• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چار دن میں پانچ شہروں سے ہوکرواپس اپنے گھر، سبب کیا تھا۔جشن ادب کے منتظم جو کہ میرے بیٹے جیسا ہے۔ دلی میں رہتا ہے مطالبہ تھا کہ آگرے کی ڈاکٹر حنا کو بیاہ کر لانے کے لئے میری موجودگی لازمی ہے سخت سردی واہگہ کے راستے امرتسر، وہاں بھی میرے بھائی سامنے کھڑے میرا انتظار کررہے تھے۔ شادی چاہے پاکستان کی ہو کہ ہندوستان کی۔ وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی کہ رخصتی کب ہوگی اور کھانا کب شروع ہوگا۔ البتہ ایک بات جو دونوںملکوں پر بھوت کی طرح مسلط ہے۔ وہ یہ کہ ہمارے یہاں تو پھر بھی ہوتا ہے کہ چڑھتے چاند کی تاریخوں میں شادی کو لوگ شادمانی تصوّر کرتے ہیں مگر انڈیا میں تو سارے پنڈت مہورت ہی رات ڈیڑھ بجے کے بعد کی نکالتے ہیں، سبب اس کا یہ بتاتے ہیں کہ لڑکی کوگھرسےصبح کے تاروں کی چھائوں میں رخصت کرتے ہیں تاکہ سورج کی پہلی کرن وہ سسرال میں جاکر دیکھے۔ ساری خوش گمانیاں نوبیاہتا جوڑے کے لئے دعائوں کی طرح سامنے آجاتی ہیں۔ ہمارا دولہا رنجیت چوہان، شاعر آدمی ہے یہ راجپوتوں والی پگڑی رکھ تو لی، مگر بار بار کہتا’’سخت گرمی لگ رہی ہے، پگڑی،یہ شیروانی اتاردوں‘‘ یوںہنستے کھیلتے آگرے سے رخصت ہونے لگے تو سامنے حنا اور رنجیت موجود تھے۔’’ارے تم رائے بریلی رخصت ہوکرجاتے، یہاں کیا کررہے ہو۔‘‘ بولا ’’ہم آپ لوگوں کو رخصت کرنے آئےہیں‘‘۔
دلی سے آگرے تک ڈبل روڈ، بہت اچھی بنائی گئی ہے، یہ بھی چند سال اُدھر کی بات ہے، ورنہ اتنی ٹوٹی پھوٹی سڑک تھی کہ تاج محل دیکھنا، مصیبت لگتا تھا۔اب کیا ہوا ہے۔ تاج محل آپ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے نہیں دیکھ سکتے ، کوئی ایک کلو میٹر فاصلے پر گاڑیاں روک دی جاتی ہیں۔ غیر ملکی ہو کہ دیسی، سب پیدل چل کر تاج محل پر پہنچتے ہیں۔ شہر آگرہ جس طرف سے بھی جائو، اپنی غربت کی پٹاری کھولے کھڑا ہے۔ یہ دیکھ کر ، مجھے لاہور یاد آیا۔ جس قدر رقم غیر ضروری کاموں پر لوگ خرچ کرتے ہیں۔ اگر وہ رقم صحیح حساب سے خرچ کی جائے تو پورےلاہور کا خرچ نکل سکتا ہے۔ اس طرح جسقدر ٹورسٹ تاج محل دیکھنے آتے ہیں۔ اسکی آمدنی سے کم از کم آگرہ کے اندر کی سڑکیں ٹھیک کی جاسکتی تھیں۔ ہر چندکہ اسٹار ہوٹلوں کے آس پاس مارکیٹ سینٹر بھی ہے۔ حالت یہ ہے کہ دھوئیں اور مٹی کی ملی جلی چادر، تاج محل کے ارد گرد، اتنی دبیز تھی کہ سب لوگ اندازے سے ہی تاج محل دیکھ رہے تھے۔ہمارے ڈرائیور نے بھی، دوچار کونوں سے تاج محل دکھانے کی کوشش کی کہ اشوک جی نے مجھے بار بار کہا تھا کہ تاج محل کو ملتانی مٹی سے صاف کیا گیا ہے۔ اب بہت اچھا لگ رہا ہے‘‘۔پوچھا ’’ کیا اب بھی لوگ نیچے قبر پر جاکر فاتحہ پڑھتے ہیں‘‘۔ ہنس کر کہا ’’کیوں پرانی باتیں کرتی ہیں، وہ حصہ کئی سالوں سے بند ہے‘‘۔ خود کو تسلی دیتے ہوئے، گاڑی کو دہلی کے راستے پر ڈالا، پرویز جو کہ ایک چینل کے نمائندے ہیں۔ ہم ان سے گجرات اور مہاراشٹر کے انتخابات کی بات کرنے لگے۔ اندازہ ہوا کہ جیسے برے حال ، ہمارےیہاں پی پی پی کاہے، وہی حال انڈیا میں کانگریس کا ہے۔ میںاندر ہی اندر ڈررہی تھی کہ کہیں پاکستان میں ڈالر اور روپے کی قیمت کا نہ پوچھ لیں کہ اسوقت انڈیا میں63روپے کا ڈالر ہے جبکہ پاکستان میں 112روپےکا ہے۔ پھر بھی میں نے بارڈر پر دیکھا کہ پاکستان واپس آنے والے خاندان سوٹ کیس بھر بھر کر لارہے تھے، بقول انڈین کسٹم آفیسر، اتنے سارے سوٹ کیسوں پر کم از کم پچاس ہزار روپے ٹیکس لگ سکتا ہے۔ میں نے کہا’’ یہ ہم دونوں ملکوں کا مرض ہے۔ ابھی میرے واہگہ کی جانب جاتے ہوئے، ہمارے سفارت خانے کے ایک افسر سے ملاقات ہوئی، وہ ایک بہت بڑا پلاسٹک بیگ بار بار سنبھال رہے تھے۔ میں نے ہنس کر پوچھا۔ آخر یہ کیا ہے جو آپ مسلسل ہاتھ میں پکڑے ہوئے ہیں۔ بولے افسروں کی فرمائشیں، میرے لئے پاکستانی کھانے کی فلاں فلاں چیزیں لے آئیں۔ بس اسلئے یہ تھیلا، میرے ہاتھ میں ہے۔
یہ زمانہ ہے کہ جب اتنی شادیاں ہوتی ہیں کہ لگتا ہے کہ کوئی لڑکی کنواری نہیں رہے گی۔ انڈیا اور پاکستان میں کیا سڑکیں اور کیا شادی ہال، ہر جگہ شامیانے لگے ہوتے ہیں۔ دلی ایئر پورٹ پر نوبیاہتا دلہنیں لہنگے لہراتی اِدھر اُدھر ہنستی جارہی تھیں۔ خدا سب کو خوش رکھے۔ عام لوگ بالکل لڑنے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ ہم نے جس ڈھابے پر رک کر چائے پی سب لوگ مہنگائی کا رونا رورہے تھے، پنجاب یعنی امرتسر آکر میں نے ریڑھیوں پر مشرو م فرخت ہوتے دیکھے، غصہ آیا کہ آخر ہمارے ملک میں پنیر اور مشروم کیوںعام طور پر میسر نہیں ہوتے ہیں۔ امرتسرمیں تو سرسوں کا پکا ہوا ساگ، ڈبوں میں بند مل رہا تھا۔ذرا سا لہسن کا تڑکا لگایا، مزیدار ساگ موجود تھا، پاکستان کی طرح سڑکوں پر سنگتروں ، کیلوں اور امرودوں کے ڈھیر لگے تھے۔ ہم دونوں ملکوں کے لوگ، سوکھی روٹی کھالیتے ہیں، سستےپھل کھانے کا تصوّر ابھی تک ہماری خوراک کا حصہ بہت کم ہے۔بھوبھل میں بھنی ہوئی شکر قندیاں، ابلے ہوئے اور چھلے سنگھاڑے، ساتھ میں انناس کی ٹکڑیوں کی چاٹ، بالکل انارکلی کی چاٹ کی طرح، سب کھارے تھے۔
میں بازار کیوں نہیں گئی!اول تو ڈالر کے مہنگے ہونے اور پاکستانی روپے کی قیمت کی کمی کو سامنے رکھ کر، بازار نہ جانا ہی عقلمندی تھی۔ ادیبوں سے اچانک ملاقات،آئی، آئی ، سی کے ڈائننگ روم میں کم از کم پچیس ادیب موجود تھے۔ قاضی عبدالستار کو تندرست دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہیں گلزار صاحب اور فرحت احساس موجود تھے۔ جو مجھ سے معذرت خواہانہ طریقے سےمل رہے تھے۔ وجہ یہ کہ اس وقت اسٹیڈیم میں ریختہ والوںکی کانفرنس ہورہی تھی اور فرحت احساس مجھ سے معذرت ،گزشتہ سال کے واقعات کے باعث کررہے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس سال انور مقصود، زہرہ نگاہ اور سلیمہ ہاشمی کو ٹیلی وژن پر دیکھا گیا، ملاقات شمیم صنفی سے اس لئے نہیں ہوسکی کہ وہ اور صبا دونوں ریختہ کانفرنس کے اہم رکن ہیں البتہ ڈاکٹر نارنگ اور منورما سے اچھی باتیں رہیں۔رنجیت اور حنا، شادی میں ساری رات گزرنے پر معذرت کررہے تھےمگر فتوےچاہے پاکستان میں ہوں کہ انڈیا میں۔ لوگوں پر زبردستی ٹھونسے جاتے ہیں۔اب بتائو کہ پھیرے بھلا شام کو کیوں نہیں لگائے جاسکتے۔ ہم کیا بولیں، ہمیں تو رنجیت نے رات ڈیڑھ بجے ہوٹل واپس بھجوادیا تھا۔

تازہ ترین