• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دسمبر کے اس ہفتے میں دھند کا راج ہوتا تھا۔ ہوائی جہاز کی پروازیں منسوخ، شاہراہیں مسدود، راستہ مانگنے والی آنکھ دھند کی دبیز چادر سے ٹکرا کے پلٹ آتی تھی۔ اس برس مطلع صاف ہے۔ وجہ یہ کہ اقتدار کے ایوانوں سے ایسی اچھی خبریں آئی ہیں کہ کہرا چھٹ گیا ہے۔ 16 دسمبر کو محترم چیف جسٹس لاہور بار کونسل میں بولے، واللہ موچی دروازے کا رنگ باندھ دیا۔ قسم اٹھائی کہ عدلیہ پر کوئی دباؤ نہیں۔ یہاں تک کہہ دیا کہ ہم پر دباؤ ڈالنے والا پیدا ہی نہیں ہوا۔ پھر عدلیہ کو قوم کا بابا قرار دیتے ہوئے عزت و احترام کا مطالبہ بھی کیا۔ جمہوریت کی دوٹوک حمایت کرتے ہوئے یہ معاملہ بھی صاف کر دیا کہ کسی پلان وغیرہ کا کوئی وجود نہیں، ’کس کی جرات ہے کہ ہم سے کسی خاص طرح کا فیصلہ مانگے‘۔ پھر کچھ ذکر بابا رحمت کا بھی رہا۔ ہماری ہڈیوں میں تو مرحوم اشفاق احمد کے روحانی بابے رچے ہیں۔ ایک بابا قدرت اللہ شہاب نے تخلیق کیا تھا، مقامات روحانی سے بہرہ مند نوے سالہ جوان جو بندوبست ریاست پر بزبان انگریزی خامہ فرسائی کر کے صدر کے سیکرٹری تک پہنچا دیتا تھا۔ جالب نے ایسی ہی کسی پرچہ نویسی پر خوش ہو کے لکھا تھا ’کر ایسی غزل سے بسم اللہ، صاحب کا سکتر جھوم اٹھے‘۔ محترم چیف جسٹس نے ایسی کھری باتوں کے بیچ یہ بھی کہہ دیا کہ ’مقننہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرے گی تو ہمیں آگے آنا پڑے گا‘۔ اسے کہتے ہیں مقطع میں سخن گسترانہ بات آنا۔ آئین کی کتاب میں عدلیہ کا منصب آئین کی تشریح کرنا ہے، انتظامیہ یا مقننہ کی جگہ لینے کا کہیں ذکر نہیں آیا۔
تین روز بعد 19 دسمبرکو سالار افواج ایوان بالا میں تشریف لے گئے، چار گھنٹے تک ایسی دل پذیر نشست رہی کہ مختار صدیقی یاد آ گئے۔ ’چشم براہ تھی، دیکھیے، ہم کو چاہنے والے کب چاہیں‘۔ جنرل صاحب کے ارشادات ایوان بالا کے بند اجلاس میں ارزاں کیے گئے لیکن ادھر ادھر سے خوش نوا طیور بصیرت کے کچھ لعل و گوہر نکال لائے ہیں۔ جنرل صاحب نے فرمایا ’حکومت کرنا فوج کا کام نہیں۔ اگر ماضی میں ایسا ہوا ہے تو غلط ہوا ہے‘۔ پتے کی بات یہ کہی کہ ’پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ خارجہ پالیسی بنائے، دفاعی پالیسی مرتب کرے، ہم اس پر من و عن عمل کریں گے۔ ہم ملک میں پارلیمانی جمہوریت کے حق میں ہیں۔ صدارتی نظام ملک کیلئے نقصان دہ ہے‘۔ گزشتہ برسوں میں ٹی وی آسکرین پر دفاعی تجزیہ کاروں کا جو ٹڈی دل اترا تھا، جنرل صاحب نے گویا اس کی لٹیا ہی ڈبو دی۔ صاف کہہ دیا کہ ٹی وی چینلز پہ آ کر تبصرے کرنے والے ریٹائرڈ فوجی افسران فوج کے ترجمان نہیں ہیں۔ ایسی مرصع غزل میں گریز کا ایک ٹکڑا جنرل صاحب نے بھی رکھ دیا، فرمایا کہ کئی لوگ خود غائب ہو جاتے ہیں اور ریاستی اداروں کے ہاتھوں گم شدگی کا ناٹک رچاتے ہیں۔ عدلیہ اور فوج کے سربراہوں نے ایسی اچھی خبروں کی برکھا برسائی ہے کہ حفیظ ہوشیار پوری حیات ہوتے تو انہوں نے کھٹ سے مادہ تاریخ نکال دیا ہوتا، ’تیری آواز مکے اور مدینے۔ تفنن برطرف، اس خوش نوائی کے انتظار میں چار نسلیں کھیت رہی ہیں۔ یہ تو سر پر ڈھول اٹھا کر سڑک پہ نکلنے کی گھڑی ہے۔ بیساکھ میں ابھی کچھ دن باقی ہیں مگر ایسی سرسوں پھولی ہے کہ ونگار کے ڈھول پر ابھی سے ڈنکا لگے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ ملک کے اندر اور باہر پاکستان کے بدخواہ تڑپ رہے ہیں۔ اگرچہ اس وقت یوں لگتا ہے کہ آزمائش کی گھڑی سے نکل آئے ہیں اور جشن کا مرحلہ آن پہنچا ہے لیکن اس میں چنیوٹ کی ایک غریب عورت رانی بی بی نے کھنڈت ڈال دی ہے۔ انیس برس پہلے رانی بی بی پر اپنے شوہر کے قتل کا الزام لگا تھا۔ پندرہ برس کی رانی بی بی کو ماں باپ اور بھائی سمیت گرفتار کر لیا گیا۔ رانی بی بی کہتی ہے کہ پولیس والے نے چار سو روپے رشوت مانگی تھی۔ غریب گھرانا تھا، چار سو روپے رشوت پیش نہیں کر سکا۔ بوڑھا باپ تشدد سے مر گیا، رانی بی بی اور اس کے بھائی کو انیس برس جیل کاٹنے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ’باعزت‘ بری کر دیا ہے۔ محترم چیف جسٹس ثاقب نثار اور پاک فوج کے محترم سربراہ کے بصیرت افروز ارشادات سے بھی یہی لگتا ہے کہ قوم عشروں کی آزمائش سے باعزت بری ہو گئی ہے۔ مشکل یہ ہے کہ رانی بی بی چار سو روپلی رشوت کے عوض انیس برس کی قید کے بعد اپنی رہائی کو ’باعزت‘ ماننے سے انکاری ہے۔ عوام بھی یہی پوچھ رہے ہیں کہ کیا اقتدار کے ایوانوں میں قوم واقعی ’باعزت طور پر بری‘ ہو چکی ہے؟پرچہ نویسی قدیم فن ہے۔ پرچہ نویس ہوا کا رخ دیکھ کے ایسا ’احوال واقعی‘ کاغذ پہ اتارتا ہے جس سے صاحبان اقتدار کی خواہشات کو اعتماد نصیب ہو۔ کالم نویس کا کام نازک ہے۔ کالم لکھنے والے کو امروز کے جشن مسرت میں پارسال کی خشک سالی اور آئندہ برس کی فصل کا حساب بھی رکھنا ہوتا ہے۔ محترم چیف جسٹس اور جناب جنرل صاحب نے جو فرمایا، سر آنکھوں پر، لیکن یہ معاملہ محض آج کی پرچہ نویسی کا نہیں ۔ ریاستی اداروں کے موجودہ منصب دار اپنی زیر نگرانی معاملات کی شہادت تو دے سکتے ہیں لیکن ان اداروں کی ایک تاریخ بھی ہے۔ عدلیہ ہی کو لیجیے، کیا ہماری تاریخ میں عدلیہ پر دباؤ کے شواہد موجود نہیں ہیں؟ جسٹس محمد منیر ڈوسو کیس کا فیصلہ سنانے کے بعد بلند فشار خون کے ہاتھوں صاحب فراش ہو گئے تھے۔ بیگم نصرت بھٹو کیس کے فیصلے میں ضیا آمریت کو آئین میں ترمیم کا اختیار ہاتھ سے لکھ کر ایزاد کیا گیا تھا۔ حاجی سیف اللہ کیس میں اسلم بیگ اور وسیم سجاد کی پیام رسانیاں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ بھٹو شہید کے مقدمے میں دباؤ کا اعتراف جسٹس نسیم حسن شاہ نے کیا تھا۔ کیا نوے کی دہائی میں حکومتوں کے بناؤ بگاڑ کے فیصلے دباؤ سے آزاد تھے۔ ابھی حدیبیہ کیس میں محترم عدالت نے "جلا وطنی" کی اصطلاح کے بارے میں استفسار کیا تھا، سماعت تشنہ جواب رہی ہے۔ غیر آئینی حکومتوں کو جواز بخشے گئے۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھائے گئے۔ یہ کہنا سراسر ناانصافی ہو گا کہ بطور ادارہ عدلیہ کا ماضی دباؤ سے آزاد رہا۔
اٹک کے مقام پر دو دریاؤں کا سنگم ہوتا ہے۔ ہماری تاریخ میں اٹک کے آس پاس عدلیہ کی لہر اور عسکری موج کا اتصال امر واقعہ رہا ہے۔ چار مارشل لا لگائے گئے، سیاسی جماعتیں تخلیق کی گئیں، رائے عامہ کے پرندے کو پھسلانے کیلئے جمہوریت کی کھیتی میں جال بچھائے گئے، مقبول عام قیادت کو بے دست و پا کیا گیا، سیاسی ثقافت کو تاخت و تاراج کیا گیا، جنگیں لڑی گئیں، جن کے حقائق کبھی سامنے نہیں آ سکے۔ ملک دولخت ہوا، قوم کو بے خبر رکھا گیا، ربع صدی بعد حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا جو حصہ منظر عام پہ آیا، چشم کشا تھا۔ کارگل کی رپورٹ تو خیر نصیب دشمناں ہوئی، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ تک منظر پر نہیں آئی۔ خود غائب ہو کر گمشدگی کی اطلاعیں پھیلانے والوں کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں نہیں ملا کرتیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے گرین کارڈ لینے کے لئے کوئی عورت خود کو ریپ نہیں کرواتی۔ قوم کو محترم چیف جسٹس اور محترم آرمی چیف پر پورا اعتماد ہے لیکن تاریخ کا حساب شخصی ساکھ کا معاملہ نہیں ہوتا۔ چنیوٹ کی رانی بی بی انیس برس کی بیگناہ اسیری کے بعد ’باعزت رہائی‘ کا مفہوم پوچھتی ہے۔ قوم بھی چاہتی ہے کہ محترم اداروں کی طرف سے خوش کن اعلانات کو اعتماد کی بنیاد فراہم کرنے کیلئے ایک ٹروتھ کمیشن بننا چاہئے۔ ماضی کو مٹایا نہیں جا سکتا، لیکن ماضی پر مٹی بھی نہیں ڈالنی چاہیے۔ آئین، جمہوریت اور قومی استحکام کی راہ پر آگے بڑھنا ہے تو ماضی کی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیے تاکہ قومی ادارے افراد کی غلطیوں کے ناروا بوجھ سے چھٹکارا پا سکیں۔

تازہ ترین