• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نا اہل قرار پانے والے وزیر اعظم نوازشریف نے منصب چھن جانے کے بعداپنے آبائی شہر لاہورکا رخ کیا ، وہ یہ سفر ہوائی جہاز اور اپنی ہی بنائی ہوئی موٹر وے پر بھی کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے براستہ جی ٹی روڈ لاہور جانے کو ترجیح دی، کئی دن پر محیط اس سفر میں نواز شریف کا گز ر ان علاقوں سے ہوا جنہیں روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کا گڑھ مانا جاتا ہے، راولپنڈی سے لیکر لاہور تک شاید ہی کوئی شہر یا قصبہ ہوگا جہاں رک کر نواز شریف نے تقریر نہ کی ہو، اپنی ہر تقریر میں نواز شریف یہ بتاتے رہے کہ پانچ ججوں نے انہیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینےکی پاداش میں نکال دیا۔اس سفر کے دوران جوں جوں تقاریر کی تعداد بڑھتی گئی توں توں نواز شریف کا رویہ بھی جارحانہ ہوتا گیا، لاہور پہنچنے تک نواز شریف نے عدالتی فیصلے کو نہ صرف رد کردیا بلکہ اسے سویلین بالادستی پر ایک کاری ضرب بھی قرار دے دیا۔ عدالتی فیصلوں کے بارے میں ایسی رائے نواز شریف ہمیشہ سے نہیں رکھتے تھے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں جب جوڈیشل ایکٹوزم کا طوطی بولتا تھا تو میاں نواز شریف اسی عدلیہ کی مداح سرائی کرتے تھے۔ جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت نے اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اس وجہ سے چلتا کیا کہ وہ اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں کو خط لکھنے پر تیار نہیں تھے، وزیر اعظم گیلانی نے بارہا عدالت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ آئین میں درج صدراتی استثنیٰ کے باعث ایسا کرنا ممکن نہیں ہے لیکن عدالت نے اس دلیل کو رد کرتے ہوئے وزیر اعظم گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دے دیااور پھر اسی بنیاد پر انہیں نا اہل بھی کر دیا۔ ان دنوں میاں نواز شریف عدالت کے فیصلے کو انصاف کی فتح قرار دیتے تھے ، لیکن اس بار انہوںنے کھل کر عدالتی فیصلے کو کسی بڑی سازش کی کڑی قرار دے دیا۔ ملک کی سب سے بڑی عدالت پرجانبداری کا الزام لگاکرنواز شریف ایک بہت بڑا جوا کھیل رہے تھے۔ پانامہ فیصلے کے خلا ف ایک جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کرکے نواز شریف نے جو جوا کھیلا تھا اسکی کامیابی کے لئے جی ٹی روڈ کا سفر بہت اہم تھا۔اس سفر پر ملنے والے رسپانس نے یقیناََنواز شریف کو کافی حوصلہ فراہم کیا، جتنے بھی عوام باہر نکلے انہیں دیکھ کر نواز شریف اور انکی پارٹی کو یہ یقین ہو گیا کہ انکے سپورٹرز اور ووٹرز کی ایک بڑی تعداد نے عدالتی فیصلے پر نواز شریف کے موقف کو تسلیم کر لیا ہے۔یہ ایک بڑی کامیابی اس لئے تھی کیونکہ پانامہ کیس کے فیصلے کے تناظر میںپارٹی کو ہونے والے ممکنہ سیاسی نقصان پر کسی حد تک قابو پا لیا گیا تھا۔اگر نواز شریف جی ٹی روڈ پر آکر اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ نہ کرتے تو عین ممکن تھا کہ اگلے انتخابات میں اپنی سیٹ کی فکر میں مبتلا انکی سیاسی جماعت کے بہت سے ایم این ایز اور ایم پی ایز دوسری سیاسی جماعتوں کا رخ کر لیتے۔
