• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ بزنس لیڈرز کونسل کی تقریب تھی، اس کا اہتمام اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن نے کر رکھا تھا، تقریب کے آرگنائزر لیہ کے غلاام مصطفیٰ نہرہ تھے۔ تزئین اختر نے بھی اپنا حصہ ڈال رکھا تھا، تقریب ختم ہوئی تو جب چائے کی میز پر بیٹھے تو ایک پاکستانی بزنس مین میرے پاس آکر بیٹھ گئے، انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور پھر مجھ سے یوں مخاطب ہوئے’’آپ نے دوران تقریر کچھ زیادہ ہی رگڑا لگا دیا ہے، مثلاً آپ کہہ رہے تھے خلیجی اور مغربی حکومتیں بھی ہماری مجرم ہیں، یہ حکومتیں ہمارے ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ فراہم کرتی ہیں، ہمارے چوروں اور لٹیروں کو پناہ دیتی ہیں، ایک طرح سے یہ ملک، یہ حکومتیں بھی شریک جرم ہیںکیونکہ ہمارے ملک سے جو چوری کا مال آتا ہے، اسے یہ قبول کرتے ہیں، اگر آپ ان ملکوں سے پیسہ پاکستان لے جانا چاہیں تو یہ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں، آخر یہ حساب انہیں اس وقت کیوں بھول جاتا ہے جب پاکستان سے پیسہ چوری ہو کر ان ملکوں میںآتا ہے، جب پاکستان سے چور اور لٹیرے ان ملکوں میں آتے ہیں تو یہ ملک انہیں نہ صرف تحفظ دیتے ہیں بلکہ ان کے ناز نخرے بھی برداشت کرتے ہیں، آپ اوورسیز پاکستانی اپنی محنت سے ان ملکوں میں اپنا کاروبار چمکاتے ہیں، آپ کے پیسے پر کبھی کوئی تنقید نہیں کرے گا، آپ تو بیرونی دنیا سے پیسہ کما کرپاکستان بھیجتے ہیں، آپ پر کسی کو شک نہیں بلکہ آپ پر پوری قوم کو فخر ہے مگر آپ لوگوں کو بھی چاہئے کہ آپ جن ملکوں میں کام کرتے ہیں، آپ وہاں کی حکومتوں سے احتجاج کریں کہ وہ ہمارے چوروں کو پناہ نہ دیا کریں، وہ ہمارے ملک سے چوری شدہ پیسے کو تحفظ نہ دیا کریں، آپ ان ملکوں کی حکومتوں پر دبائو ڈالیں گے تویقیناً اس سے بہتری آئے گی، میں تو پاکستانیوں سے بھی گزارش کرتا رہتا ہوں کہ وہ ووٹ دیتے وقت سوچا کریں کہ کہیں وہ چور اور لٹیرے کو تو ووٹ نہیں دے رہے، مجھے بدقسمتی سے یہ اقرار کرنا پڑ رہا ہے کہ میرے ملک میں انتخابی نظام ایسا ہے، وہاں انتخابی حالات ایسے ہیں کہ پورے انتخابی نظام کو لٹیروں اور چوروں نے اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، میں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے گزارش کی ہے کہ آپ بنگلہ دیش کی طرز پر دو کام کردیں، مثلاً کسی بھی حلقے سے جیتنے والے کیلئے 51فیصد ووٹ لینا ضروری ہو، آپ ووٹ کی پرچی پر ایک خانے کا اضافہ کردیں کہ جس میں یہ درج ہو کہ میں ان میں سے کسی امیدوار کو اس اہل نہیں سمجھتا کہ اسے ووٹ دیا جائے، بس یہ دو کام آپ کردیں، باقی کام لوگ کرلیں گے۔ شاید میری باتیں آپ کو بری لگ رہی ہوں مگر میں یہ باتیں دکھ سے کررہاہوں، حال ہی میں ایک پاکستانی سیاستدان نے ایک اہم خلیجی ریاست میں ایک سو اپارٹمنٹس انتہائی مہنگے علاقے میں خریدے ہیں، اسی خلیجی ریاست میں ایک اور پاکستانی سیاستدان قریباً ڈیڑھ ارب ڈالر پاکستان سے لوٹ کر لایا، اس نے خلیجی ریاست میں ایک شاندار ہوٹل بھی بنا رکھا ہے، ایک اور پاکستانی سیاستدان کے اسی خلیجی ریاست میں پندرہ ٹاورز ہیں، اس کی لندن میں بھی جائیدادیں ہیں، ایک اور اہم پاکستانی سیاستدان نے خلیجی ریاستوں میں پورا شہر آباد کر رکھا ہے، یورپ اور امریکہ میںاس کی کئی جائیدادیں ہیں‘‘۔ وہ ایک لمحے کے لئے رکا تو میں نے عرض کیا کہ میں نے کیا برا کہا ہے؟ میری اس عرضداشت کے جواب میں پاکستانی بزنس مین بولا ’’نہیں آپ نے جو کہا، وہ سب سچ ہے مگر جب آپ تقریر کررہے تھے تو مختلف ملکوں کے سفارت کار آپ کو بڑے غور سے دیکھ رہے تھے، ان میں عرب سفارت کار بھی تھے اور مغربی سفارت کار بھی‘‘۔
میں نے اس کی بات سنی اور پھر کہا کہ حضور! مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری باتیں کس کو اچھی لگیں یا کس کو بری لگیں، میں نے تو پچھلے دنوں اقوام متحدہ کے بارے میں بھی لکھ دیا تھا کہ امریکہ نے اپنے بہت سے منصوبوں کی تکمیل اقوام متحدہ کی چھتری تلے کی، جب شام، اردن، یمن اور لبنان میں انسانوں پر موت مسلط کی جاتی ہے تو اقوام متحدہ کا ادارہ کیوں خاموش رہتا ہے، جب فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل ناجائز قبضہ کرتا ہے تو اقوام متحدہ کا کردار کدھر جاتا ہے، جب ایک معصوم فلسطینی بچے کو اسرائیلی فوجی مارتے ہیں تو اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کیوں چپ رہتے ہیں، یہ جو ویٹو پاور کا ڈرامہ ہے، یہ بھی کیا فراڈ ہے، دنیا میں پچاس سے زائد اسلامی ملک ہیں مگر حیرت ہے کہ کسی بھی اسلامی ملک کے پاس ویٹو پاور نہیں، یہ کیا مذاق ہے۔ اس تقریب سے کچھ دیر پہلے میری دو اہم شخصیات سے ملاقات ہوئی،اتفاق سے ان میں سے ایک شخصیت کا تعلق ایک خلیجی ریاست سے اور دوسری کا تعلق ایک اہم مغربی ملک سے تھا، ان سے دنیا کے مسائل پرگفتگو ہورہی تھی، جونہی کرپشن کا تذکرہ ہوا تو وہ کہنے لگے کہ آپ کے ملک میں بڑا مسئلہ کرپشن ہے، مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے ان دونوں کو کھری کھری سنا دیں، میں نے ان سےکہا کہ تم بھی ہمارے مجرم ہو، وہ بولے وہ کیسے؟ بس پھر لفظوں کی ادائیگی یوں شروع ہوئی کہ ہاں تم بھی ہمارے مجرم ہو، تم ایسے پیسے کو تحفظ دیتے ہو جو چند لٹیرے ہمارے ملک سے لوٹ کر لاتے ہیں، تم ان چوروں کو تحفظ بھی دیتے ہو، تم میں سے بہت سے ملک محض دولت کی بنیاد پر شہریت بھی دیتے ہیں، تم لوگ اگر چوروں کو پناہ نہ دو تو یقیناً چوری بند ہو جائے، ایک طرح سے تم شریک جرم ہو، اور یہ جو مغرب کے لوگ ہیں یہ تو ہمارے چوروں، لٹیروں کے علاوہ ہمارے غداروں کو بھی پناہ دیتے ہیں، یہ تو ایسے لوگوں کو بھی پناہ دیتے ہیں جو مسلمانوں کے عقیدے پر حملہ آور ہوتے ہیں، آپ ہمارے دشمنوں کو پناہ دیتے ہیں تو کیا آپ ہمارے دوست ہیں؟ نہیں آپ بھی ہمارے مجرم ہیں۔
خواتین و حضرات! آپ بوریت محسوس نہ کریں، میں آخر میں لاہور کی ایک نوجوان وکیل شاعرہ ناہید بیگ کے اشعار آپ کی خدمت میں پیش کررہا ہوں کہ؎
کبھی مشکلوں کا تھا سامنا
کبھی راحتوں میں گزر گئے
یہ جو دن تھے میرے شباب کے
وہ عدالتوں میں گزر گئے

تازہ ترین