• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم کروڑوں پاکستانی دنیا کو دیکھنے، سیر و تفریح اور علم حاصل کرنے کے لئے دیس دیس پھرتے ہیں مگر بہت کم لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنا پورا ملک دیکھ رکھا ہو۔ اس کی ایک وجہ کچھ علاقوں کے بارے میں پھیلائی گئی سنسنی خیزی ہے جس کی وجہ سے لوگ وہاں جانے سے کتراتے ہیں۔ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں جو دنیا کے کئی ممالک کی سیر سے لطف اندوز ہونے کے باوجود اپنی زمین کے کچھ جنت نظیر ٹکڑوں اور لوگوں تک رسائی نہ کر سکی۔ بھلا ہو ڈاکٹر اباسین یوسفزئی کا جن کی سربراہی میں تصوف پر پروگرام کرنے کیلئے خیبر پختونخوا، فاٹا بالخصوص خیبر ایجنسی دیکھنے اور وہاں ایک دن گزارنے کا موقع ملا۔ اس دورے میں بے شمار حیرتیں مجھے پشیمان کرتی رہیں۔ فضا میں ہر طرف سوالات اُڑتے دکھائی دیئے۔ کچھ میرے ذہن اور کچھ اس دھرتی سے پھوٹ رہے تھے۔ جب جب زمین سبزہ اگانا بند کر دیتی ہے تو وہ سوالات اور شکوک کے پتھر اُگلتی ہے۔ یہاں کی زمین بھی ایسی ہی تھی، روکھی، خشک اور بے رونق۔ علاقے سے برتی جانے والی بے اعتنائی کا اثر پوری فضا پر طاری تھا۔
پاک افغان سرحد پر لہراتا ہوا پاکستان کا جھنڈا، طورخم پر قائم پاک فوج کی چوکی پوری شان سے موجود ہے لیکن پاکستان کی اس چار دیواری کے اندر فاٹا کا علاقہ آئینی اور انسانی حقوق سے محروم ہے۔ فاٹا سات قبائلی ایجنسیوں اور چھ ایف آر پر مشتمل ہے۔ یہ ایف آر یعنی فرنٹیئر ریجنز وہ متصل علاقے ہیں جو صوبے اور فاٹا کے درمیان والے علاقے کہلاتے ہیں لیکن وہاں بھی قبائلی سسٹم ہی رائج ہے۔ فاٹا میں پولیٹکل ایجنٹ، جو کہ مرکز کا نامزد کردہ ہوتا ہے، کی حیثیت مطلق العنان بادشاہ کی سی ہوتی ہے۔ وہ مختلف قبائل کے سرکردہ (سرداروں) مَلکوں کے ساتھ مل کر فاٹا کا انتظام چلاتا ہے۔ یہ ملک دراصل اس کے وزیروں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ہر مہینے تنخواہ کی طرح رقم کی ادائیگی بھی کی جاتی ہے۔ پولیٹکل ایجنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ اس کے کسی فیصلے کو پاکستان کی سپریم کورٹ میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز) کے تحت وہ جس کو چاہے سزا سنا دے اور جسے چاہے معاف کر دے یعنی انسانی حقوق کی بدترین پامالی ان علاقہ جات میں دیکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی مجرم قتل یا کوئی اور بڑا جرم کر کے روپوش ہو جائے تو اس کی سزا اس کے باپ یا بھائی کو بھی دی جا سکتی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی اور ملک میں نہیں ہے۔ پولیس کی عدم موجودگی میں امن و امان کی صورت حال خاصی مخدوش رہتی ہے۔ سول فورس، جو خاصہ دار کہلاتی ہے، میں ہر قبیلے سے لوگ بھرتی کئے جاتے ہیں جو علاقے کے قوانین اور پولیٹکل ایجنٹ کی منشاکے مطابق فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ یہاں فنڈز کا کوئی آڈٹ نہیں ہوتا۔ اسی سے منصوبوں کی شفافیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں کی معروف صنعت کا تعلق بارڈر سے ہے۔ 1700کلومیٹر لمبے بارڈر کی نگرانی بہت مشکل ہے اور پھر یہ بارڈر اونچے اونچے پہاڑوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے مکمل طور پر اسمگلنگ کی روک تھام ناممکن ہے تاہم فوج نے حفاظتی نقطۂ نظر سے اس بارڈر پر دیوار تعمیر کرنی شروع کر رکھی ہے۔ عام لوگوں کے گھر چھوٹے چھوٹے ہیں جب کہ ملکوں کے گھر کئی ایکڑوں پر پھیلے ہوئے ہیں اور سڑک سے گزرتے ہوئے گھروں کا اندازہ نہیں ہوتا کیوں کہ چار دیواری اور بیرونی دروازے بہت بلند ہوتے ہیں۔ یہاں ہزاروں کنال پر پھیلا ہوا ایک بہت بڑا جدید گھر بھی موجود ہے جسے ملک ایوب آفریدی نے بڑی محبت سے بنوایا تھا۔ وہ شخص اتنا ذہین تھا کہ اس نے مختلف حوالوں سے بے شمار دولت کمائی لیکن وہ تمام دولت ایک گھر کی تعمیر میں صرف کر دی۔ آصف علی زرداری کے دوسرے دور میں اس سے مخالفت کی وجہ سے اسے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور آج کل اس کے بچے اس گھر سے محروم ہیں۔ اگر وہ اس گھر کی بجائے یہاں کوئی یونیورسٹی، اسپتال یا کالج بنوا جاتا تو آج اس کا نام محبت سے لیا جاتا اور خیر کے اس عمل کی برکت سے علاقے کے لوگ بھی مستفید ہوتے۔ روزگار کے مواقع نہ ہونے کے باعث زیادہ تر لوگ مڈل ایسٹ اور گلف میں کام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسکی ایک وجہ اس علاقے کے افراد کو ملک میں شک کی نگاہ سے دیکھے جانا بھی ہے۔ عالمی قوتوں کے کھیل نے یہاں کے لوگوں کی شناخت کو بری طرح مجروح کیا ہے ورنہ افغان جنگ سے قبل یہ بہت پرسکون علاقے کہلاتے تھے اوریہاں تفریحی مقامات پر لوگوں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔ مجموعی طور پر اکثریت سادہ، معصوم اور مظلوم ہے۔
کاشت کاری کی طرف توجہ بہت کم ہے، بجلی کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہیں، جو اسکول اور کالج ہیں ان کا معیار بھی بہت غیر معیاری ہے۔ کالج، اسپتال اور یونیورسٹی نہ ہونے کی وجہ سے ان قبائل کا تمام بوجھ خیبر پختونخواصوبے پر ہوتا ہے جس کی اپنی حالت کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ پشاور اگرچہ تاریخی شہر ہے لیکن اتنا بڑا نہیں کہ یہاں میٹرو بنائی جاتی لیکن شاید لاہور میں میٹرو کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے یہاں اس منصوبے کو شروع کیا گیا جس کی وجہ سے پورا شہر کھُدا پڑا ہے۔ خیبر ایجنسی میں بابا حمزہ شنواری کا گائوں پہاڑوں کے درمیان گھرا ہوا ایک دلکش نظارہ پیش کرتا ہے جو کہ پشتو کے بہت بڑے غزل گو شاعر ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پسماندہ علاقے میں ادب سے جڑی شخصیات پوری دنیا میں معروف ہیں۔ بڑے بڑے پہاڑ جن پر سبزہ اور درخت بالکل دکھائی نہیں دیتا لیکن ان کی ہیبت دل میں عجب احساس اُجاگر کرتی ہے۔ انہی پہاڑوں کو دیکھ کر حفیظ جالندھری نے کہا تھا:
نہ اس میں گھاس اُگتی ہے نہ اس میں پھول کھلتے ہیں
مگر اس سرزمیں سے آسماں بھی جھُک کے ملتے ہیں
بابا حمزہ شنواری کے گائوں میں بچوں سے ملاقات ہوئی۔ نوجوان خاصہ داروں اور بڑے بوڑھوں کو دیکھا۔ یہ سب عام لوگ تھے اس لئے ان کی آنکھوں میں ایک عجب سی حیرانی تھی، خوف تھا، محرومی تھی۔ وہ بات کرتے ہوئے ہچکچا رہے تھے کیوں کہ ہم نے انہیں خود سے جُدا کر کے ایک الگ تہذیب کا باسی بنا دیا ہے۔ وہ ہمیں حیرانی سے دیکھ رہے تھے جیسے ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ اسی سڑک پر ایک رستہ ایسا بھی آتا ہے جو ہر طرف سے پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے۔ یہ ایک تکون کی شکل میں ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہاں سترھویں صدی میں مغلوں کی فوج کو سب سے بڑی شکست ہوئی تھی کیوں کہ اتنے اونچے پہاڑوں سے بھاگنا یا بچ نکلنا مشکل تھا۔ اسی جگہ سڑک پر ایک مسجد بھی ہے جسے حضرت علیؓ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اور اس کے بارے میں روایت ہے کہ شاید وہ تبلیغ کی غرض سے یہاں تک آئے تھے۔
موجودہ حکومت نے کئی بار فاٹا کے حوالے سے بل پیش کرنے کا عندیہ دیا لیکن پھر کوئی نہ کوئی قوت اس کے فیصلے کی راہ میں رکاوٹ بنتی رہی۔ اگر الیکشن سے پہلے حکومت فاٹا کی آئینی حیثیت کا تعین کر لیتی ہے تو تاریخ میں اس کا نام اچھے لفظوں سے لکھا جائیگا۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ فاٹا کے لوگوں کو اعتماد میں لیکر ان کی منشا کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ جنرل ناصر جنجوعہ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقاتوں سے محسوس ہوتا ہے کہ جلد فاٹا کے حوالے سے مثبت خبر سننے کو ملے گی۔

تازہ ترین