اگرچہ عدلیہ پر تنقید کرنے سے نواز شریف کو مستقبل قریب میں کوئی ذاتی فائدہ ہوتا نہیں دکھائی دیتا، لیکن پھر بھی انکی سیاسی جماعت کی بقا کے لئے جارحانہ رویہ اپنانا ضروی تھا۔ ایسے حالات میں جب نواز شریف کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ انہیں احتساب عدالت سے بھی سزا دلوائی جائے گی انہوں نے کھل کر یہ دعویٰ کر دیا کہ عدلیہ غیر جانب دار نہیں رہی۔ اس غیر جانبدارانہ رویے کا ذمہ دار نواز شریف کچھ نادیدہ قوتوں کو قرار دیتے ہیں۔لاہور میں این اے ایک سو بیس کے ضمنی انتخاب کے دوران تو انکی صاحبزادی مریم نواز شریف (جو اپنی والدہ کلثوم نواز کی کمپین چلا رہی تھیں) نے نادیدہ قوتوں پر الزام عائد کیا کہ وہ انکے ورکرز کو ہراساں کر رہے ہیں۔ ایسی ہی کچھ باتیں تب بھی سننے میں آئیں جب آئین کے آرٹیکل دو سو تین میں ترمیم کیلئے اپوزیشن کی جانب سے بل پیش کیا گیا۔اس وقت مسلم لیگ نون کے بیشتر ایم این ایز نے دعویٰ کیا کہ انہیں کچھ نادیدہ قوتوں کی طرف سے پیغام دیا گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے وقت وہ غیر حاضر رہیں۔ پھر فیض آباد دھرنے کے بارے میں بھی مسلم لیگ نون کے بیشتر رہنما کہتے پائے گئے کہ اس کے پیچھے بھی کچھ نادیدہ ہاتھ ہیں۔ گویا نواز شریف اور انکی سیاسی جماعت کے بیشتر رہنمائوں نے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے بیک وقت ٹکرانے کا فیصلہ کر لیا۔پارٹی میں شہباز شریف اور چوہدری نثار اس حکمت عملی کے مخالف تھے، دونوں اس بات پر مصر تھے کہ جارحانہ رویہ اپنانے سے مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھ جائیں گے۔ پھرحدیبیہ کیس دوبارہ کھل جانے سے ایسا محسوس ہوا کہ شاید چوہدری نثار اور شہباز شریف ٹھیک ہی کہہ رہے تھے، لیکن حدیبیہ کیس میں نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دینے کے بعد بھی نواز شریف اپنے رویے میںکوئی نرمی نہیں لائے۔اس وقت بہت سے تجزیہ نگاروں نے کہا کہ نواز شریف اپنی انا کی خاطر نہ صرف اپنے بھائی بلکہ اپنی سیاسی جماعت کو بھی دائو پر لگا رہے ہیں۔ لیکن پچھلے چند ہفتوں میں ہونے والے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ نواز شریف نے جو جوا کھیلا تھا اس میں وہ کافی حد تک کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس میں نیب کی اپیل خارج کر دی،اسی روز سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کو نا اہل قرار دے دیا، اگرچہ عمران خان نا اہلی سے بچ گئے لیکن جہانگیر ترین کے نا اہل ہو جانے کے بعد آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے بارے میں انکے خیالات یکسر تبدیل ضرور ہو گئے۔ پھرسپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے لاہور میں ایک تقریب کے دوران جو گفتگو کی اس سے بھی ظاہر ہوا کہ اب عدلیہ خود کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اب تو نواز شریف نے اگلے انتخابات میں شہباز شریف کو پارٹی کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا امیدوار قرا ر د ے کر پا رٹی کے اند رجا ر ی کھسر پھسر کو بھی ختم کر دیا ہے اب پا رٹی کو علم ہے کہ ان کا وزیر اعظم کو ن ہو گا اور شہبا ز شریف کا مملکت کے امور میں کیا عمل دخل ہو گا اس دوران اگر نواز شر یف کو سزا ہو گئی تو یہ جیل یا تر ا ان کی سیا سی قو ت میں اضا فہ کر ے گی اس طر ح جولائی میں مسلم لیگ نون کو جو دھچکا نواز شریف کے نا اہل ہونے سے لگا تھا اس پر دسمبر میںکافی حد تک قابو پا لیاگیا ہے۔ سیاسی بساط پر موجودہ حالات میں نوازشریف کے لئے اس سے بڑی کامیابی نہیں ہو سکتی لیکن میا ں صا حب کے نقا د یہ کہہ رہے ہیں کہ انہو ں نے مز احمت کا را ستہ چھو ڑ کر درست نہیں کیا آنے والا وقت ہی بہتر جج ہو تا ہے ۔مز احمت یا مفا ہمت کیادونو ں سا تھ سا تھ نہیں چل سکتے ؟اگر نواز شر یف جیل میں نہ ہو ئے تو اس کا عملی مظا ہر ہ آئندہ انتخا بی مہم میں دیکھنے کو مل سکتا ہے ۔نواز شر یف کی تند وتیز تقا ریر ،مجمع کا جو ش ، تا لیا ں اور دوسری طر ف جما عت کا انتخا بی ڈھا نچہ خا مو شی سے انتخا ب جیتنے کے لئے کا م کر تا رہے گا۔

تازہ ترین