبضے کے خلاف اقوام متحدہ کے ریکارڈ اور اصول کے کاغذی تقاضے بھی پورے ہو جائیں گےاور امریکہ ویٹو کے استعمال کی صورتحال بھی جوں کی توں رکھے گا لہٰذا نہ تو کسی رکن سلامتی کونسل ملک نے ووٹ نہ ڈالنے یا مخالفت میں ووٹ ڈالنے کی بجائے مظلوم کے کاز کی حمایت بھی کر ڈالی اور امریکہ کو ناراض بھی نہیں کیا ۔
اور یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ اسرائیل اور یروشلم کے مسئلے پر امریکہ سفارتی تنہائی کا شکار بھی ہے مگر صدر ٹرمپ اور امریکہ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں بلکہ وہ اسرائیل کی حمایت کیلئے اس سے بھی آگے جانے کو تیار ہیں۔
ترکی میں ہونے والی حالیہ او آئی سی کانفرنس میں امریکی صدر ٹرمپ کے یروشلم بارے میں اس اعلان پر احتجاج یا مسترد کر نے کیلئے صرف نچلی سطح کے نمائندے شریک ہوے تھے۔ یہ واضح ہو گیا کہ فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر نہ صرف مسلم دنیا اب گروہوں میں تقسیم ہے بلکہ اتنی کمزور ہے کہ وہ فلسطین ،کشمیر ،قبرص یا روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے پر کوئی موثر موقف بھی اختیار کر سکتے۔ اب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو اس مسئلے پر ’’ڈیڈ لاک‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ تو 1950کی قائم کردہ ایک روایت جسےUniting for Peaceکا نام دیا گیا ہے۔ اس کے تحت مسئلے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں لے جا کر 193رکن ممالک کے سامنے پیش کر کے قرارداد منظور کرانے کی کوشش کی جا سکتی ہے لیکن عملاً اگر یہ قرارداد منظور بھی ہو گئی تو وہ محض ایک قرار داد ہی رہے گی۔ سلامتی کونسل میں امریکہ کے ویٹو کے استعمال کے وقت امریکی سفیر نکی ہیلی نے الٹا طعنہ دیا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اٹلی ، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کے سفیروں نے یرو شلم کے بارے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مذاکرات سے مسئلہ حل کرنے کی حمایت اور مشرقی یروشلم کو فلسطینی مملکت کا دارالخلافہ قرار دینے کی حمایت کی گئی ہے۔ اسرائیل نے امریکی ویٹو کے استعمال پر امریکہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے بہادرانہ اقدام اور مصری مسودہ قرار داد کو شرمناک قرار دیا ۔ فلسطین کے سفیر ریاض منصور نے یرو شلم کو 1967سے اسرائیل کا مقبوضہ علاقہ قرار دیتے ہوئے امریکی اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ اس مسئلے پر دنیا میں تنہا کھڑا ہے۔ عملی اور حقیقی کیفیت یہ ہے کہ ماضی کی طرح اب بھی اقوام متحدہ مظلوم اور کمزور کی اصولی داد رسی کیلئے نہیں بلکہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت اور تعمیل کی ذمہ دار ہے۔ تقسیم اور اختلافات کی شکار مسلم دینا اپنے مسائل کو حل کرنے کیلئے بھی دوسروں کے کردار اور مدد کی محتاج ہے۔ اگر ہم پاکستان کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ناصر جنجوعہ کے تازہ بیان پر تبصرہ کریں تو وہ قوم کو مطلع کر رہے ہیں کہ کشمیر کے معاملے میں امریکہ نے بھی وہی موقف اپنا لیا ہے جو بھارت کا ہے یعنی پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے اور کشمیر کے بارے میں بھارتی موقف کا حامی ہے۔
