• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اہل قلم کی عزت اور بے عزتی چیف جسٹس سپریم کورٹ کی تقریر پر ردعمل قابل فہم ہےکوے ’’کائیں کائیں‘‘ کررہے ہیںطوطے ’’ٹائیں ٹائیں‘‘ کررہے ہیںکسی جواں سال رپورٹر کو چاہئے کہ ان سب کی فہرست بنائے اور پھر کھوج لگائے کہ ان میں سے کس کس کے بالواسطہ یا بلاواسطہ مفادات کا کھرا نااہل میاں کی کھرلی تک جاتا ہے۔ جنہیں اپنے پیشوں میں معمولی یا متوسط قسم کے پیکیج ملتے تھے، انہیں ٹیکس پیئر کے پیسے پر تیس تیس لاکھ کے پیکیج ملیں گے تو ظاہر ہے ’’کائیں کائیں‘‘ اور ’’ٹائیں ٹائیں‘‘ تو ہوگی۔ شاید 5فیصد بھی ایسے نہ ہوں جو اصولی، نصابی بات کررہے ہوں، معاملہ دراصل ’’حسابی کتابی‘‘ ہے ورنہ کوئی تو یہ بھی کہتا کہ اگر ججز کو اپنے فیصلوں میں بولنا چاہئے تو جمہوری مہم جوئوں کو بھی تو اپنی ’’کارکردگی‘‘ میں بولنا چاہئے۔ ’’کارکردگیاں‘‘ اگر پاناما سے پارک لین، سرے محل سے کوٹیکنا تک جلوے بکھیریں گی تو حالات غیر معمولی ہو ہی جائیں گے اور غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں۔سیاست سے صحافت تک ہر شعبہ میں ’’میاں نے مچا دی ہلچل‘‘ یعنی ہر ادارہ میں ’’حجازی‘‘ اور وہ جو اون ائیر کہتا رہا کہ ’’صحافت کو سیڑھی بنا کر سرکاری نوکریوں کو جپھے ڈالنے والے بہروپیئے ہوتے ہیں‘‘.....خود پیمرا کو پیارا ہوگیا حالانکہ بری طرح انڈر کوالیفائیڈ تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا سارا نظریہ پاکستان اور ساری نشاۃ ثانیہ چند لاکھ کی مار ہوتی ہے۔ مسئلہ اپنا ہو، اپنی اولاد کو جوسی قسم کی راشی پوسٹنگ دلانے کا ہو، بھائی بند کو آئوٹ آف ٹرن وی سی بنوانے کا ہو یا کسی نالائق .....’’چہیتی‘‘ کو یونیورسٹی میں گھسانے کا، ان کے سارے معیار، میرٹ، موریلیٹی دھری کی دھری رہ جاتی ہے لیکن پھر بھی اخلاقیات کے ہول سیلرز یہی ہیں۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ صحافت جیسا کام چھوڑ کر یہ منہ میں درباری نوکری کی لگام کیوں ڈال لیتے ہیں؟ شاید عدم اطمینان اور ناآسودگی یا لالچ ورنہ سچ پوچھیں اس کام جیسا کام کوئی نہیں لیکن اس کام کا قصیدہ بعد میں، پہلے اس زہریلی حقیقت اور میرٹ دشمنی کا ذکر ضروری ہے کہ نوازشریف نامی شخص نے ملکی اداروں کو چراگاہوں میں تبدیل کر کے ان میں اپنے جو پالتو پروردہ جانور چرائی کیلئے کھلے چھوڑے وہ کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔ یہاں مجھے ایک پرانے آئی جی پنجاب عباس خان کی رپورٹ یاد آتی ہے کہ یہ پولیس جیسے محکمہ میں بھی "WANTEDʼʼتک بھرتی کرنے سے باز نہ آئے۔میں نہیں جانتا بلکہ یوں کہہ لیجئے کوشش کے باوجود نہیں جان پایا کہ اہل قلم، اہل فکر، اہل دانش کو اپنے مورچہ پر مستحکم رہنا چاہئے یا سرکار دربار میں منہ مارنا بلکہ کالا کرانا چاہئے؟ لیکن ایک بات طے ہے کہ خود اپنے لئے یہ قطعاً میرے وارے میں نہیں اور اس کا تعلق اخلاقیات، اصول، اقدار وغیرہ نہیں سو فیصد افتاد طبع کے ساتھ ہے۔ اسی لئے میں نے گھر تک چھوڑ دیا۔ والد مرحوم چاہتے تھے میں سول سروس میں جائوں۔ میں نے قلم کی مزدوری کا فیصلہ کیا تو ان کیلئے کسی شاک سے کم نہ تھا۔ وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ ’’میں نہ کسی کا باس ہوسکتا ہوں نہ کسی کا ماتحت۔ اس لئے شاید یہی آوارہ سا پیشہ مجھے سوٹ کرے گا، فرمایا ’’بھوکے مرو گے‘‘ عرض کیا ’’آپ کو کبھی زحمت نہ دوں گا‘‘ نتیجہ؟ گھر چھوڑنا پڑا۔ ہاسٹل میں 450روپیہ ملتا تھا۔ بطور صحافی پہلی تنخواہ 350روپیہ تھی لیکن میں شانت تھا۔ اونچ نیچ بھی بھگتی لیکن رتی برابر پچھتاوا نہیں۔ ماہنامہ ’’دھنک‘‘ کے دفتر کے اوپر اس چھوٹے سے کمرے کی تصویر آج بھی میری سٹڈی میں آویزاں ہے جہاں کیریئر کے پہلے دو سال گزارے۔ میرے لئے وہ تب بھی کسی محل سے کم نہ تھا۔ آج بھی مین مارکیٹ گلبرگ اس کمرے کو سلام کرنے جاتا اور اپنے بچوں کو فخر سے بتاتا ہوں ’’تمہارے بابا نے اس کمرے سے اپنے قلمی، صحافتی کیریئر کا آغاز کیاتھا‘‘۔ کہانی لمبی ہے جس میں دکھ سکھ بہت لیکن کومپرومائز نام کی کوئی شے، نہ کوئی باس اور نہ کوئی ورکنگ آورز۔ پیشہ ورانہ زندگی سو فیصد خود مختارانہ۔ رب نے بھی شکر خورے کو شکر سے بے حساب نوازا۔ پی آر تو دور کی بات کبھی سوشلائز تک نہ کیا۔ یہی سب سے بڑا اجر اور انعام تھا جو شاید اسی آوارہ کام میں ممکن تھا۔ اسے چھوڑ کر کچھ لوگ غلامی کیسے کرلیتے ہیں؟ایسی کون سی کشش ہے جو آزاد لوگوں کو قفس تک لے جا کر انہیں ذلیل ہونے پر مجبور کرتی ہے؟ سکول، کالج، یونیورسٹی کے دوستوں سے ہی کبھی فرصت نہ ملی سو اپنے پیشے میں دوستیاں نہ ہونے کے برابر لیکن جب بھی کسی ہم پیشہ، ہم قلم کی اہانت کا سنتا ہوں کہ نکالا گیا یا نکل جانا پڑا کہ ایک چھٹکی سی وزیر اسے جینے نہ دیتی تھی تو دکھ ہوتا ہے لیکن پھر سوچتا ہوں کہ جنہیں خود اپنی عزت عزیز نہیں، کوئی اور ان کی عزت کیوں کرے؟ خاص طور پر یہ کٹھور سوشل میڈیا جو اس کی پگڑی بھی اچھال دیتا ہے جس کے سر پر پگڑی ہی نہیں ہوتی۔

تازہ ترین