اسی روز امریکی صدر ٹرمپ نے بھی 68صفحات پر مشتمل امریکی نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس اسٹرٹیجی کی عملی تاویل اور تفصیل تو وقت ہی سامنے لائے گا لیکن صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کے ریگن سینٹر میں18دسمبر کو اس اسٹرٹیجی کا اعلان کرتے ہوئے پاکستان کے حوالے سے بھی جو کچھ کہا ہے وہ کسی اچھی خبر کی نشاندہی نہیں کرتا۔ انہوں نے اپنے بیان میں تو یہ بھی کہہ دیا کہ ہم ہر سال پاکستان کو ایک بڑی رقم دیتے ہیں لہٰذا دہشت گردوں کے خلاف پاکستان جو اسلحہ، وسائل اور دیگر اخراجات کرتا ہے وہ تمام ثبوتوں کے ساتھ امریکی حکومت کو دیتا ہے پھر پاکستان کے ان اخراجات کی امریکی تصدیق اور کانٹ چھانٹ کے بعد کانگریس کی منظوری کے بعد کوالیشن سپورٹ فنڈ میں سے پاکستان کو سمجھوتے کے تحت ’’ریفنڈ‘‘ کیا جاتا ہے یعنی پاکستان پہلے خرچ کرتا ہے اور پھر ’’ریفنڈ‘‘ لیتا ہے لیکن ہمیں ’’کرایہ ‘‘ پر کام کرنے والا قرار دیکر ڈالرز دیئے جانے کا ذکر کرتے ہوئے مخاطب کیا جاتا ہے۔
صدر ٹرمپ کی نئی نیشنل سکیورٹی اسٹرٹیجی میں بھی مجھے پاکستان کیلئے صرف ذمہ داریاں اور مطالباتہی نظر آ رہے ہیں کوئی مراعات یا ستائش نظر نہیں آتی ۔مثلاً صدر ٹرمپ کا مطالبہ ہے (1) پاکستان اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور دہشت گردوں کا صفایا کرے۔(2) پاکستان افغانستان کی خود انحصاری اور سیکورٹی کی ذمہ داریاں ادا کرے (3) بھارت کے ساتھ تعاون کرے اور افغانستان میں اس کے وجود اور ایجنڈےکو بھی برداشت کرے۔ اس کے بدلے میں پاکستان کیلئے کسی صلہ و ستائش کا کوئی ذکر نہیں۔ امریکی اسٹرٹیجی کی دستاویز کے صفحہ 60پر بھی جنوبی ایشیا اور پاکستان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اس میں پاک۔ بھارت کشیدگی اور ممکنہ ایٹمی تصادم کا خطرہ اور پاکستان کے ایٹمی مواد اور اثاثوں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے خطرےکابھی ذکر ہے۔ روس اور چین کو ایسے ملک قرار دیا گیا ہے جو موجودہ عالمی طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالفاظ دیگر ان ممالک کے ساتھ تعاون کرنے اور قریبی تعلقات رکھنے والے ممالک بھی امریکہ کیلئے ناپسندیدہ قرار پائیں گے۔ پاکستان کو فیصلہ کن ایکشن لینے کو کہا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کی اس نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی کے جو چار ستون بیان کئے گئے وہ یہ ہیں (1) ہوم لینڈ یعنی امریکہ کی حفاظت (2) امریکہ میںخوشحالی کافروغ (3)ملٹری ،سائبر او ر ا سپیس کی طاقت کے ذریعے امن کا قیام، (4) امریکی اثر و رسوخ کو فروغ گویا باقی تمام ممالک کا امریکی مقاصد کے لئے استعمال مقصود ہے۔ جنوبی ایشیا میں بھارتی مفادکو امریکی مفاد قرار دے دیا گیا ہے تو پاکستان کے فیصلہ ساز یہ جان لیں کہ صدر ٹرمپ کی نئی ا سٹریجی میں چین کے اتحادی اور سی پیک کے حامل پاکستان کے بارے میں امریکی حکمت عملی کیا ہوگی؟ ہر چار سال بعد امریکی صدر نئی نیشنل سیکورٹی تیار کرتا ہے۔ صدر براک اوباما بھی دو مرتبہ کر چکے۔ صدر بش نے بھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے بعد اسٹرٹیجی تیار کی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیر سنجیدہ اور غیر سیاسی صدر نے اپنی معیاد صدارت کے پہلے ہی سال میں اوباما سے بھی 15 صفحات مزید طویل دستاویز ’’نیشنل سیکورٹی اسٹرٹیجی‘‘ جاری کر دی۔

تازہ ترین